الزام تراشی کی بجائے تحقیقات کا راستہ

Panama Leaks

Panama Leaks

تحریر : محمد اشفاق راجہ
خفیہ اور سمندر پار کمپنیوں سے متعلق پانامہ لیکس کے بعد دنیا کے کئی ملکوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، بھارت، آسٹریا، سویڈن اور ہالینڈ میں تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ فرانس میں بھی تفتیش پر غور کیا جا رہا ہے۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم پاناما لیکس میں نام آنے پر برہم ہو گئے اور ایک انٹرویو کے دوران سوال پوچھنے پر شو چھوڑ کر چلے گئے۔ روسی صدر ولادی میرپوٹن، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور یوکرائن کے صدر پیٹروپوروشنکیو کے ترجمانوں نے ان سربراہوں کے کسی غیر قانونی کاموں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ آسٹریلین ٹیکس حکام نے منظرِ عام پر آنے والی آٹھ سو شخصیات کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیکس ایجنسی نے بھی لافرم موزیک فونسیکا سے متعلق لوگوں کو طلب کر لیا ہے۔ آئس لینڈ کی اپوزیشن نے وزیر اعظم سگمنڈ سنگلاگسن کے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے آنجہانی والد کا نام آنے پر معاملے کی تحقیقات تک پہنچنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ ان کے والد کے آف شور کمپنیوں سے تعلقات ان کا نجی معاملہ ہے۔ پانامہ لیکس میں 500 کے قریب بھارتیوں کے نام بھی آئے ہیں۔

جن کے متعلق تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ اہم بھارتی شخصیات میں امیتابھ بچن بھی شامل ہیں جن کا نام اگلے صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ دنیا بھر میں تو ان اطلاعات پر ٹیکس حکام حرکت میں آئے ہیں اور جن کے خلاف تحقیقات ہوں گی اگر وہ اس ضمن میں اپنے اپنے ملکوں کے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ثابت ہوں گے تو قانون کے تحت کارروائی کے مستوجب ہوں گے لیکن پاکستان میں ان لیکس کا ”استقبال” اپنے ہی مخصوص انداز میں کیا گیا ہے۔ اس کلچر کا خاصا یہ ہے کہ اپنے پروں پر پانی نہ پڑنے دو اور دوسروں پر الزام تراشی میں کوئی لمحہ ضائع نہ کرو وزیر اعظم کی فیملی کی جانب سے حسین نواز نے یہ وضاحت کی ہے اور لگی لپٹی رکھے بغیر تسلیم کیا ہے کہ یہ کمپنیاں ان کی ہیں اور انہوں نے کوئی بے قاعدگی نہیں کی، انہوں نے یہ پیش کش بھی کی ہے کہ جو بھی ادارہ تحقیقات کرنا چاہے کر لے اْن کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی تسلیم کیا ہے کہ وہ اپنے بھائی کی کمپنی کی ٹرسٹی ہیں اور ضرورت پڑنے پر انہیں حسین نواز کے بچوں کے اثاثے تقسیم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

Rana Sana

Rana Sana

پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب کو پانامہ لیکس پر تحقیقات کا اختیار ہے ان حالات میں بہتر طرز عمل تو یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت بھی دنیا کی بہت سی دوسری حکومتوں کی طرح تحقیقات کا آغاز کر دے اور نتیجے کے طور پر جو کچھ سامنے آئے وہ مجاز فورموں کے سامنے رکھ دیا جائے لیکن ہماری ساری توجہ الزام تراشی پر ہے تحقیقات پر نہیں گویا اس سارے معاملے پر بھی سیاست شروع کر دی گئی ہے۔ شریف فیملی کے علاوہ جو نام سامنے آئے ہیں ان چند نمایاں ناموں میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو، سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین، سابق نائب وزیر اعظم اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی، سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک، ممتاز بینکار شوکت ترین، عثمان سیف اللہ اور بہت سے دوسرے شامل ہیں۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیر اعظم نوازشریف پر منی لانڈرنگ کا الزام لگایا ہے اور نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی باری آئی تو کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ وزیر اعظم بتائیں پیسہ کیسے آیا اور کیسے باہر گیا لیکن ان کے جواب میں وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ پانامہ لیکس نے شریف خاندان کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کر دی اور ان کے صاحبزادوں کے تمام اثاثے حلال ہیں۔ رپورٹ میں وزیر اعظم نوازشریف ا ور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی بیرونِ ملک کسی جائیداد کا ذکر نہیں انہوں نے عمران خان کو چیلنج کیا کہ الزامات لگانے کی بجائے برطانوی عدالت میں مقدمہ کریں۔

Investigations

Investigations

جس طرح آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، چین، برطانیہ، بھارت اور دوسرے ملکوں میں تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اسی طرح حکومتِ پاکستان کے متعلقہ ادارے بھی کام شروع کر دیں اور معاملے کی تہہ تک پہنچ کر یہ فیصلہ کریں کہ پاناما لیکس میں جن لوگوں کے نام آ رہے ہیں انہوں نے جو دولت کمائی اس پر ٹیکسوں کی ادائیگی کی یا نہیں۔ یہ طرز عمل بالکل جائز نہیں کہ پاناما لیکس کی جو اطلاعات ہمیں خوش آئیں ان پر تو ہم واہ واہ کے ڈونگرے برسا دیں اور ان کی بنیاد پر بیان بازی بھی شروع کر دیں لیکن جو اطلاعات ہمارے مزاج کے موافق نہ ہوں یا جن کی بنیاد پر ہمارے بعض پسندیدہ رہنماؤں کی شہرت پر زد پڑتی ہو انہیں بیک جنبش قلم مسترد کردیں چونکہ ان ساری اطلاعات کا سرچشمہ ایک ہی مقام سے پھوٹا ہے اس لئے یہ یا تو سب درست ہوں گی، یا سب غلط، ”پک اینڈ چوز” کا رویہ منطق کے خلاف ہوگا،

اس کا حل یہی ہے کہ ان اطلاعات میں سے جس کسی کا بھی ہمارے ملک کے سیاستدانوں، بیورو کریٹس،بینکاروں، کاروباری شخصیات وغیرہ سے تعلق ہو ان سب کے بارے میں ایک ہی پیمانے سے تحقیقات کرالی جائیں اور غیر جانبداری سے جس نتیجے پر پہنچا جائے اس کا اعلان کر دیا جائے۔ اپنی پسند کی باتیں قبول کر لینا اور دوسروں کی پسند کی باتوں کو مسترد کر دینا قرینِ انصاف نہیں ہوگا پھر اس معاملے میں اتنی جلدی بھی کیا ہے؟ کہ بے صبری اور عجلت کا رویہ اختیار کیا جائے جب تک یہ اطلاعات منظرِ عام پر نہیں آئی تھیں اس وقت تک ہماری قومی زندگی جس ڈگر پر چل رہی تھی اب ان اطلاعات کے باعث کیا اس کی رفتار میں کوئی کمی آ جائے گی یا یک دم کوئی انقلابی تبدیلی رونما ہو جائے گی یا ہمارا سیاسی کلچر ایک دم ہر طرح کی کرپشن سے پاک صاف ہو جائے گا۔ سیاست میں جو طوفان اٹھا ہے اس کی لہریں اگلے چند دنوں تک اتنی تندخو نہیں رہیں گی اور کناروں سے سرپٹختے پٹختے بالآخر دم توڑ جائیں گی ، پاناما لیکس کے حمام میں اگر کوئی ایک یاچند لوگ ننگے ہوتے تو شاید کچھ فرق پڑتا، یہاں تو بے لباسوں کی ایک بڑی تعداد پڑی ہے اس لئے بہتر حکمت عملی یہ ہے کہ تحقیقات کا آغاز کر دیا جائے ہنگامہ اپنے آپ فرو ہوتا رہے گا

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجہ