اوکھڑتی ہوئی سانسسیں لرزتے ہوئے لوگ

Life

Life

تحریر: ریاض بخش

یہ کہہ کر سپیروں نے بند کر دیا سانپوں کو پیٹاریوں میں
کہ ڈسنے کے لیے انسانوں کو انسان ہی کافی ہے

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔ایک کتے نے لپک کر دوسرے کتے سے کہا بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارہ جائے گا۔۔ان سطروں سے لگتا ہے کہ آدمی کی زندگی کتے سے بھی بدتر ہو گئی ہے۔۔ آج میں اپنے دوست اپنے بھائی سے ملنے جا رہا ہوں ۔ مارکیٹ گیا کچھ پھل خریدہ بائیک پے بیٹھاارو قمر کے گھر dha پہنچا گیا ۔۔ہاران بچانے سے پہلے ہی قمر نے گیٹ کھول دیا میرا ایک dialogue ہے ارو اکثر اپنے دوستوں کو بولتا ہوں۔ائوے آہ نا۔ قمر گلے لگ کے ملا ہم گھر کی پچھلی سائیڈ پے آہ گئے جہاں قمر کا کمرہ تھا مطلب سرونٹ کوٹر۔۔ریاض بھائی آپ جب بھی میری طرف آتے ہو کچھ نا کچھ لے کر آتے ہو لگتا ہے آپکا آنا بند کرنا پڑے گا۔ریاض۔ایسا کیوں؟قمر ارو نہیں تو کیا جس دن آپ میری طرف آتے ہو ٠٠٥ یا ٠٠٦ خرچ کر کے ہی آتے ہو۔۔ریاض۔کیا کروں بھائی خالی ہاتھ کسی کے گھر جانا اچھا نہیں لگتا اور ویسے بھی میں جب آپ کی طرف آنے کا سوچتا ہوں تو میرے ذہین میں وہ ایک رات آہ جاتی ہے جو میں زندگی بھر بھول نہیں سکتا اور جو آپ کا احسان ہے وہ میں کبھی چوکا نہیں سکتا۔

قمر میری بات کاٹتے ہوے آپ جب بھی آتے ہو اس رات کا ذکر ضرور کرتے ہو بھول جائے وہ رات آٹھ سال ہوگئے ہے ارو ویسے بھی میں نے کوئی احسان نہیں کیا۔۔ارو ہاں اُس ایک رات ارو چند پیسوں کے بدلے میں آپ مجھے کتنا کچھ دے چکے ہو۔چلو چھوڑو ان باتوں کو چائے لائو یا جوس ؟ریاض ۔دونوں پہلے جوس پیئے گے پھر چائے۔قمر ۔آپ بیٹھو میں یوں گیا ارو یوں آیاقمر چائے بنانے چلا گیا۔ارو میں اُس رات کی یاد میں کھو گیا ارو یہ سوچنے پے مجبور ہو گیا کہ اگر اُس رات قمر نا ہوتا تو آج میں کیا ہوتا ؟؟؟؟؟۔

وہ رات جس کا ہم ذکر کر رہے تھے۔اور یہ قمر میرا کون ہے؟3 march 2007 رات 12.25آج تک ٹاہم اور dateمیں نہیں بھولااور شاہد کبھی بھول بھی نا سکوں۔ 2005میں اپنے اُبو کے ساتھ لاہور آیااور پھر یہی کا ہو کے رہے گیاہم لوگ آئے تو راشتے دار کی شادی میں تھے ۔جس رشتے دار کی شادی تھی اُنکا ایک بڑا جنرل سٹور تھا کوٹلی پیر عبدرحمن مغل پورے اُن کو پیسوں کی ضرورت تھی اورمیرے اُبو کے پاس تھے مطلب ہم نے وہ جنرل سٹور خریدلیا۔2007تک میں اور میرے دو انکل نے مل کر وہ جنرل سٹور چلایا۔کہتے ہے نا جہاں پیسہ وقت سے پہلے ذیادہ آہ جائے وہاں اپنے آپ ہی مسلے شروع ہو جاتے ہے۔

ہماری فیملی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا خیر جنرل سٹور بئک گیا۔ہم لوگ واپس گائوں چلے گئے مگر میرا دل اب گائوں میں نہیں لگ رہا تھاکوشش کی آگے پڑھنے کی فسٹ ائیر میں داخلہ لیاپڑھائی شروع کر دی مگر کہاں لاہور اور کہامیرا میاں چنوں ۔فسٹ ائیر کے پیپر دیے اور تنگ آہ کر ایک دن گائوں سے بھاگ کر لاہور آہ گیا۔۔دوسرے دن ہی اُبو آہ کر لے گئے اور کافی میری خدمت کی مطلب پٹائی۔کچھ ٹائم گزر ا پھر بھاگ آیامگر بے فائدہ ہر بار میں پکڑا جاتا اور کافی پٹائی ہوجاتی۔میں گھر سے کم از کم دس بار بھاگا تھا۔اب تھک گیا تھا بار بار اُبو کی جوتیاں کھاکر ایسے ہربار اُبو کو نئی جوتی لینی پڑتی۔۔فسٹ ائیر کا رزلٹ آہ گیا اور بدقسمتی سے میں پاس ہو گیااب تو مجھے آگے پڑھنا ہی پڑھنا تھا۔آخر کار میں نے اپنے ہتھیار ڈال دے چپ چاپ انپی پڑھائی پے دھیان دینے لگ گیا۔۔ہمارے گائوں کا ایک مراسی لڑکا یہاں لاہور میں کام کرتا تھا میری اُس سے ملاقات ہوئی اور اُس نے مجھے لاہور آنے کی دعوت دی جو میں نے فورنہ منظور کر لی۔وہ لڑکا واپس لاہور چلا گیا۔ایک مہنے بعد میں نے اپنے اُبو کے کچھ پیسے چوری کیے اورنکل آیا۔

Reading

Reading

شام تین بجے میں لاہور لاری اڈے اُترا مجھے ریس کورس جانا تھا وہاں وہ لڑکا کام کرتا تھامیرے پاس اُس لڑکے کا بس اڈریس تھا نمبر نہیں تھا اور ویسے بھی تب موبائل اتنے زیادہ نہیں تھے۔خیر میں ایک پان شاپ پے گیا بوتل خریدی جب پیسے دینے کے لیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو میرا ہاتھ دوسری طرف سے نکل آیامیرا رنگ اُڑ گیا کیوں کہ پیسے کسی نے نکال لیے تھے یوں سمجھو کے جیب ہی کسی نے کاٹ لی تھی۔میری جیب میں کوئی کم پیسے نہیں تھے 15ہزر تھا جو میں نے اپنے اُبو کے چوری کیے تھے۔۔مجھ پے ایک رنگ آتا ایک جاتا کیا کرتا کچھ سمجھ میں ہی نہیں آہ رہا تھاکہی جانے کے قابل ہی نا رہاہم پینڈو لوگ کچھ سمجھ دار ہوتے ہے میں نے سو کا نوٹ سامنے والی جیب میں رکھا ہوا تھااُس سے ہی کام چلایاخیر کسی طرح میں ریس کورس پہنچا جو اڈریس لڑکے نے بتایا ہوا تھا وہ تلاش کرتے کرے مجھے رات ہوگئی جب اُس اڈریس پے بہنچا تو پتہ چلا کہ یہا ںتو ایسا بندہ کام ہی نہیں کرتاہائے اُہ ربا اب میں کہاں جائوںیہی سوچ سوچ کے پاگل ہورہا تھا۔اگر میں کوٹلی جاتا جہاں ہمارا جنرل سٹو ر تھا تو میں اُبو کے ہاتھ لگ جاتا اور اُبو کے ہاتھ اگر میں لگ جاتا تو اس بار میر ی پٹائی نہیں بلکے میری ٹانگیں ٹوٹ جانی تھی۔۔جیسے جیسے رات ہو رہی تھی میرا بھوک سے بُرا حال ہور ہا تھا۔کہی جانے کے قابل بھی نا رہا۔۔تھک ہار کر ریس کورس ایک جنگلے کے نیچے بیٹھ گیا۔

ایک سردی اُوپر سے رم جم کما ل کا موسم تھا مگر میرے لیے نہیں کسی اور کے لیے۔رات کافی ہوچکی تھی پارک بند ہوگیامیں بیٹھا اُس طرف تھا جس طرف گھوڑوں کا اصتبل تھا۔کچھ ٹائم گزر ایک لڑکا بھاگتا ہوا اُسی جنگلے کے نیچے آہ کھڑا ہوا۔وہ لڑکا اپنے ہاتھ ملتے ہوئے میری طرف متوجہ ہو کر کہالاہور کا موسم اور لاہور کی لڑکیاں کبھی بھی بدل سکتی ہے میں نے بھی اُس کاجواب مسکرا کے دیا۔۔خیر بات جیت ہوئی میں نے اُسے اپنے بارے میں بتایاوہ بھی نا بتاتا اگر وہ پینڈو کی طرح بات نا کرتا تو۔۔وہ مجھے وہاں سے دوبارا گھوڑوں کے اصتبل لے گیا وہاں سے پھر پوچھا فیاض کے بارے میں مگر بے فائدہ۔۔۔اس لڑکے کا نام قمر تھا جی قمر میرا دوست میرا بھائی۔۔ وہ اپنے صاحب کے ساتھ یہاں آیا تھاصاحب اُس کا کلب چلا گیا اور قمر کو کہا کے وہ رکشہ پکڑ کر گھر واپس چلا جائے۔۔انسانوں کو قسمت ملاتی ہے مجھے قمر زبردستی اپنے ساتھ اپنے گھر لایا جہاں وہ رہتا تھا۔وہ مجھے ایک سرونٹ کوٹر میں لایاکمبل دیا سردی کافی لگ رہی تھی تھوڑی دیر بعد کھانا لے کر آہ گیاجب میں کھانا کھانے لگا تب مجھے اپنے گھر کا خیال آیا اور کھانے کی قدر کا پتہ چلا۔خیر میں سو گیا۔

صبح ہوئی میں نے ہاتھ منہ دھویاقمر نے ناشتہ کروایا۔قمر نے مجھ سے پوچھا بھائی اب کہاں جائوں گے تومیں نے کہا پتہ نہیں کہاں جائوں گا گھر جا نہیں سکتا اُبو ٹانگیں توڑ دیںگے ۔خیر قمر نے کہا کے آپ ٢ دن میرے پاس ہی رک جائو۔قمر نے میری کافی خدمت کی ٢ دن کی باجائے میں ٥ دن قمر کے پاس روکا قمر سے مجھے دلگی ہو گئی قمر نے مجھے کچھ زندگی کے بارے میں سمجھایااور وہ میرے پلے پڑھ گیا۔میں گھر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔قمر ہی مجھے لاری اڈے چھوڑنے آیاقمر نے مجھے 1500سو دیاجب کے میرے گائوں کا کرایہ 600تھامیں نے انکار کیا تو قمر نے یہ کہہ کر میری جیب میں ڈال دیے کہ اتنے دنوں بعد گھر جا رہے ہوتو چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے کچھ لیتے جانا۔

خیر میں سچ میں گائوں گھر آہ گیااس بار اُبو نے مجھے کچھ نہیں کہا بلکے اُبو نے مجھے کہا کہ اگر تم نہیں پڑھنا چاہتے تو میں لاہور میں ہی تم کو وہی جنرل سٹو ر لے دیتا ہوں چاہے اُس کے لیے میرا سب کچھ بئک جائے ۔میں نے اُبو کو کہا کہ اب مجھے پڑھنا ہے اب نہیں بھاگو گا۔میں نے اپنا وعدہ پورا کیا جو قمر کے ساتھ کیا تھا۔۔2009مجھے لاہور میں ایک نوکری مل گئی میں لاہور آہ گیا قمر مجھے جہاں لے کر گیا تھا اُس جگہ کا مجھے نہیں پتہ تھا تلاش کرتا توکہاں کرتا۔۔2010میں میاں چنوں سٹاپ پے بس کا انتظار کر رہا تھا کہ پیچھے سے کسی نے آہ کر میری آنکھیں زور سے بند کر تے ہوئے پوچھا کون؟تو میں نے کہاقمر۔وہ دن ہے اور آج کا دن میں اور قمر ساتھ ہے۔۔

Lahore

Lahore

قمر چائے لے کر آہ گیا میں نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھی قمر نے جنجھوڑا تو میں نے اپنی آنکھیں کھولی میری آنکھیں تھوڑی سی نم تھی۔قمر مجھے چاہے دیتے ہوئے ریاض بھائی آپ کبھی نہیں سدھرو گے خیر ہماری باتیں چلتی رہی اچانک میں نے پوچھا قمر بھائی تمہاری میڈم آئی تھی تم نے اپنی conformationکی بات کی۔ قمر۔اداس لیجے میں جی بھائی کی بات اور ہمیشہ کی طرح ناکام۔ قمر کے بارے میں آپ کو بتانا بھول گیا قمر 2003میں لاہور آیا۔قمر کو ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے گیسٹ ہائوس میں cookingکی نوکری ملی اور قمر اس نوکری کو بڑی ایماندری سے ابھی تک نبھا رہا ہے۔ 2013 میں کمپنی نے گیسٹ ہائوس بند کر دیا۔یہ گیسٹ ہائوس کمپنی کے mdکا تھا اوراُس نے اپنا ہی گھر کمپنی کو رنیٹ پے دیا ہوا تھا اور ساتھ میں mdکا بیٹا بھی اسی گھر میں رہتا تھا۔گیسٹ ہائوس بند ہوا تو mdنے قمر کو آفس میں جاب دے دی مگر کمپنی نے قمر کو پکا ملازم نا کیا۔

میں نے قمر سے پوچھا ناکامی کیوں؟اب تو تم نے بی اے بھی کر لیا ہے۔قمر ۔ریاض بھائی یہ لوگ بڑے عجیب قسم کے ہے ایک الگ مٹی سے بنے ہوئے ہے کسی کا درد نہیں سمجھتے۔ریاض۔تم نے بات کیا کی؟قمرآپ کو توپتہ ہے نا میں ان لوگوں سے کتنا ڈرتا ہوں پرسوں میڈم آئی تھی سارا دن تو مجھے آفس سے ٹائم نا ملا شام کو میڈم واپس کراچی جاے لگی تب میں ڈور کے میڈ م کے پاس گیا اور ڈرتے ہوئے سلام کیا میڈم نے بڑئے اچھے اندازمیں جواب دیاجیسے ہی میں نے اپنی pay rollکی بات کی تو میڈم کا لہجاہی بدل گیا۔میڈم نے کیا ابھی توتمہارا چل رہا ہے میں جب اگلی بار اُئوہ گئی تب کاشف صاحب سے بات کرئوںگئی کاشف صاحب جو ہمارے لاہور کے ڈریکٹر ہے۔ریاض بھائی میڈم مجھے کبھی نہیں پکا کرے گئی۔ریاض ۔کیوں؟قمر ۔بھائی ایک تو میرے اُوپر cookingکا داغ لگا گیا ہے۔

مطلب جو مرضی کہہ لے میں کک تھا ہائوس کیپر تھاصفائی والا بھی ہوںباتھ روم دھوتا رہا ہوں اور ابھی بھی سب کام میں ہی کر رہاہوںmdکا بیٹا جب یہاں رہتا تھا تب اُس کے سارے کپڑے میں ہی دھوتا تھاجوتے پالش کرتاتھا جو ایک صفائی والا کرتا ہے وہ میں کرتا تھا اور کر رہاہوں۔بس یہی وجہ ہے کہ مجھے اب آفس میں ایک صفائی والا ہی سمجھا جاتا ہے۔مزے کے بات بتائو آفس میں کچھ لوگ مجھ سے ڈرتے تھے کہ کہی میں میڈم کو اُن کی کمپلین نا کر دوںاور وہی لوگ دن رات میرے خلاف کاشف صاحب کو بھڑکا رہے حالانکہ میں اپنا کام پوری ایماندی سے کر رہاہوں۔ مگر وہ لوگ یہ نہیں جانتے کے میں تو خود ڈر ڈر کے جی رہا ہوں۔ریاض بھائی آپ کو 2013یاد ہے؟جب میری بہن کو ریڑھ کی ہڈی کا مسلہ ہوا تھا؟ریاض ۔ہاں یاد ہے تو؟قمر۔۔تب میں نے اپنی کمپنی کے سب لوگوں سے requestکی اپنی بہن کے علاج کے لیے یہا ں تک کے اپنی mdاور اُسکے بیٹے سے بھی میں نے باتکی مگر بے فاہدہ آپ کو پتہ ہے میری اس کمپنی میں کم از کم ٠٠٤ لوگ کام کرتے ہے اور سب مجھے بڑی اچھی طرح سے جانتے ہے۔2013میں نے جب اُن سب لوگوںکو کال کی تو سب نے بڑے اچھے طریقے سے باتکی مگر جیسے ہی میں نے اپنی بہن کا بتایا تو سب نے منہ پھر لیا۔

کسی نے میری تب مدد نہیں کی ۔میں نے اپنے اللہ سے دعا کی اور اللہ نے میرے لیے ایک راستہ کھول دیاہمارے پاس جو گھر میں تھا وہ بیچا کچھ اُودھارلے کر اپنی بہن کا علاج کروایا۔ قمر کی بہن کو 2005میں ٹی بی ہوا تھا۔۔ٹی بی کا علاج کروایا تو کمر کی ہڈی بڑھ گئی گائوں میں تھے اتنا خیال نا رکھا اور وہ ہو گیا جس کا انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا کمر کی ہڈی ٦اینچ تک بڑھ گئی مطلب باہر نکل کر ٹہڑھی ہو گئی اور قمر کی بہن جھک گئی۔جب درد ہوتا تو کوئی painkillerدے دیتے جس سے کچھ پل کا آرام مل جاتا۔۔

قمر ۔ریاض وہ وقت تو گزر گیامگر پچھلے کچھ ماہ سے پھر سے میری بہن کو پرابلم ہونا شروع ہو گئی ہے اب مسلہ اتنا بڑھ گیا ہے کے میری بہن کی کمر بلکل ٹہڑھی ہوگئی ہے یوں سمجھوکہ ہڈی اندر سے ٹوٹ گئی ہے پچھلے ماہ میں اپنی بہن کو یہاں لاہور لے آیا جو مجھ سے ہوسکا میں نے کیا کافی ہسپتالوں میں دھکے کھائے مگر کچھ نا بناشاہد میر ی قسمت خراب ہے یا میر ی بہن کے مقدر میں تکلیف لکھی ہے۔جیسے آپ جانتے ہو میں کافی بڑئے بڑے لوگوں کو جانتا ہوں سب کا درواز کھٹکھٹایا مگر سب نے اپنے دروازے بند کر لیے مگر میں اللہ سے ناامید نہیں ہوا۔کچھ میں نے جمع کیے ہوئے کچھ آپ نے دے دیے اُن پیسوں سے آپریشن تو نا ہوسکا مگر داویئاں اور جو ٹسٹ کروانے تھے وہ ہوگئے۔بھائی 15000تنخواہ ہے میری جس میں سے8000میں گھر بھجتا ہوںجس میں سے 3500 سے ذیادہ میری بہن کی داویوں پے خرچ ہ وجاتے ہے۔

بقایا سے گھر والے اپنی دال روٹی کر لیتے ہے۔بات کرتے ہوئے قمر کی آنکھیں نم ہوگئی قمر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے پچھلے ماہ جب میری بہن یہا ں تھی جب رات کو وہ درد سے چلاتی تھی تو میں جیتے جی مر جاتا تھادرد میری بہن کو ہوتا تھا مگر سکون مجھے نہیں ملتا تھااس طرح میرا برُا حال ہوگیا تھا کہ میں اپنی گڈنی بچنے کے لیے تیار ہوگیا۔وہ قسمت سمجھو ں یا بدقسمتی وہ نا بئک سکی۔۔ بھائی معاف کرنامیں نے یہ بات آپ کو نہیں بتائی میں نے خودکُشی کرنے کی بھی کوشش کی مگر ناکام رہاجب خودکُشی کرنے لگا تو اپنے بوڑھے باپ کا خیال آہ گیااپنی بہن کاسوچا اگر میں مر گیا توان کا کیا ہوگاکون بنے گا ان کا سہارہ میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو کون سمبھالے گا۔قمر روتے ہوئے اس گھر کے لیے ان لوگوں کے لیے میں کیا نہیں کھویا۔سال سال بعد گھر جاتا ہوںاپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا بچپنا دیکھا ہی نہیں ہے اُن کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو میں نے رد کر دیاکبھی ماںسے یہ نہیں پوچھا کہ ماں کچھ چاہے آپ کو۔ کبھی اپنے باپ کا پیار نہیں لیا۔

Worship

Worship

ان لوگوں کے لیے میں نے canadaکا visaکنسل کیاآرمی کی نوکری ٹھکرا دی ۔میڈم اور ان کے خاندان کو میں خدا سمجھا بیٹھامگر بھول گیا خداانسانوں میں سے کب کا چلا گیا۔ریاض۔تم نے پہلے بھی ایک بار canadaکی باتکی تھی کیوں نہیں گئے تھے تم ؟؟قمر۔بھائی بدقسمتی تھی سب ہوگیا تھا۔بس ٹکٹ کروانا باقی تھا مگر rejectکر دیا صرف اور صرف اس گھر کے لیے ان لوگوں کے لیے یہ گھر میری ہڈیوں میں رچ گیا ہے اس گھر کا ایک ایک زارہ میراخون بن گیاہے اور یہ خاندان میرا دل اب آپ ہی بتائوخون اور دل کے بناکوئی کیسے زندہ رہے سکتا ہے؟؟canada جاکے کیا کرتا ؟جتنی عبادت میں نے اس خاندان کی کی ہے اگر اس کا ایک حصہ بھی میں اپنے رب کی عبادت میں گزرتا تو شاہد آج میں اس طرح نا روتا۔۔ اربوں روپے کی یہ کمپنی ہے اگر میڈم مجھے پے رول پے کر دیتی تو میں اپنی بہن کا علاج کمپنی کی طرف سے کروا لیتا اصل پے بھائی یہ دنیا کی ریت ہے۔

اس زمامے میں میرے جیسے کو ایسا سمجھا جاتا ہے جیسے گلیوں کا کوڑہ ہو جیسے جھاڑو کے ساتھ گلی سے بھی باہر نکال دیا جاتا ہے یہ خاندان اتنا امیر ہے کہ اگر میڈم چاہئے تو اپنے پیسوں سے میری بہن کا علاج کرواسکتی ہے مگر ایسا یہ لوگ نہیں کریں گئے۔یہ لوگ ایک رات میں 50ہزر کی شراب پی سکتے ہے مگر کسی ضرورت مند کی ضرورت نہیں پوری کرے گے۔۔ میڈم کا بیٹا جب یہاں رہتا تھا تب ہررات وہ عیشاشی کرتا تھا شراب لڑکی ہررات یہاں پارٹی ہوا کرتی تھی میں پوری پوری رات سو نہیں سکتا تھا تب میں سوچتا تھا کہ یہ جاگنا ایک دن رنگ لائے گا مگر یہ لوگ شراب کے نشے کی طرح مجھے بھول گے۔ایک مزے کی بات بتائو ۔پچھلے سال میڈم کی بڑی بیٹی جو باہر رہتی تھی وہ یہاں لاہور آئی میں پہلے کبھی اُس کے ساتھ اتنا لمبا عرصہ نہیں رہا۔میری قسمت ماڑی جو وہ اس گھر میں آہ گئی بس پھر کیا تھامیرا جینا حرام ہوگیادن کو آفس جاتا شام کو آہ کر جھاڑو اُٹھا لیتاپورے گھر کی صافی کرتا۔میڈم کی بیٹی 47سال کی ہے وہ بھی طلاق یافتہ اور دماغ سے بلکل فارغ likeسیکو۔میڈم کی بیٹی میرے ساتھ ٢ماہ رہی اُس نے مجھے اس طرح ٹارچر کیا کہ ٢ماہ میں مجھے heartکا مسلہ ہوگیاایک بار ای سی جی کروا چکا ہوں۔

جینا مرنے کے برابر ہو گیا تھا یہاں تک کے گھر کے بارئے گلی میں جوکوڑا پڑھ ہوتھا تھا اُس میں مجھے ہاتھ ڈالنے کو کہتی۔ایک بار ایسا ہوااُس سے گلاس ٹوٹا اور اُس نے باسکٹ میں ڈال دیااور کوڑا باہر گلی میں پھنک دیا۔صبح جب میں آفس کے نکلنے لگا تواُس نے مجھے بلالیااور کہا جو گھر کے باہر کوڑا پڑا ہے وہ شاپر میں ڈال کے جائواور بے وجہ غصہ ہو رہی تھا خیر میں شاپر لایا جب وہ کوڑا شاپر میں ڈالنے لگا تو جو شیشیہ اندر پڑھا تھا وہ میرے ہاتھ میں لگ گیا اور ایسا لگا کے میری ہتھیلی کے آرپار ہوگیااُس کے اُپر ٩ٹانکے لگے جس کا نشان ابھی تک نہیں گیا اور نا ہی عمر بھر جائے گاقمر اپنی کوہنی مجھے دیکھاتے ہوئے یہ دیکھووہ مجھے جلاتی تھی اور کئی بار جلایا اور میں جلا اپنی قسمت سے اور اپنی مجبوری سے میں نے اُس کے ہربات مانی مگرپھر بھی جب جانے لگی تو میرے آفس میں میری کمپلین کر کے گئی۔قمر سچ میں رونے لگ گیا میں اُس کو چپ کرواتا تو کیسے؟؟خیر کچھ دیر بعد میں نے بات تبدیل کرنے کی کوشش کی مگراُس نے ٹوپیک نا بدلہ۔۔٣دن پہلے میں تنگ آہ کر میڈم کو میسج کیااور اپنی بہن کا بتایا اور ساتھ میں یہ کہا کہ آفس میں سٹاف مجھ پے ہستا ہے۔میڈم کا بس یہreplyآیا کہ سٹاف کیوں ہنستا ہے؟میں ڈر گیااورسوری بول دیا اُس کے بعد کوئی میسج نا آیا۔اب مجھے ڈر ہے کہ کہی میری نوکری نا چلی جائے ایک بات تو سچ ہے جس دن اس گھر کا کچھ ہوگیا مطلب بیک گیا تو میں نوکری سے فارغ ہو جائوں گا مجھے صرف اس گھر کی وجہ سے رکھا ہوا ہے اُن کو پتہ ہے میں اس گھر کا خیال خود سے بھی زیادہ رکھا ہوا ہے۔

ایک اور بات ابو کو اب رات کو کچھ نظر نہیں آتاکچھ رونے کی وجہ سے اور کچھ عمر کے حساب سے اب ٠٧ سے زیادہ ہوگئے ہے اب ایک نوکری کا ڈر ہے جو ہر ٹائم مجھے لگا رہتا ہے اور دوسرا اپنے گھر کا کہ اگر میں نوکری سے فارغ ہو گیا تو میرے گھر والوں کا کیا ہوگا؟؟؟خیر میں نے اُسے ڈانٹ کر چپ کروا دیا۔قمر اپنے آنسووں صاف کرتے ہوئے سوری بھائی آج بولنے کا موقع ملا ہے تو یہ سب بول دیا ہے پتہ نہیں پھر کبھی بول سکوں گا بھی نہیں جو حالات چل رہے ہے اُس میں زندہ بھی رہے سکتا ہوں ہے نہیں رب جانے ؟؟چلو خیر آپ سنائوں آپ کی نوکری کیسے چل رہی ہے؟؟ریاض۔۔یار دیکھ انسان کی زندگی میں اگر دکھ درد نا آئے تو زندگی کا پتہ ہی نہیں چلتاہر کسی کی زندگی میں کوئی نا کوئی غم ہے۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں کے آپ ہار مان کر بیٹھ جائو۔اور جن لوگوں کی آپ بات کر رہے ہو وہ لوگ ایسے پھول ہے جو ہمارے جیسے گائوں کے لوگوں کے خون سے پرورش پاتے ہے مگر جب ہم لوگوں کو ان کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ ہمیں کانٹے بھی نہیں دیتے۔ ان کے چہروں کی لالی ہمارے خون سے ہے ان کی خوبصورتی ہمارے وجود سے ہے ہمارے رنگ ایسے ہی پیلے نہیں ہوتے ہمارا خون تو یہ امیر لوگ چوس لیتے ہے۔آپ مر جاو گئے یا چلے جائو کے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا آپ کی جگہ کوئی اور آہ جائے گااور یہ لوگ جان بوجہ کر ہم لوگوں کو ٹارچر کر تے ہے اس لیے کہ ہم لوگ مجبور ہے کچھ کر نہیں سکتے کیونکہ ہمارے پاس نا تو اتنی اچھی تعلیم ہے اور نا ہی کوئی فن ان کو پتہ ہوتا ہے کہ ہم لوگ جتنا مرضی ٹارچر کریں ان کو ہمارے پاس ہی ہمارے قدموں میں ہی رہنا ہوتا ہے۔

خیر آج میں اسلیے آیا ہوں کہ میری کل کمیٹی نکلی ہے اور کچھ پیسے میں نے جمع کیے ہوئے ہے وہ کل آہ کر لے لینااُمید ہے اُس سے تمہاری بہن کا آپریش ہو جائے گااور اگر کوئی کمی ہوئی تو مل کر کچھ کر لے گے۔قمر ۔بھائی اتنے سارے احسان میں کیسے چکائوں گا؟؟ریاض۔بہت آسان ہے میرا ایک کام کرو گئے۔قمر ۔جان سے بھڑ کر میرے پاس اور کچھ نہیں ہے۔ریاض۔بس آئندہ کبھی خودکُشی کے بارے میں سوچنا بھی مت۔قمر۔بھائی وعدہ کرتا ہوں اب کبھی ایسا نہیں سوچو گا۔ریاض۔بھائی یہ زندگی یہ سانسیس اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ایسے گہواہ مت اس سے پیار کرو اور رہی پریشانیوں کی بات تو وہ زندگی کا ایک حصہ ہے۔۔ چلو چھوڑو یار بڑی بھوک لگی ہے کھانے میں کیا بنایا ہے؟قمر۔ہنستے ہوئے مجھے پتہ تھا آج آپ نے آنا ہے اسلیے میں نے آپ کی پسندیدہ ڈش بنائی ہے مٹر قیمہ ساتھ میں دال۔ریاض۔چلو لے آو یا ر۔قمر ۔بھائی نیچے ہی آہ جائو نا۔خیر میں نے کھانا کھایا اُس کے بعد گھر آہ گیا۔

میرا ایک سوال آپ سب پڑھنے والوں سے ہے یہ پنڈو ہے کون ؟کہاں سے آتے ہے ہم؟؟جی ہم۔میں بھی الحمداللہ پنڈوہوں اور فخر کرتا ہوں خود کو پنڈو کہنے میں۔۔کیاہم انسان نہیں کیا ہم میں کوئیfellingنہیں؟؟آپ کی کوٹھیاں میں ٥٧ %پنڈو کام کرتے ہے کوئی ڈرئیور کے روپ میں ہے تو کوئی کک کوئی گارڈہے وغیرہ۔ایک بات سچ بتائوں۔اگر ہم پنڈو آپکے شہر سے نکل گئے نا تو یقین جانوںآپ لوگ روڈ پے آہ جائو گے۔آپکی فیکٹریاں آپ کے آفس آپ کے گھر سنسان ہوجائے گے۔ ایک بات آپ لوگ یاد رکھنا زندگی اپنا حساب لیتی ہے بس ہم لوگ سمجھ نہیں پاتے ۔میری گزارش ہے کہ آپ ہمارا درد سمجھے ہم بھی انسان ہے۔ورنہ ہمیں تو زندگی جینا آتی ہے ماں کے پیٹ سے سیکھ کر آتے ہے مگر آپ لوگ کیا کرو گئے؟؟ذرہ سوچنا ورنہ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

زندگی ہے یا تماشا ہے
جوگی ہوں مگر ہاتھ میں کاصہ ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کس نگر میں جاکے بسوں
لوگوں کی بھیڑ میں بس میں ہی ایک ہاسہ ہوں
زندگی بھر جو کمایا وہ کیا تھا کمایا
بس اسی سوچ ئو وہم میں دن رات گہوایا
ہاتھ میرے ہے خالی سلطنت کا ہوں میں والی
پھر بھی کسی کے در پر بن کر آیا ہوں سوالی
خون بہتا ہے تو بہنے دواس میں اب کیا رکھا ہے
زندگی کے علاوہ زندگی کامزہ بھی میں نے چکھا ہے
دو پل کی ہے یہ سانسیںگزر جانے دوان کواپنے خیال میںریاض
ہماری کس کو پڑی یہا ں ہر کوئی اپنے وابال میں ہے

Riyaz Bakhsh

Riyaz Bakhsh

تحریر: ریاض بخش