حقیقت تقوی

 Piety

Piety

ایک لفظ عام ہے کہ تقوٰی اختیار کرو اور اکثر کتب و خطابات علماء کرام میں بھی اس لفظ کا تذکرہ ہمیں سننے کو ملتاہے تو آج ہم یہ ہی سمجھ لیتے ہیں کہ تقوے کا اصل مقصد کیا ہے تقوے کے معانی و مطالب لکھتے ہوئے مشائخ کرام نے کئی توضیحات بیان فرمائی ہیںان میںسے ایک یہ ہے کہ”تنزیہ القلب عن ذنب لم یسبق عنک مثلہ”ترجمہ اس گناہ سے دل کا بچانا جس کی مثل اس سے قبل تجھ سے وقوع پذیر نہ ہو ا ہو۔ اور اس ہی تعریف کے بارے میں امام غزالی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میرے شیخ رحمة اللہ تعالی علیہ نے تقوے کی یہ ہی تعریف کی ہے۔ قران مجید میں لفظ تقوٰی تین معانی میں استعمال کیا گیا ہے (١)ایک خوف و خشیت خدا وندی ۔جیسا کہ قران حکیم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ ”وایای فاتقون”ترجمہ اور خاص کر مجھ ہی سے ڈرو۔(القران)اورایک اور مقام پہ ارشاد ہو تا ہے کہ ”واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ”ترجمہ اور اس دن سے خوف کرو جب تم اللہ کے حضور پیش کئے جائو گے(القران)ان دونوں آیات مبارکہ میں اللہ تعالی نے لفظ تقوی کا استعمال ڈر و خوف کے لئے کیا۔تو ان دو آیات کے استدلال سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ تقوی کا معنی خوف و ڈر بھی ہے (٢)اطاعت و عبادت ۔لفظ تقوی قران مجید میں طاعت و عبادت کے لئے بھی استعمال ہو ا ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ”یایھاالذین امنوالتقوااللہ حق تقاتہ”ترجمہ اللہ تعالی سے اسطرح ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے اس آیہ کریمہ کی تفسیر کرتے ہو ئے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ”اطیعواللہ حق اطاعتہ”ترجمہ اللہ تعالی کی ایسی اطاعت کرو جیسا کہ اس کی اطاعت کاحق ہے۔

تو اس توضیح سے یہ بات معلوم ہو ئی کہ تقوٰی کا ایک معنٰی اطاعت و عبادت بھی ہے جب ہی تو حضرت ابن عباس رضی للہ تعالی عنہ نے اس آیہ کریمہ کی تشریح ان الفاظ میں کی کہ اللہ کی اطاعت اس طرح کرو جیسا کہ کرنے کا حق ہے (٣)گناہوںسے کنارہ کشی کرنا ۔قران حکیم میںلفظ تقوی گناہوں سے کنارہ کشی کرنے کے معنی میںبھی استعمال ہواہے قران مجید میں ارشاد خدا وندی ہے”ومن یطع اللہ و رسولہ و یخشی و یتقہ فاولئک ھم الفائزون”اور جولوگ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرتے اور ڈرتے ہیں اور قلب کو بعد من المعاصی رکھتے ہیں(گناہوں سے کنارہ کشی کرتے ہیں)تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں(القران)اس آیہ کریمہ میں یہ لفظ گناہوں سے بچنے کے معانی میں مستعمل ہو ا ہے اس لئے اس آیہ کریمہ کو بطور استدلال لائے ہیں کہ یہ بھی تقوٰی کے معانی میں سے ایک معنی ہے ۔تقوے کے یہ معانی لکھنے کے بعد حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ یہا ں یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی ہے کہ اگر اس لفظ کا حقیقی معنی وہ ہو تا جو سابقہ لیا گیا تو اس مقام پہ کبھی بھی یہ ترتیب نہ ہو تی بلکہ یہاں پہ سب سے فرمایا جارہا ہے کہ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو ۔لہذا اس کا وہ معنی جو اوپر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے مذکور ہو احقیقی نہیں ہو سکتا۔ اسکے بعد خشیت کادرس دیا جارہا ہے۔

Fear From Allah

Fear From Allah

تو تقوے کا معنی خشیت بھی نہیں ہو سکتا اگر خشیت ہو تا تو اس لفظ تقوٰی سے پہلے ذکر خشیت کیوں آتا اس سے معلوم ہوا کہ خوف و خشیت بھی اس کے حقیقی معنی نہیںاس کے بعد لفظ تقوی آیا ہے تو گویا جو پہلے معانی ہیں ان پہ تقوے کااطلاق مجازاہے اور حقیقی طور پہ اسکا مطلب یہ ہے کہ قلب کو بعد من الذنوب یعنی گناہوں سے دوررکھا جائے اور اس آیہ کریمہ میںیہ ہی معنی مستعمل ہوئے ہیں۔لیکن امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک تقوے کا ایک اور معنی بھی ہے(٤)اس کام کو چھوڑ دینا جس سے شریعت نے روکا ہو ۔اس پہ وہ یہ عبارت دلیل کے طور پہ لائیںہیں کہ”ان سمی المتقون متقین لترکھم مالاباس بہ حذر ابہ عمابہ بائس” ترجمہ متقیوں کو متقی ا س وجہ سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے مباح چیزوں کو بھی ترک کر دیا ہے اس ڈر سے کہیں اس میں نہ پڑھ جائیں جس سے روکاگیا ہے۔پھر اس مقام پہ تقوے کی دوتعریفیں کی گئی ہیں کہ تقوے سے مراد یہ ہے کہ ہر اس فعل سے اجتناب کرنا جس سے شریعت کو نقصان پہچنے کا اندیشہ ہو۔

اب یہ نقصان پہچانے والی اشیاء دو طرح کی ہیں (١)حرام ومعصیت (٢)حلال مادون الضروریات ۔وہ چیزیں جب کا حصول جائز تو ہو مگر وہ حاجت ضروری سے زیادہ ہو۔ ان فضولیات میں انہماک بھی انسان کو یاد الہی سے غافل کر دیتا ہے ضرورت سے زیادہ سہولتوں سے نفس کی عاد ت خراب ہو جاتی ہے اور اس میں پھر حرص و طمع و لالچ پیداہو تی ہے اور اس طرح انسان حق سے دور ہوتا جاتاہے ۔اس لئے جو انسان اپنے دین و ایمان کو سلامت رکھنا چاہتاہے تو اسے چاہیے کہ وہ حرام و معصیت سے محفوظ و مامون رہنے کے ساتھ ساتھ ترک مباح لایعنی بھی کرے۔تاکہ اسکو یہ زیادتی اسکو حرام تک نہ پہنچا دے جیسا کہ اللہ کے رسول ۖ نے اس ہی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرمایاہے کہ ”ترکھم مالاباس بہ حذراعمابہ باس”ترجمہ ان لوگوں اسکو چھوڑ دیا جو جو کہ ان کے لئے حلال تھی اس خوف سے کہ وہ حرج (حرام )میں نہ پڑھ جائیں۔(الحدیث)یہاں تک تو تعریف علماء ظواہر کے نزدیک ہو ئی اب علم سر کی رو سے دیکھتے ہیں کہ تقوے کی کیا تعریف ہے ۔ہر اس شر (برائی) سے دل کا بچانا جس کی مثل اس سے قبل تجھ سے وقوع پذیر نہ ہو ا ہو۔تاکہ گناہوں سے دور رہنے کا عزم اوران گناہوں سے حفاظت کا ذریعہ بن جائے۔اب شر کی بھی دو اقسام ہیں(١) ایک شر اصلی (٢)دوسرا شرغیر اصلی۔شر اصلی تو وہ ہے جس کو شریعت نے واضح انداز میں ممنوع قرار دیا ہوجیسے کہ چوری و حرام خوری وغیرہ ۔اوردوسری غیر اصلی جس کو شریعت نے جائز تو قرار دیا ہو مگر اُس سے اس لئے بچنا کہ کہیں نفس حرام میں ہی نہ پڑھ جائے۔

شر اصلی کے مرتکب پہ عذاب ہے اور وہ مستحق نار ہے جب کہ شر غیر اصلی کے کرنے والے پہ عتاب اور کل بروز قیامت اس کو حساب و کتاب کے لئے روکا جائے گا ۔ان دونوں سے محفوظ رہنے والے متقی ہیں حرام سے محفوظ رہنے والے کا درجہ بانسبت مباح چیزوں کے رکنے والے سے کم ہے۔اور مباح چیزوں سے بچنے والا کا مل متقی ہے۔اور یہ ہی متقی شرع مطہرہ کو مطلوب ہے اوراقوال فقہاء میں جو بار بارتقوے کا تذکرہ آتا ہے یا جو تقوی شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں زبان زدعام ہے وہ یہ ہی تقوی ہے اور جس نے یہ تقوی حاصل کر لیا اس نے وہ مقام حاصل کر لیا جس کو پا کہ وہ اللہ تعالی کا قرب خاص حاصل کر کے کونین کی براکات کا حصول کر سکتاہے

Mufti Mamoon Ur Rasheed

Mufti Mamoon Ur Rasheed

تحریر: مفتی مامون الرشید قادری
paksunnileague@gmail.com
03022341334