سانسوں کو تیرے نام کی گردان کیا جائے

Sad Girl

Sad Girl

سانسوں کو تیرے نام کی گردان کیا جائے
چپکے سے کسی روز تو مہمان کیا جائے
آجا کہ کبھی پورا یہ ارمان کیا جائے
اِک شام تیرے وصل کی دنیا سے چُرا کر
یادوں کی گزرگاہوں کو آسان کیا جائے
ہونٹوں پہ سدا پیار کی اس نغمہ گری سے
سانسوں کو تیرے نام کی گردان کیا جائے
ہر وقت غمِ ہجر کو سینے سے لگا کر
اُس زود فراموش کو حیران کیا جائے
دیکھا نہ کبھی لوٹ کے جس شخص نے اُس پہ
سوچا ہے دل و جان کو قربان کیا جائے
رغبت ہے بہت اس کو نئے موسمِ گُل سے
گلشن نہ میرے شوخ کا ویران کیا جائے
دامن یہ امیدوں کا کیا تار ہے جس نے
اس شخص کا بھی چاک گریبان کیا جائے

زریں منور