لہو ہمار بھلا نہ دینا

Army Public School

Army Public School

تحریر : عظمان آصف،لاہور
٩سالہ ننھا حارث اپنی ماں سے پیار کرتے ہوئے، اپنے ننھے سے دل سے صاف گوئی کرتے ہوئے: ماں پیاری ماں !مجھے میرے ماتھے پہ بوسہ دونا، ادھر دیکھئے تو، آپ کا شہزادہ کتنا پیارالگ رہا ہے ۔ماں! ہماری ٹیچر کہتی ہیں کہ جو بچے اپنی مائوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں وہ پیارے دکھتے ہیں ۔ماں میں تو آپ سے اپنی جان سے زیادہ پیار کرتا ہوں نا!میں تو آپ کو ٹوٹ کر چاہتا ہوں نا!اس لیے میں بھی پیارا لگ رہاہوں نا…!ماں اپنے لخت جگر کوفرط محبت سے گلے لگا کر دنیا جہاں کا سکون محسوس کرتی ہے ۔ اپنے ننھے سے فرشتے کو چومتے ہوئے اپنی بے لوث محبت کا اظہار کرتی ہے۔ ہاں ہاں میرالعل دنیا جہاں سے پیارا ہے۔میرے چاند نے سکول جانا ہے نا؟چلو میںاپنے چاند کو تیار کردوں۔ حارث سکول کے لیے روانہ ہوتے ہوئے:ماں!آج واپس آکر آپ سے کہانی سننی ہے مجھے بہت مزہ آتا ہے جب آپ میر اسر اپنی گود میں رکھ کر میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہانی سناتی ہیں۔ یوںلگتا ہے جیسے دنیا جہاں کا سر ور آپکے ہاتھوں میں سمٹ آیا ہوں ۔ماں !اللہ حافظ۔ ماں اپنے حارث پر اپنی ساری محبت وار دیتی ہے، اپنے خوابوں کی تعبیر کو روانہ کرتی ہے ،”فی امان اللہ ”کہہ کر اسے اپنے مالک کے حوالے کرتی ہے۔دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ اے میرے مالک! اے میرے پروردگار، میرے لخت جگر حارث کی حفاظت فرمانااللہ جی! میرا دل تو نہیں چاہتا کہ اپنے ارمانوں کے گھر کو اپنے دل کے ٹکڑے حارث کو اپنے سے ایک لمحے کو بھی جدا کروں پر تعلیم کی عظمت نے مجبور کردیا۔

اللہ جی! میں اپنے حارث کو علم جیسے زیور سے آراستہ کرنے بھیج رہی ہوں ۔ پھر دل سے نکلتی دعائوں کا سلسلہ چل نکلتاہے اس ممتا کے دل کی ہر دھڑکن اپنے لخت جگر کی سلامتی مانگتی چلی جاتی ہے لیکن …نہ جانے کیوں …اس ممتا کا جی گھبرانے لگتا ہے نہ جانے کیوں اپنے لخت جگر کے پیار کے سمندر میں غوطہ زن اس ماں کواپنی دھڑکنیں رکتی محسوس ہوتی ہیں ۔وہ اپنے ڈگمگاتے دل کو سنبھالنے کی باربار کوشش کرتی ہے۔مگر اپنے آپ کو ناکام پاتی ہے۔اسے اپنے حارث کی ”فی امان اللہ”کی بازگشت سنائی دیتی ہے، مگر وہ ایسا کوئی خیال بھی اپنے ذہن میں نہیں لانا چاہتی کہ اس کاحارث کسی خطرے میں ہے۔مگر نہ جانے کیوں اس کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں ؟وہ کسی مضطرب پنچھی کی طرح اپنے گھرمیں کبھی یہاں کبھی وہاں جاکر اپنا اضطرار مٹانے کی کوشش کرتی ہے۔مگر بے بس …!بے ساختہ حارث کے سکول کی طرف چل پڑتی ہے۔اس کاجی چاہتا ہے کہ وہ اڑ کر اک لمحہ میں اپنے لخت جگر کے پاس پہنچ کر اس کی خیریت معلوم کر کے اپنے ڈوبتے دل کو سنبھال سکے،لیکن اسکے تخیلات کا دھارا لرزا دینے والے دھماکوں کی آوازیں اور دل چھلنی کرتی گولیوں کی تڑتڑاہٹ توڑتی ہیں۔وہ چاہتی ہے کہ یہ آوازیں یہیں تھم جائیں۔دیوانہ وار بھاگتی اس ماں کو سب دھندلا دکھائی دے رہا ہے۔

آن کی آن میں ضبط کے سارے بندھن ٹوٹنے پر وہ چیخ چیخ کر اللہ سے اپنی زندگی کے واحد سہارے کی حفاظت کی دعا مانگتی ہے۔جونہی وہ آرمی پبلک سکول کے پاس پہنچتی ہے کہ جہاں اس کا حارث کچھ دیر پہلے علم کے ساغر سے اپنی پیاس بجھانے کو آیا تھا۔اسے ہر طرف سائرن بجاتی پولیس اور آرمی کی گاڑیاں دکھتی ہیں ،چلاتی اور دوڑتی ایمبولینس دکھتی ہیں ۔یہ لڑکھڑاتی ہے …اسے یہ سب کسی بھیانک خواب کا منظر لگتا ہے ۔یہ جلدی سے جاگ جانا چاہتی ہے مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو پاتا کیوں کہ یہ سب حقیقت ہے۔وہ وہاں موجود ہر کسی سے چیخ چیخ کر اپنے حارث کی سلامتی کی خبر مانگتی ہے مگر بے سود …یہاں تو ہر کسی کا اس جیسا حال ہے ۔یہاں تو سینکڑوں مائیں اپنے لخت ہائے جگر کی سلامتی کی خبر سننا چاہتی ہیں۔ کتنی ہی بہنیںنینو ںمیں اشک لیے اپنے بھائیوں کو سلامت دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔کتنے ہی باپ اپنے خوابوں کے شیش محل زمین بوس ہونے کے ڈر سے پشیماںہیں۔ مالک ارض وسماوات سے بچوں کی طرح بلک بلک کر اپنے جگر پاروں کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے ہیں ۔یہ خاک و خوں کابھیانک کھیل کئی گھنٹے جاری رہتا ہے کتنی ہی دیر مائوںکے دل لہو لہان ہوتے رہتے ہیں۔

Army Public School  Attack

Army Public School Attack

گولیوں اور دھماکوں کا یہ سلسلہ ختم ہواتو اک اور قیامت صغرٰی منتظر تھی۔لہومیں بھیگے لاشے سکول کی چھلنی چار دیواری سے باہر لائے جانے لگے۔کتی ہی کلیاں مسلی جاچکی تھیں ۔کتنے ہی نرم و نازک پھول درندوں کے پائوں تلے کچلے جاچکے تھے۔جو بے قرار مائیں ،باپ ،بہنیں اور بھائی اپنے پیاروں کو اب تلک سلامت نہیں دیکھ پایء تھے،وہ نہ چاہتے ہوئے بھی لہومیں ڈوبے لاشے دیکھنے پر مجبور تھے۔ اپنے پیاروںکو ان بے حس و حرکت ،بے جان ،کٹے پھٹے ، جسموں میں تلاش کرنے پر مجبور تھے۔حارث سے بے انتہا پیار کرنے والی اس کی ماں بھی اسے لاشوںمیں تلاش کررہی تھی۔حارث کا ننھامنا،معصوم اور کٹاپھٹا لاشہ سامنے آتاہے ۔حلانکہ اس ننھے سے پھول کاچہرہ بری طرح زخموں سے بھر چکاہے کسی گل کی نرم و نازک پنکھڑیوں سے لب خوں کے لوتھڑے معلوم ہورہے ہیں ۔لیکن !پھر بھی !اس ننھے فرشتے کے چہرے پہ وہی معصومیت چھلک رہی ہے جو صبح گھر سے نکلتے ہوئے تھی۔ حارث کی ماںاسے جھنجوڑ جھنجوڑ کر اٹھ جانے کو کہہ رہی ہے اسے اپنی محبت کے واسطے ڈال رہی ہے۔ تماشائی زمانہ سے پوچھ رہی ہے کہ کس نے مجھ سے میری زندگی کا واحد سہارا، میرے ارمان،میری محبت…میراحارث چھین لیا کیوں مجھے تنہا کردیا؟حارث کی پھٹی آنکھیں جیسے اوپر دور فلک کو تک رہی ہوں جیسے حارث اپنی نینوں میں ہزاروںشکوے لیے مالک الملک سے زمانے کی ستم ظریفی بیان کر رہاہو،یوں لگ رہاتھا

جیسے وہ سوال کر رہا ہو مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا،مجھے کس نے قتل کیا”اس سوال کاجواب قیامت تک شاید کوئی نہ دے پائے۔یوں لگ رہاتھا جیسے حار ث اپنی ماں سے پیار کرنے کو ترس رہاہو،اپنی ماں کی بانہوں میں سمٹ جانے کو بے تاب ہو۔حارث کی ماں اپنے لہولہان جگر گوشے کو بانہوں میں اٹھاتی ہے ،اپنے حارث کو چوم چوم کر اپنی زخمی ممتا کو سنبھالا دینے کی کوشش کر رہی ہے اس کے پاس حارث کی جیب سے نکلتا ہوا،خون میں لت بت ایک کاغذ کا ٹکڑاہے ۔بے ساختہ یہ ٹکڑا پکڑ کر پڑھنا چاہتی ہے مگر اشک بہابہا کر دھندلا دیکھ رہی ہیں ۔کوشش کے بعد اپنے حارث کی ٹوٹی پھوٹی لکھائی میں اک چھوٹی سی تحریر پڑھتی ہے۔”ماں !پیاری ماں !کبھی مت سوچنا کہ میں آپ سے بے وفائی کر گیا ،ماں میری جان سے عزیز ماں !میں تو آپ کو ٹوٹ کر چاہتاہوں نا!میں آپ کواپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں …ایک جان کیا لاکھ جانیں بھی آپ پر قربان کردوں ،ماں اگر میں آپ سے زندہ نہ مل سکوں ،تو ناراض مت ہونا…مجھے دفنانے سے پہلے اپنی گود میں میرا سر رکھ کر میرے بالوں میں ضرور ہاتھ پھیرنا، اگر جنت میری منتظر بھی ہوئی تو اس سے پہلے میں آپ کے ہاتھوں کا سرور ضرور پانا چاہوںگا۔فی امان اللہ ماں ،فی امان اللہ ماں میری جان سے پیاری ماں۔”

ALLAH

ALLAH

آہ ! اک یہ صرف ایک منظر نہیں، یہاں تو ہر منظر روح تڑپا رہا ہے … یہاں ہر ماں کا یہی حال ہے، یہاں ہر باپ کی ہچکی بندھی ہے… یہاں کتنی ہی بہنیں شدت غم سے بے ہوش ہو چکی ہیں۔آہ! یہاں کتنے ہی زندہ بچ جانے والے طالب علم اپنے لہورنگ لاشوں میں بدلے دوستوں کو اٹھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ انہیں یاد دلانے کی کوششیں کر رہے ہیںکہ انہوں نے ہمیشہ اکٹھے رہنے کے وعدے کئے تھے، ان سے بلک بلک کر اس بے وفائی کی وجہ پوچھ رہے ہیں… ان سے پوچھ رہے ہیں کہ اگر انہیں جانا ہی تھا تو اکیلے کیوں چلے گئے؟ ہر دوست اپنے دوست کے لاشے سے پوچھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ مجھے کیوں نہ ساتھ لے گئے؟ اکیلے ہی یوں جنتوں کے راہی بن گئے؟ اور جیسے یہان کی ہوا، چرند پرند، ابر، آمساں، سب بتا رہے ہوں:
شہید تم سے یہ کہہ رہے ہیں، لہو ہمارا بھلا نہ دینا
قسم ہے تم کو اے سرفروشو، عدو ہمارا بھلا نہ دینا
یہ اجڑے گلشن، ویران گلیاں…
یہ جلتے باغ اور اداس کلیاں…
ہماری مائوں کے بہتے آنسو، قسم ہے تم کو بھلا نہ دینا!

تحریر : عظمان آصف،لاہور