برین واشنگ

Brainwashing

Brainwashing

تحریر : شاہد شکیل
عام طور پر جب برین واش کی بات ہوتی ہے تو تقریباً ہر فرد یہی سمجھتا ہے کہ ذہن یا دماغ کی صفائی کی جاتی ہے یا پھر دوسرا خیال یہ آتا ہے کہ برین واش کسی شیمپو،تیل ،جھاڑو یا ویکیوم کلینر کے ذریعے کیا جاتا ہے ، اصل میں کئی الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کے معنی سمجھنا نہایت مشکل ہوتا ہے بظاہر ایسے رٹے رٹائے الفاظ ہر بچہ بولتا ہے کیونکہ وہ سمجھ بوجھ سے نابلد ہوتا ہے اور جو جی میں آئے یا سنے سنائے الفاظ بے دھڑک بولتا ہے نصابی یا کئی مذہبی کتب کے کئی سبجیکٹ یا پیرا گراف پر بات کی جائے تو بھی کئی بالغ افراد سوچے سمجھے اور اصل معنی جانے بغیر نیاگرا آبشار کی طرح اپنی دھن میں بولے جاتے ہیں نہ انکا کوئی مطالعہ ہوتا ہے اور نہ کسی لفظ کو گہرائی سے جاننے کی سمجھ بوجھ ہوتی ہے کہ آخر اسکا مطلب کیا ہے کہاں ،کب اور کیوں اس لفظ کو دریافت کیا اور کیوں بولا جاتا ہے ،جب تک کسی بھی موضوع ،الفاظ ،کہانی یا حقائق کو تشریح کئے بغیر استعمال کیا جائے گا تو سو فیصد غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گی اور انسان کنفیوژن کا شکار ہوگا مثلاً برین واش ایک عام لیکن بہت کم استعمال ہونے والا لفظ ہے کم استعمال ہونے کے باوجود اس لفظ نے کئی قوموں کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے۔

برین واشنگ کے عمل سے کسی بے ضرر اور معصوم انسان کو اپنے ذاتی مفاد کیلئے اپنی مرضی و منشا سے ایک ہی بات کو بار بار دہرانے سے ذہن نشین کروانے کہ جو میں سوچ اور کہہ رہا ہوں ان باتوں پر بے دریغ عمل کیا جائے یعنی ذہنی خیالات کو افہام و تفہیم سے تبدیل کرنے اور اپنے الفاظوں اور سوچوں میں ڈھالنے کو برین واشنگ کہا جاتا ہے۔موضوع ذرامختلف اور ہٹ کر ہے اس لئے شاید سمجھنے میں دشواری پیش آسکتی ہے مثلاً آپ صبح سات بجے گھر سے روانہ ہوتے ہیں اور دوسرے دن کسی بھی فرد کو اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ میں صبح آٹھ بجے گھر سے روانہ ہوتا ہوں بار بار ایک ہی بات کو دہرانے سے کوئی بھی انسان اس بات پر یقین کرلے گا کہ آپ صبح سات نہیں بلکہ آٹھ بجے روانہ ہوتے ہیں لیکن صرف آپ جانتے ہیں کہ سات بجے روانہ ہوتے ہیں ،بظاہر ان باتوں کا روزمرہ زندگی میں کوئی خاص عمل دخل نہیں لیکن کئی اہم مقاصد کی تکمیل کیلئے منظم طریقے سے دنیا بھر میں انسانوں کے برین واش کئے جاتے تھے اور بدستور کئے جارہے ہیں ۔برین واشنگ کا لفظ انیس سو پچاس میں ایک امریکی جرنلسٹ ایڈورڈ ہنٹر نے پہلی بار استعمال کیا۔

چین اور کوریا کے دوران جنگ میں کئی امریکی فوجیوں کو جنگی قیدی بنا کر جیلوں میں ٹھونسا گیا اور ان پر جسمانی تشدد کے علاوہ نفسیاتی دباؤ ڈالا جاتا تھا ان کے ذہنوں اور خیالات میں تبدیلی لائی گئی یعنی ذہن سازی کی جاتی ،یہ لفظ مصری لٹریچر میں بھی موجود ہے کہ ذہن سازی اور خیالات میں جوڑ توڑ اور تبدیلی کا عمل کیسے لایا جاتا ہے ،مطالعے میں بتایا گیا کیسے میاں بیوی، والدین،خفیہ ایجنسیز ،آرمی،انقلابی لیڈرز ،ڈکٹیٹرز اور عام سیاسی و مذہبی لیڈرز اور تنظیموں کے کرتا دھرتا انسانوں کے برین واش کرتے ہیںیہ سلسلہ آج بھی جاری ہے کہ کیسے معصوم اور بے ضرر افراد کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور دھوکہ بازی سے اپنے مقاصد حل کئے جاتے ہیں ، برین واش کی تیکنیک کا قطعاً دنیا بھر کے بہترین اور جدید ہتھیاروں یا کسی قسم کی پاورز اور انرجی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ایک خاموش نفسیاتی اور خواہشات کی انسانی جنگ ہے اسے انسانی ذہن کی چوری بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ایک طرف انسان ذہین ہے تو دوسری طرف جاہلوں اور بے وقوفوں کی بھی کمی نہیں جو کسی بھی عام سی بات پر یقین کرتے ہیں اور جان بوجھ کر کھائی میں گرتے ہیں۔

Developing Countries

Developing Countries

ترقی پذیر ممالک میں سیاسی لیڈرز آج کل کچھ زیادہ ہی سرگرم عمل اور لوگوں کے برین واش کر رہے ہیں برین واش کرنے والے ہمیشہ کمزور اور غیر تعلیم یافتہ افراد کو ہی اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں ایسے افراد پہلے ہی اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات و حالات سے اس قدر گھائل ہو چکے ہیں کہ ایک معمولی سی ضرب بھی کار آمد ثابت ہو سکتی ہے باالفاظ دیگر شکاری کو جال پھینکنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آتی دانہ اور ہڈی ڈال کر شکار کر لیا جاتا ہے ،ہر انسان ان شکاریوں کے جال میں نہیں آتا کیونکہ وہ مختلف ادوار واوقات میں انکے کرتوتوں سے آگاہی حاصل کرچکا ہوتا ہے لیکن کئی بار ایسابھی ہوتا ہے کہ کمینہ خصلت افراد اس قدر خطرناک حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ کوئی طاقتور بھی ان کے چنگل سے نہیں نکل سکتا اور اپنی جان و متاع کی خاطر اس آخری راستے کا ہی تعین کرتا ہے،خاص طور پر بے روزگار افراد جو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود نہیں کر سکتے۔

عام طور پر برین واش کر لئے جاتے ہیں علاوہ ازیں موجودہ دور میں مذہب کے نام پر جو گھناؤنا کھیل ان واشرز نے شروع کر رکھا ہے اس سے جان چھڑانا ممکن نظر نہیں آتا۔ہر کمزور اور دل برداشتہ افراد کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے ،مثلاً میاں بیوی کے معمولی جھگڑے کو طول دینا اور طلاق پر مائل کرنا کسی بیمارکو ذہنی ٹارچر کرنا، ایکسیڈنٹ میں کئی افراد اپنے پیاروں کو کھو دیتے ہیں انہیں اپنے جال میں پھنسا لینا اور ان حالات میں تقریباً ہر انسان مردہ سا ہوتا ہے اور برین واشر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اکثر بچپن اور لڑکپن میں انسانوں کو زیادہ استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ کہتے ہیں بچے من کے کچے لیکن وہ ذہن کے بھی کچے ہوتے ہیں انکی آنکھوں میں دھول جھونک کر کوئی بھی گھناؤنا کام کروانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔

ایک پروفیشنل برین واشر جانتا ہے کہ کب ، کہاں ،کسے اور کیسے دماغ کو واش کیا جائے،برین واشر کے حملے عام طور پر تشدد آمیز ،بھوکا رکھنا،نیند سے دور رکھنا اور دیگر کئی عوامل ہوتے ہیں ،مِس ہینڈلنگ اکثر والدین بھی اپنے بچوں کے ساتھ کرتے ہیں یا میاں بیوی کے جھگڑوں سے بھی ابتداء ہو سکتی ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ شکاری اپنے شکار پر مکمل پابندی عائد کردیتا ہے جیسے کہ ہاؤس اریسٹ وغیرہ۔ماہرین کا کہنا ہے اپنے دل و دماغ کو اپنے تئیں کنٹرول کیا جائے اور کسی قسم کے جھانسے میں آنے سے قبل سوچ بچار کی جائے کیونکہ آج کل برین واشنگ کا سلسلہ زور وشور سے جاری ہے۔

Shahid Shakil

Shahid Shakil

تحریر : شاہد شکیل

Brainwash

Brainwash