ایک مرد درویش۔۔۔۔۔۔۔۔پیر سید منور حسین شاہ جماعتی

Pir Munawar Hussain Jamaati

Pir Munawar Hussain Jamaati

تحریر: مفتی صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
اللہ کے دوستوں کی پاک زبانوں سے نکلی ہوئی باتوں اور ان کے پاک دلوں میں آنے والے واردات و مشاہدات اور ان کے جوارح سے ظہور میں آنے والے پُر خلوص معاملات و عبادات کے پڑھنے اور سُننے سے انجذاب بھی ہوتا ہے اور انفعال بھی ،کشش بھی ہوتی ہے اور تاثیر بھی ، انقلاب بھی آتا ہے اور تبدیلی بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور قلب و دماغ میں وہ کیفیات پیدا ہوتی ہیں یا وہ فیضان آتے ہیں جن کے اظہار سے قلم اور زبان دونوں عاجز ہیں۔۔۔۔۔۔۔الہی اسرارو رموز اور برکات و فیوض کے پیکر میں ڈھلی بے ریا مردِ درویش سحر البیان خطیب حضرت پیر سید منور حسین شاہ جماعتی کی دِل رُبا باتیں دِل کو موہ لیتی ہیںیوں تواس کائنات میں کروڑوں انسان آئے اور چلے گئے مگر بعض نفوسِ قُدسیہ ایسے ہوتے ہیں جن کا وجود دھرتی کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہوتا اِنہی یگانہ روزگار ہستیوں میں ایک ہستی حضرت خواجہ محمد یار فریدی رحمة اللہ علیہ بھی ہیںبلاشبہ آپ ان بزرگوں، ہادیوں اور راہبروں میں سے ہیں جن کی عقیدت کے پرچم آج لوگوں کے سروں پر ہی نہیں بلکہ دلوں میں بھی لہرارہے ہیں

وئے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں

آپ روحانیت کے آفتاب، تقوی و پرہیز گاری کا جیتا جاگتا ثبوت، عجز و انکساری کا پیکر، لطف و کرم کا مجسمہ، علم و عمل کا روشن مینار ہیںآپ کی چھوٹوں پر شفقت، ہر کسی پر رافت اور غیروں پر محبت لٹانے کا عمل، دل کو موہ لینے کا اندازِ گفتگو، لہجے میں نرمی و مٹھاس، چہرے پر شفقت آمیز روشنی، رُخِ انور پر تلاوتِ قرآن کی بہار، وعظ و نصیحت پر شگفتہ بیانی اور معتدل ظرافت آپ کے اخلاقِ کریمانہ کے زندہ ثبوت ہیں،جب کلام فرماتے ہیںتو رنگا رنگ پھول جھڑتے ہیں
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑگئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستان بنادیا

یہ بوریا نشین مردِ کامل کتنے کریم ہیں، فیوض و برکات کے خزانے لٹاتے، عیب پوشی فرماتے ہم سیاہ کاروں کو گلے لگاتے کرم پہ کر م فرماتے، دُکھیوں کے دکھ دور فرماتے، مریدوں کی بگڑی بناتے، عقیدت مندوں کے کام سنوارتے، سلسلہ طریقت کا حُسن نِکھارتے اگلی گلی ، قریہ قریہ ، بستی بستی ، کوچہ کوچہ ،ڈگر ڈگر ، نگر نگر ، گام گام ، بام بام قال اللہ و قال الرسول ۖکی صدائے دلنواز بلند کرتے دکھائی دیتے ہیںیادوں کے چراغ محبت کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں جب کسی سے پیار ہوتا ہے اس کے اطوار و اخلاق کو محبت ہی سے جانچا جاتا ہے دل میں بٹھایا جاتا ہے پھر انس بڑھتا ہے پیار کی لگن ابھرتی ہے دل میں ایک مقام پیدا ہوتا ہے آہستہ آہستہ اسی کا ہوجاتا ہے۔ ”من احب شیأً اکثر ذکرہ” جس سے آدمی کو محبت ہوتی ہے اکثر اسی کا ذکر کرتا ہے ہم کو پسند یار کی بانکی ادا لگی حدیث شریف میں ہے کہ” ولی کی نشانی یہ ہے کہ جس کو دیکھنے سے اللہ یاد آجائے آپ کی زیارت باسعادت اس حدیث کی تفسیر بن جاتی ہے آپ کے حسن و جمال کی تجلیاں ہر سو رنگ و نور برسا رہی ہیں

Wali

Wali

یقیناََ آپ اللہ تعالیٰ کے کامل ولی ہیں اور ہر کامل ولی اللہ کو پیارا ہی ہوتا ہے ،کہنے والے کہتے اور لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ولایت ایک دینی اور اسلامی اصطلاح ہے اور دین کا سرچشمہ یا تو کلامِ الہٰی ہے یا پھر سنت و سیرت پیغمبرۖ بعد ازاں فقہ ہو یا علم کلام، تصوف ہو یا منطق و فلسفہ ان میں سے جو چیز قرآن و حدیث اور کتاب و سنت سے ماخوذ یا ہم آہنگ ہو وہ درست اور باقی ”محل نظر” اسلام میں سند یا حجت کوئی فقیہہ ، متکلم، امام، صوفی ، فلسفی، مفسر اور محدث نہیں بلکہ آخری اتھارٹی اللہ اور رسول ۖ ہیں جس بات کی سند اور تصدیق ان دو بارگاہوں سے مل جائے وہ سر آنکھوں پر اور اُن سے ہٹ کر کوئی قول یا فعل ہوگا وہ ترچھی نگاہ کے قابل بھی نہیں اولیاء اللہ وہ ہوتے ہیں جو اپنی خواہش کو خدا کی مرضی سے ہم آہنگ کر چکے ہوں جو بندگی کے مطلوب درجے پر فائز ہوں۔

جن کا وجود لوگوں کے لیے آیت الہٰی ہو جنہیں دیکھ کر خدا یاد آئے جن سے مل کر زندگی کا ڈھب بدل جائے جن کی صحبت میں بیٹھ کر دنیا کم تر اور دین برتر نظر آئے جن کی باتیں علم کی خوشبو دیتی ہوں جن کا کردار گردو پیش کے لیے خدا کی نعمت لگے جن سے مخلوق آزار نہیں آرام پائے اور جو خوف خدا کا پیکر اور اطاعت پیغمبر کا مظہر ہوں یہی نشانیاں ہمیں ”کشف المحجوب””قوت القلوب ” ”رسالہ قشیریہ ””کیمیا ئے سعادت ””فتوح الغیب” اور”التعرف” میں لکھی ملتی ہیں یہ ساری کتابیں تصوف کی ”امہات کتب” کہلاتی ہیں سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کے بندوں اور اس کے پیاروں کا تفصیلی ذکر اللہ کی کتاب قرآن مجیدمیں ملتا ہے ْنہ جانے کیوں میری فطرت میں اولیاء اللہ سے محبت کرنا شامل ہے یہ تو بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اولیاء سے تو اللہ تعالیٰ اور اس کا محبوب ۖ بھی محبت کرتا ہے تو پھر میں کیوں ناں ”اُن”سے محبت کروں،وطن عزیز کی مقتدر خانقاہوں پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ہے ۔

اس لیے کہ قیام پاکستان کے حصول کیلئے ان جید مشائخ عظام نے اپنی فہم و فراست، حکمت و دانش اور بہتر حکمت عملی سے اپنے مریدین کے ہمراہ ان تھک جدوجہد کی جس کے نتیجے میں وطنِ عزیز کا قیام عمل میں آیا ۔زندگی میں بہت کم شخصیات نے مجھے متاثر کیا ہے ان میں ایک شخصیت انسان دوست، دوست شناس، شناسائے کوئے محمدۖ حضرت قبلہ پیر سید منور حسین شاہ جماعتی نقشبندی نہایت ہی خلیق، ملنسار، ہنس مکھ، خدمت انسانیت کے جذبہ سے سرشار ، سادگی کا پیکر، لباس میں نفاست، سوچ میں نظافت، فکر میں لطافت، جو ایک نظر دیکھ لے بس دیکھتا ہی رہ جائے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

قبلہ پیر سید منور حسین شاہ جماعتی پنے زمانے کے عارف کامل اور شہبازِ ولایت ہیں سلوک و معرفت کے میدان میں شاہسوار اور مملکت طریقت کے شہریار ہیںآپ طریقت کے بلند مقام پر فائز ہیں شاداب ہے جن کی برکت سے طریقت کا چمن وہ محبوب جو زندگی کا قرار ہے روحوں کی غذا جس کا دیدار ہے اور ہم شکستہ دلوں کی بہار ہے اس محبوب نے ہم سے کیوں پردہ فرما لیا ہماری بے تاب نگاہوں سے کیوں منہ چھپالیا ،وہ ہمارے کریم، شفیق اور مہربان ہیںمونس و غم خوار ہیںدیدار کراتے دل موہ لیتے ہیںجب بھی کسی کوآپ کی خدمت عالیہ میں حاضری کا شرف نصیب ہوتا ہے تودلی سکون نصیب ہوتا ہے عقیدت مند دور دراز سے سفر کرکے حاضر ہوتے ہیںتو قبلہ پیر صاحب کا پوچھتے پوچھتے دیوانے بن جاتے ہیںجب تک دولت دیدار سے مالا مال نہ ہوں طبیعت بے چین رہتی ہے پیرو مرشد کا نام مبارک لبوں پر جاری رہتا اور جب دیدار ہوتاہے دل کو قرار ہوتاہے تھکن دور ہوتی، روح مسرور ہوتی، جان کو جان ملتی اور ایمان کی چاشنی میسر آتی ہے ہر عقیدت مند یہی سمجھتا ہے کہ سب سے زیادہ مجھ سے ہی پیار ہے، سب سے زیادہ مجھ ہی پر کرم ہے

Pir Naseeruddin Naseer

Pir Naseeruddin Naseer

انوار ربانی چہرہ انور میں چمکتے ہیں بقول پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی رحمتہ اللہ علیہ
جلوئوں نے تیرے دی ہے دل و جاں کو وہ رونق دیدار کی حسرت کا مزا یاد کریں گے وہ لوگ یقیناانسانی معاشرے کے ماتھے کا جھو مر اور انسانیت کا وقار ہو تے ہیں جو خدمت خلق کے ساتھ ساتھ خالق کی بندگی کا فریضہ بھی احسن انداز سے سر انجام دے رہے ہوتے ہیں آج کے اس ما دیت زدہ دور میں روحانی اقدار کے احیاء کے لیے جدو جہد کرنے والے خراج تحسین کے مستحق ہو تے ہیں یہ وہ دور ہے کہ جس دور میں رب کی بندگی اور خدمت انسانیت کی بات کرنا گو یا خطرات کو دعوت دینے کے مترادف سمجھاجا تاہے۔

دُکھیاروں کی بھلائی ہو یابے سہاروں کی راہنمائی اس بے ریا اور بے لوث جذبوں کے حامل مرد در ویش نے شب و روز دیوانہ وار کام کیا اور اتنا کام کیا کہ ,,خدمت،، کو بھی ان پر رشک آنے لگا ،میں نے تو ان کو اپنی شعوری زندگی میں ہمیشہ فروغ دین اور خدمت انسانیت ہی میں کمر بستہ دیکھا ذاتی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر ہر وقت انسانیت کے مفاد کے لیے سو چنا یہ کسی کسی کا خاصہ ہو تا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ صُبح سے لے کر رات گئے تک دور دراز سے آئے ہوئے دُکھوں کے مارے اور ڈھونڈتے سہارے بے کس و بے چَس لو گوں کو سہارا مہیا کرنا اور ان کے اندر فروغ دین کا جذبہ پیدا کرنا یہ محض رب تعالیٰ کے فضل کے بغیر نا ممکن ہے اور جن پر رب کریم کا خاص فضل ہو جائے وہ پھر زندگی کے کسی میدان میں بھی شکست نہیں کھاتے اور کام یابی و کامرانی ان کی دہلیز پر ہا تھ با ندھے کنیزوں کی طرح کھڑی ہو تی ہے ،رب کریم کا فضل اور ہے اور ,,فضلِ کریم ،، اور ہے ۔وادی خدمت انسانیت کے بے لوث اور بے غرض مکیں جناب پیر سید منور حسین جماعتی نقشبندی والہانہ جذبوں سے لیس ہو کر محض رب تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے شب و روز مصروف عمل ہیں

علی پور سیداں شریف کی د ھرتی کا سپوت جس نے آندھی و طوفان ،گرمی و سردی ،دھوپ و چھا ئوں ،شام و سحر اور شب روز کی پر واہ کیے بغیر اپنے سر پر ایک ہی دھن سوار کیے رکھی کہ دکھی انسانیت کی خدمت کیسے کی جا سکتی ہے اور بے سہارا انسانیت کا سہا را کیسے بنا جا سکتا ہے ؟پانچ دریا ئو ںکی سر زمیں پنجاب ہو یا رحمن با با کی دھرتی خیبر پختونخواہ ،شاہ عبد الطیف بھٹائی کا مسکن سندھ ہو یا محبتوں کی آما جگاہ بلوچستان ،مقبوضہ وادی ہو یا آزادخطہ، جنابِ پیر صاحب نے ہر جگہ خدمت انسانیت کے جھنڈے گا ڑھے اوراپنا آپ منوایا ،یقینایہ بہت بڑا کام ہے اور ابھی تک کسی بھی پیر اور خانقاہ نے اس پہلو پر کام تو در کنار سوچا بھی نہیں ہے کہ بے سہارا انسانیت کے لیے کچھ کر گزریں ،اس با برکت اور با سعادت کارِ خیر کی خیرات یقینا خواجہ صا حب کی جھو لی میں آنی تھی اور انہو ں نے اس سو غات اور خیرات کو سمیٹنا تھا سو انہوں نے خوب سمیٹا اور دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی عقبیٰ کو بھی سنوار ڈالا ,,یہ بلند رتبہ جسے ملنا تھا اسے مل گیا ۔

Love Messenger

Love Messenger

اپنے دل میں عشق رسول ۖ کی لگن اور اہلبیت کرام کی محبت کی جوت جگائے اور اولیاء اللہ کی عقیدت کی چمک اپنی پیشانیوں پر سجائے خدمت انسانیت کا یہ عظیم کاررواں انجمن خدا م الصوفیہ ٹرسٹ کی صورت میںاپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے ۔سیاستدانوںکی بے راہ رو جواں نسلیں او ر پیروں کی بگڑی اولادیںخدمت انسانیت تو کجا انسانیت کا وجود بھی اپنی دہلیز پر بر داشت نہیں کر پاتیں اور اپنے آپ کو ماورائی مخلوق تصور کرتے ہو ئے خوامخواہ کے زعم ِبد میں مبتلا ہو تی ہیں حالانکہ یہی ما فوق الفطرت مصنوعی مخلوق اسی انسانیت کے ٹکڑوں پر شب وروز زندگی بسر کرتی ہے اگر مریداپنے پیروں کو نوٹ کے نذرانے دینے اور عوام سیاستدانوں کو ووٹ کے نذرانے دینے بند کر دیں تو انہیں دن کو تا رے نظر آنا شروع ہو جا ئیں گے ،مگر جب ہم پیرصاحب کے شب وروز خدمت انسانیت اور فروغ دین میں صرف ہوتے ہوئے دیکھتے تھے تو دل سے دعا نکلتی کہ ,,اے رب قدیر ،تو اس شخصیت کو اپنی حفظ و اماں میں رکھ ،،عاجزی و انکساری کا مرقع اور خلوص کا پیکر یہ سپوت اگر شام کو”مشاہدہ حق ” میں مصروف نظر آتا تو دن کو تسبیح و تہلیل میں مگن دکھا ئی دیتا ہے ضرورت بھی اس بات کی ہے کہ مو جودہ معاشرے میں روا داری ،اخوت ،بھا ئی چارے ،حسن سلوک اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ کی خیرات تقسیم کی جائے اور پیر صاحب اسی فکر کو لے کر گلی گلی ، کوچہ کوچہ ،بستی بستی ، نگر نگر ، ڈگر ڈگر ، گام گام ، بام بام پہنچا رہے ہیں ۔

شاید امت مسلمہ کی کھوئی ہو ئی قسمت دو بارہ بحال ہو سکے اور یہ سسکتا ہوا معاشرہ پھر سے زندگی کی نئی شاہراہ پر گامزن ہو سکے اور اپنے حصے کا کردار وہ خوبصورتی سے ادا کر رہے ہیںاور روایتی پیروں اور فقیروں سے ہٹ کر اپنے ایک مخصوص انداز میں کام کر رہے ہیںآج جو ملک میں امن کی بہا ریں نظر آرہی ہیں اور پوری دنیا میں اہلسنت و جماعت کی جو لہلہاتی فصل نظر آرہی ہے یقینا اس میں قبلہ پیر صاحب کا حصہ وافر موجود ہے ا اور آج بھی رو حانیت کے پیاسے علم و حکمت کے اس اُبلتے ہوئے چشمہ آستانہ عالیہ علی پور سیداں شریف سے”آبِ زُ لال ” کے کٹو رے بھر بھر پیتے ہیں
بانی پاکستان پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمة اللہ علیہ کے جانشین اور حقیقی روحانی وارث مرد ِ درویش حضرت پیر سید منور حسین جماعتی صاحب بلند ارادوں اور نیک نیتی کے ساتھ پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری کے مصطفوی مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں یقیناََ آپ کی گھٹی میں جذبہ عشق رسول ۖ شامل ہے پیرصاحب کے اکابر نے ہمیشہ جذبہ عشق رسول ۖ کی آبیاری کی ہے اور آج ہر طرف اِنہی اکابرین کے لگائے ہوئے بوٹے گل و گلزار کا کام دے رہے ہیں جن کی خوشبو سے سارا جہان معطر ہے

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر :مفتی صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
03314403420
چیئر مین اُمید ویلفیئر ٹرسٹ ، کالم نگار ، مرکزی سیکرٹری اطلاعات ، مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان