سانس لینا میری ضرورت ہے

Air Pollution

Air Pollution

تحریر : ممتأز ملک. پیرس

آئے دن سڑکوں پر آنے والی گاڑیوں نے جہاں صوتی آلودگی میں اضافہ کیا ہے وہیں اس کے ایندھن سے نکلنے والی فضائی آلودگی نے اس دنیا کے حسن کو برباد کر ڈالا ہے. انسانی صحت اور ماحول دونوں ہی خطرے سے دوچار ہیں . گرمی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے. گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں. اگر فضا سے دنیا کے مختلف شہروں کا جائزہ لیا جائے. تو دنیا کے سب سے زیادہ فضائی آلودگی والے شہروں کا اعزاز ہمیں بھی بلاشبہ حاصل ہے. ہمارے شہر محض اینٹ پتھروں کے مقبروں کا منظر پیش کرتے ہیں . جن کے بیچ کسی ہرے بھرے پودے کا نظر آ جانا بلکل ایسا ہی ہے جیسے ہاتھی کے جسم پر بیٹھا کوئی مچھر . جسے آپ کی آنکھ تلاش کر لے تو آپ کی نظر کا کمال ہے .

اس میں قصور وار اور کوئی نہیں ہمارے اپنے ہی عوام ہیں جنہیں سب کچھ حکومت کر کے دے . بلکہ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے عوام نے ہر احساس ذمہ داری کے حقوق بحق سرکار ضبط کرا رکھے ہیں اور ان کا کام صرف شور مچانا اور آوازیں بلند سے بلند کرنا ہے .
کام چور عوام کو اس طرف متوجہ کیا جائے تو بہانوں کی ایک لمبی فہرست آپ کو سنانے کا بہت وقت ہو گا انکے پاس.. ارے بھائی کیا بتاؤں پودے لگانے کے لیئے جگہ نہیں ہے ..پانی نہیں ہے… وقت نہیں ہے ..پیسے نہیں ہیں.. پودے سنبھالنے نہیں آتے… جبکہ پودے نہ لگانا کی کوئی وجہ قابل قبول نہیں ہو سکتی.

درخت اور پودے ہماری زندگی کا لازم و ملزوم حصہ ہیں. ہماری چھوڑی ہوئی سانسوں اور دھویں کو فلٹر کر کے نتھار کر یہ ہمیں جینے کے لیئے آکسیجن مہیا کرتے ہیں. موسم کو خوشگوار کرتے ہیں. ہماری آنکھوں کو تراوٹ مہیا کرتے ہیں. پھل پھول اور سایہ دیتے ہیں. گھروں کے سامنے لگے ہوں تو گھروں کو پردہ دیتے ہیں . سیلابوں سے روک تھام کرتے ہیں. لکڑی فراہم کرتے ہیں. علاقے کا حسن بڑھاتے ہیں. اور تو اور ہمارے تو نبی پاک ص نے قبروں کے کنارے پر پودے اور شاخیں رکھنے کی تاکید فرمائی ہے . کہ جب تک یہ ہرے رہیں گے صاحب قبر پر عذاب ٹلتا رہیگا. ایسی صورت میں کوئی مذہبی,معاشی, سماجی یا قانونی بہانہ ایسا نہیں ہے جو درخت اور پودے اُگانے یا لگانے کی راہ میں رکاوٹ ہو .

نہ صرف لانز میں بلکہ چھتوں پر بالکونیوں میں گھروں کے صحن میں گملوں میں ,تھابڑوں میں, اور بوتلوں میں کہیں بھی پودے لگائے جا سکتے ہیں. ہم نے بہت چھوٹے گھروں میں بڑے ہی سلیقے سے لگے پھول اور پودے دیکھے ہی جو نہ صرف اس گھر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ اس گھر کے رہنے والوں کی صحت اور سوچ پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں. اور کچھ نہیں تو جہاں کچھ دھوپ میسر ہے اس کھڑکی کے پاس ہی گملے میں کچن گارڈننگ کے طور پر دھنیا, پودینہ, ٹماٹر, لیموں, مرچیں اور ایسی ہی سبزیاں باآسانی بو سکتے ہیں . اگر دو چار فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی جگہ میسر ہے تو اسی میں کوئی تین چار فٹ کا تیار درخت لا کر لگا دیجیئے . فروٹ کا یہ درخت تھوڑے ہی عرصے میں آپ کو پھل بھی دیتا رہیگا اور سایہ بھی.عمران خان صاحب نے اس سلسلے میں ایک بڑا اعلان کیا کہ انہوں نے درخت لگانے کی مہم کی ابتداء کی . لیکن ایک ارب کی تعداد میں درخت لگانے کی پھلجھڑی شاید کسی شرارتی مشیر کے کہنے پر چھوڑ دی . جس سے ایک سنجیدہ کاز بھی مذاق بن گیا. بات اتنی ہی کرنی چاہیے جو پوری کی جا سکے. اس میں ہم سب کو بھی حقیقت پسند بننا چاہیئے .

چلیں پھر بھی اربوں نہ سہی لاکھوں درخت تو ضرور خان صاحب نے لگوا ہی لیئے ہونگے. انہوں نے ایک اچھے کام کی طرف توجہ تو دلائی ہے سب کی . اس پر ان کی تعریف تو بنتی ہے. دل بڑا کریں . ایکدوسرے کے اچھے کاموں کی تعریف کرنا بڑی اعلی ظرفی کی بات ہوتی ہے.

ویسے بھی درخت لگانا کسی ایک حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ہر باشعور انسان کا فرض ہے کہ وہ ہر سال کم از کم ایک درخت لگائے اور اس کی آبیاری بھی کرے.کیا ہم اپنی اولادوں کو ایک گنجا , پتھریلا اور ریتیلا پاکستان دیکر جانا چاہتے ہیں ؟ پاکستانی قوم نے تو عرب کے صحراؤں کو اپنی محنت سے گل و گلزاز بنا دیا. چاول اور گندم کا مزا چکھا دیا. کیا ہم اپنے ملک کو عرب صحرا بنتا دیکھتے رہینگے ؟

سچ کہتے ہیں ہماورے دشمن کہ ہم دنیا کے وہ بدنصیب لوگ ہیں جو اتنا حسین ملک ہرا بھرا کرنے کے بجائے اسے ریگستان بنانے پر تُل گئے ہیں. اللہ پاک ہمیں عقل و ہدایت عطا فرمائے.درخت لگائیئے, پھول اور پودے لگائیئے خدا کے لیئے. اس دن سے پہلے کہ جب ہر آدمی کو سانس لینے کے لیئے اپنا اپنا سلنڈر اپنی پیٹھ پر لاد کر چلنا پڑے ..

تحریر : ممتأز ملک. پیرس