برطانیہ میں شدت پسندی سے نمٹنے کیلئے نئے قوانین لانے کا فیصلہ

Britain laws

Britain laws

لندن (جیوڈیسک) برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ملک میں شدت پسندی یا سخت گیر خیالات کی تشہیر کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس قانون کے تحت امیگریشن کے نئے قوانین لائے جائیں گے اور شدت پسندوں کے زیرِ استعمال دفاتر کو بند کرنے کے علاوہ ’ایکسٹریم ازم ڈسرپشن آرڈر‘ بھی متعارف کروایا جائے گا۔

امورِ داخلہ کے لیے بی بی سی کے نامہ نگار ڈینی شا کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی نئی پارلیمان میں بھی اس بنیاد پر ان قوانین کی مخالفت کا امکان موجود ہے کہ ان میں سے کچھ اظہارِ رائے کی آزادی سے متصادم ہیں۔ نئے قوانین کے تحت ایسی شدت پسند تنظیموں کے عوامی مقامات پر جلسے کرنے پر پابندی لگائی جا سکے گی جو نفرت آمیز پیغامات دیتی ہیں لیکن ان کی سرگرمیاں انھیں دہشت گرد یا کالعدم تنظیم قرار دینے کے لیے ناکافی ہیں۔

نئے قوانین کے تحت ایسی شدت پسند تنظیموں کے عوامی مقامات پر ہونے والے اجتماعات پر پابندی لگائی جا سکے گی جو نفرت آمیز پیغامات دیتی ہیں لیکن ان کی سرگرمیاں انھیں دہشت گرد یا کالعدم تنظیم قرار دینے کے لیے ناکافی ہیں۔برطانوی حکومت کے منصوبے کے تحت ملک کے خیراتی کمشن کو زیادہ اختیارات دئیے جائیں گے تاکہ وہ ایسے خیراتی اداروں کا قلع قمع کر سکے جو انھیں ملنے والی امداد سے شدت پسندوں اور دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ پر نظر رکھنے والا ادارہ آف کام بھی ایسے چینلز کے خلاف کارروائی کر سکے گا جو شدت پسندی کے نظریات کی تشہیر کرتے ہیں۔قومی سلامتی کونسل کے ہفتہ وار اجلاس میں ڈیوڈ کیمرون یہ بھی کہیں گے کہ یہ نئے قوانین لوگوں کے لیے شدت پسندی کی تشہیر مشکل بنا دیں گے۔

وہ کہیں گے کہ ’ضرورت سے زیادہ عرصے تک ہم ایک مزاحمت نہ کرنے والا متحمل مزاج معاشرہ رہے ہیں اور اپنے شہریوں کو کہتے رہے ہیں کہ جب تک آپ قانون نہیں توڑتے ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔بتایا گیا ہے 27 مئی کو ملکہ برطانیہ کی تقریر میں اس قانون کا ذکر ہو گا۔