اینٹ کا جواب پتھر سے ہی ملے گا

 PTI

PTI

تحریر: قادر خان یوسفزئی
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نے اپنی بہنوں کے خلاف پاکستان مسلم لیگ ن کے جاوید لطیف کے نازیبا زبان استعمال کرنے پر صائب ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ ہر چند کہ تحریک انصاف کے جلسے مخلوط اور ترقی پسند کارکنان کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن کسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ چاہیے اداکارہ وینا ملک، ایان علی، میرا اور بابرہ شریف ہی کیوں نہ ہو، ان کے بارے میں بد اخلاقی زبان استعمال کرے۔ مریم نواز کے خلاف تحریک انصاف کے کارکنان کے شرمناک پوسٹیں دنیا بھر میں زینت بنتی رہتی ہیں، شاید تحریک انصاف کے کارکنان کے نزدیک کیونکہ مریم نواز خاتون نہیں ہیں، اس لئے جو وہ کہتے ہیں، اس پر سعید مراد اور عمران خان کو غصہ نہیں آتا ۔(نہ جانے کیا وجہ ہوگی )۔ عمران خان کی سابق یہودی زوجہ کے حوالے سے کچھ جماعتوں نے بھی ایسی زبان استعمال کی، جو مہذب نہیں کہی جا سکتی، ذاتی زندگی پر تمام حدود کو پھلانگ لئے گئے۔

بات کسی ایک جگہ پر نہیں رکتی ،خیر ایان علی اور آصف علی زرداری کے حوالے سے سوشل میڈیا میں جو غل مچایا جاتا رہا ، شاید ان کے نزدیک ایان علی ایک” ماڈل” ہیں شائد اس وجہ سے سوشل میڈیا میں بد اخلاقیاں جائز ہونگی۔ ایان علی تو پہلے بھی تھی ، لیکن اس کی جیل واک سے کورٹ واک تک کے تمام پہلوئوں کو برقی میڈیا نے جس باریک بینی سے ناظرین کو پیش کیا ، وہ بھی شائد کوئی عام بات نہ ہوگی۔ قندیل اور مولوی قوی کے سیلفی معاملے پر ہمارے برقی میڈیا کی پھرتیاں بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں ، بھائی کو غصہ آیا تو قندیل بلوچ کو قتل کرڈالا ۔ قندیل بلوچ تو پہلے بھی تھی لیکن برقی میڈیا نے مولوی قوی کو لیکر جو طوفان برپا کیا اس کے بعد انجام تو یہی ہونا تھا ۔اب وینا ملک کی خلع ہوگئی ، کہ گویا پھر سب کے ہاتھوں میں ایک نیا شوشہ ہاتھ آگیا ۔ موجودہ سٹی میئر نے اپنے سابق قائد کے حوالے سے مشتعل ہوکر گھر گھر کو مجرا گھر بنا دیا تھا ۔ ان سب واقعات میں معافی مانگ لی گئی اور ہم سب بھول گئے ۔جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس تمہید کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم اپنی ذات کے حوالے سے حساس ہیں ، اس لئے جب بات اپنی ذات پر بات آتی ہے تو غیرت کا سمندر امڈ آتا ہے اور اس غیرت کے سمندر میں غیرت مند کہہ بھی بہت کچھ ڈالتا ہے اور کر بھی دیتا ہے۔

چند دنوں سے ایک اور معاملے میں سوشل میڈیا کے دانشوروں کے تبصرے اور ان کی عالمانہ گفتگو کے بعد اندازہ ہوا کہ ہماری نظریں ناک سے آگے نظر نہیں جاتی،اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے ایک حیا سوز رسم ویلنٹائن ڈے کو میڈیا پر منانے کے حوالے سے حکم کیا جاری کیا کہ ایک طوفان برپا ہوگیا ۔ اب اگر میڈیا میں ویلنٹائن ڈے پر کوئی پروگرام نشر نہیں ہوا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ، کرنا تو وہی تھا جو ہمیشہ کرتے چلے آئے ہیں ۔صرف میڈیا میں نہیں آیا ، سوشل میڈیا تو ہے ہی مدر پدر آزاد ، ہوس کے ماروں کی جولانیاں سوشل میڈیا کی زنیت بنتی رہی۔ بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ محترم جسٹس شوکت عزیز صاحب نے اُن بلاگر کی پوسٹیں پڑھ لیں ، جو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم ، ازواج مطہرات صلوة اسلام ، اور اصحا ب رسول رضوان اللہ اجمعین کے خلاف گستاخیوں پر مشتمل تھیں ۔جسٹس صاحب کے دل میں ایمان کی رمق باقی تھی اس لئے ان کے خلاف ایکشن لے لیا اور پھر ایک طوفان بد تمیزی شروع ہوگیا کہ چیف جسٹس کو مولوی بننے کا شوق ہے تو مسجد میں بیٹھ جائے۔سوشل میڈیا میں مقدس ہستیوں کے خلاف گستاخیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔

بس فرق یہ پڑا کہ محترم چیف صاحب آبدیدہ ہوگئے اور حرمت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب قربان کہہ بیٹھے،پابندیاں عائد کرنے کے احکامات دیکر سوئے ہوئے ایف آئی اے کو جگایا کہ پکڑو اور بند کرو۔ حکومت کی لاچاری کہ وہ پاکستان سے سوشل میڈیا میں ان گستاخیوں کو گوگل ، سمیت دیگر نیٹ پروائیڈرز سے بند نہیں کراسکتی ، اس کا مظاہرہ کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔سائبر کرائم سیل نے گستاخ بلاگرز کے خلاف کاروائیاں شروع کیں تو یہ سوال اٹھا کہ پہلے والے بلاگرز کو چھوڑا کیوں گیا ؟۔میں یہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حکومت کے حساس اداروں نے انھیں اغوا کیا تھا ، حساس اداروں کو بد نام کرنے کی ایک منظم سازش بھی ہوسکتی تھی ، اس لئے جھٹ پٹ ملک سے فرار بھی ہوگئے۔میں اپنے فیس بک کے مرکزی صفحے پر دانشوران فیس بک کا مسلسل ایک ہی اعتراض دیکھ رہا ہوں کہ تجدید ایمان کے لئے فیس بک کی ضرورت نہیں، کوئی کیا کہہ رہا ہے اور کوئی کیا کہہ رہا ہے۔۔ لیکن ان سب میں تقریباََ ایک بات مشترک دیکھی کہ کلمہ طیبہ پر سب سے زیادہ اعتراض وہی کررہے ہیں جو “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ”ِ کو مکمل کلمہ نہیں سمجھتے، آپ سمجھ تو گئے ہونگے کہ میں کن کی بات کر رہا ہوں؟۔ “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ”ِ ہی مکمل کلمہ طیبہ ہے۔

Social Media

Social Media

اب اس میں کوئی اضافہ کروانا چاہتا ہے تو معذرت انکا ایمان ان کو مبارک۔اب سوشل میڈیا میں کلمہ طیبہ لکھنے والوں کو بھی مذاق کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ آدھی فیس بک مسلمان ہوگی ، کسی نے کہا کہ اگر وہ خود کو خدا سمجھتا ہے تو مجھ سے مسلمان ہونے کی سند مانگے۔ اب یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنے چہرے پر ہم مختلف ممالک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے ساتھ اظہار یک جہتی کیلئے منہ تو کالا کر لیتے ہیں ، اگر کسی نے اپنے ڈی بی پر کلمہ طیبہ لکھ دیا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی۔ تھوڑا غور کیا تو جو شک تھا وہ یقین میں بدلتا نظر آیا کہ کلمہ طیبہ کی پوسٹ پر اعتراض کرنے والوں کو تکلیف کیوں ہے۔”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ”۔میں دو فرقوں کے” ایمان” پورا ہونے والے الفاظ نہیں تھے۔ ایک تو قادیانی ہیں اور دوسرے تو آپ خود ہی سمجھ گئے ہونگے۔

ہمارے ایک فاضل کالم نگار فیس بک پر سیکولر اور اسلامسٹ کا کارڈ کھیل کر عوام کو تقسیم کرنے اور بیوقوف بنانے کی “ہائوس فل”نمائش جاری ہے دلچسپ پوسٹ لگائی۔یہاں مجھے عرض کرنا پڑا کہ سیکولر ، کسی مذہب کی توہین نہیں بلکہ ہر شخص کو اپنے مذہب میں چلنے اور عدم مداخلت کا نام ہے۔ اب سیکولر کی مزید کیا تشریحات بنا دی گئی اس پر بحث لاحاصل ہے۔لیکن اسلام سمیت دیگر موجودہ مذاہب کے مطالعے میں یہ بات اظہر من الشمس صاف عیاں ہے کہ کوئی مذہب کسی دوسرے مذہب کے پیروکار کو جبری طور پر اپنے مذہب میں داخل ہونے اور تشدد کی تعلیم دیتا ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ انسانوں نے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کو خدا مان لیا ہے، کسی نے اپنی خواہشات کے ہاتھوں سر تسلیم خم کردیا ، کسی نے بیزاریت سے ادیان سے لاتعلقی کا اظہار کرلیا ۔ کوئی نہ کوئی اپنی ڈگر پر صدیوں سے چلتا آ رہا ہے۔

لہذا “فلم ابھی باقی ہے میرے دوست “۔ تعلیم شعور اور ذہنی بلوغت کیلئے ایک راہ متعین کرتی ہے ، لیکن چند کتابیں پڑھنے کے بعد خود کو عالم فاضل سمجھنے والوں سے بڑھ کر سب سے معتبر ابلیس بن جانے والوں کی کہانیاں تاقیامت سنائی جاتی رہیں گی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ، کسی نے کچھ کہا تو کسی نے کچھ لکھا ، ایسے دوہرانے کا فائدہ نہیں ، لیکن بس مجھے کوئی سمجھا دے کہ اگر کوئی شخص ، کسی ماں ، بہن کو گالی دیتا ہے تو غصہ کیوں آتا ہے۔قتل تک غیرت کے نام پر کردیئے جاتے ہیں ۔ لیکن جب اللہ تعالی نے ازواج مطہرات صلوة اسلام کو امت کی مائیں کہہ دیا ، اور ان مقدس ہستیوں کے خلاف کوئی گستاخ دشنامی کرے ، تو آپ کی خاموشی کو کیا نام دیا جائیئ؟۔اپنی بہن ، ماں ، بیوی پر تو واک آئوٹ ، کسی اولاد جائز ہونے یا نہ ہونے کی عدالتی فیصلے کے کاپیاں میڈیا میں لہرانا ، خواتین کے سامنے بے شرمی سے روحانی باپ کہلانے والے سے خود کو جدا کرکے نئی جماعت بنانے والے ، غرض ایرے غیرے سب ہی مشتعل ہوجاتے ہیں ، لیکن جب بات نبی اکرم حضرت محمد مصطفی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم ، ازواج مطہرات صلوة السلام اور اصحاب رسول رخوان اللہ اجمعین پر آتی ہے تو سارا ٹھیکہ مولویوں کو دے دیا جاتا ہے۔

آپ موم بتی لیکر اظہار رائے کے حق آزادی کے لئے پارلیمنٹ، پریس کلب ، سمینار میں” الومیناتی اور “فری میسن”کے پیروکار بن جاتے ہیں ۔ جسٹس شوکت عزیز کے خلاف مہم چلانے کا مقصد ، اسلام کے خلاف مہم چلانا ہے۔ کسی کے مذہبی جذبات اور شعائر کا مذاق اڑانے کی اجازت تو دنیا کا کوئی مذہب نہیں دیتا ، پھر آپ کو تکلیف کیوں ہے ۔ دراصل تکلیف کی اصل وجہ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ”ہے۔تو بھائی نہیں مانتے ہو تو مت پڑھو ، کسی کو بھی وصی بنا لو ، تمھارا ایمان تم کو مبارک، لیکن دنیا میں اسلام کا مذاق تو مت بنائو۔ اینٹ مارو گے تو جواب میں پھول نہیں ، پتھر ہی ملیں گے۔

Qadir Khan Afghan

Qadir Khan Afghan

تحریر: قادر خان یوسفزئی