آخری بجٹ اور آخری موقعہ

Budget

Budget

تحریر : روہیل اکبر
موجودہ اسمبلیاں اپریل کے آخر میں ختم ہوجائیں گی اور مئی کے آغاز میں ہی نیا عبوری سیٹ اپ آ جائیگا اور جاتے جاتے یہی حکومتیں بجٹ بھی پیش کرینگی ان گذرنے والے پانچ سالوں میں عوام نے شائد ہی کبھی خوشی کا سانس لیا ہو ایک طرف قرضوں کا بوج بڑھتا رہا تو دوسری طرف حکومت پیسے اکٹھے کرنے کے لیے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھاتی رہی غریب دن بدن غریب تر ہوتا گیا اور ٹیکس چوری کرنے والے امیر سے امیر تر بن گئے پورے ملک میں مہنگائی ،بے روزگاری اور اب لوڈ شیڈنگ کے خلاف عوام سراپہ احتجاج رہی مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگ سکی ہر طرف خسارہ ہی خسارہ رہا سوائے حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے جنہوں نے خوب مال بنایا نہ صرف پاکستان میں بلکہ پاکستان سے باہر بھی چوری کا مال کھلے دل سے بھیجا گیا ایمانداری سے کام کرنے والے تاجروں کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے اور مک مکا کرنے والوں کے کنٹینر انکے گوداموں تک بغیر کسی تردد کے پہنچائے جاتے رہے یہی وجہ تھی کہ پاکستان کی تجارت کو رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں خسارہ27ارب 29کروڑ90لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 23ارب 27کروڑ20لاکھ ڈالر کے خسارے سے 17.30 فیصد زیادہ ہے۔ پاکستان بیورو آف شماریات سے جاری ماہانہ رپورٹ کے مطابق مارچ 2018 میں ایکسپورٹ میں زبردست ریکوری آئی اور ماہانہ برآمدات سالانہ بنیادوں پر 24.36 فیصد کے اضافے سے 2ارب 23کروڑ 10لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں جو مارچ 2017 میں 1ارب 79 کروڑ 40 ارب ڈالر تک محدود تھیں۔

اس دوران درآمدات صرف 6.09 فیصد بلند ہونے کے باعث 4ارب 97کروڑ 70 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 5ارب 28کروڑ ڈالر رہیں، درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں برق رفتار اضافے کے باعث گزشتہ ماہ کا تجارتی خسارہ 4.21 فیصد گھٹ کر 3ارب 4کروڑ90لاکھ ڈالر تک محدود ہوگیا جو مارچ 2017 میں 3ارب 18کروڑ 30 لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا تھا تاہم جولائی سے مارچ کے 9ماہ میں تجارتی خسارہ برآمدات کی نسبت درآمدات میں اضافے کی وجہ سے 17.30 فیصد بڑھا، گزشتہ 9ماہ کے اندر برآمدات میں13.14فیصد ریکوری آئی جس کے نتیجے میں برآمدات 15ارب 9کروڑ 70 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 17ارب 8کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں مگر درآمدات بھی 15.66 فیصد بڑھ کر 44ارب 37کروڑ 90 لاکھ ڈالر ہو گئیں جو گزشتہ مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں 38ارب 36کروڑ 90 لاکھ ڈالر رہی تھیں فروری کے مقابلے میں گزشتہ ماہ برآمدات میں17.30، درآمدات میں 10.07 اور تجارتی خسارے میں 5.32 فیصد کا اضافہ ہوا۔ فروری 2018 میں ایکسپورٹ 1 ارب 90 کروڑ 20لاکھ ڈالر، امپورٹ 4 ارب 79کروڑ70لاکھ ڈالر اور تجارتی خسارہ 2ارب 89کروڑ 50لاکھ ڈالر رہاتھا تاجر رہنما اور ماہر معیشت دان فاروق آزاد کا کہنا بھی یہی ہے کہ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے برآمدات میں اضافہ کیلئے سستی توانائی کی فراہمی ناگزیر ہے۔

کیونکہ خطے کے دیگر ممالک میں گیس اور بجلی کے نرخ پاکستان کے مقابلے میں پچاس فی صدتک کم ہیں اس کے علاوہ وہاں کم اجرتوں ر دستیاب افرادی قوت کے باعث ان ممالک کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوگا اس لیے گیس اور بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ صنعتی پیداوار پر آنے والی لاگت میں اضافے کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات عالمی مارکیٹ میں جاری مسابقت میں پیچھے رہی ہیں اور اسی وجہ سے ان کی جگہ دیگر ممالک کی مصنوعات لے رہی ہیں برآمدا ت میں اضافہ کیلئے مراعات اور سیلز ٹیکس ریفنڈز کی فوری ادا کیے جائیں کیونکہ برآمدات کنندگان سرمائے کی کمی کا شکار ہیں برآمدات میں کمی کی ایک یہ بھی اہم وجہ ہے اس جانب خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ برآمدات کسی بھی ملک کی معیشت کے استحکام کی ضامن ہیں اگر قرضوں کے حوالہ سے بات کی جائے تو خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی جنہوں نے قرضے لینے کا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے 2013 سے اب تک 2 کھرب 70 ارب 38 کروڑ کے قرضے لے لئے۔ صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت نے صرف تین منصوبوں کے لئے 99 ارب 47 کروڑ 50 لاکھ روپے قرض لیا جو بس ریپڈ ٹرانزٹ، توانائی اور آبپاشی منصوبوں کے لئے لیا گیا۔

جب کہ بس منصوبے کے لئے 41 ارب 88 کروڑ سے زائد کا قرض لیا گیا ہے یہ قرضے ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک، سعودی اور فرانسیسی اداروں سے لیے گئے ہیں جن کی ادائیگی 20 سے 38 سال کے دوران کی جائے گی اللہ تعالی نے پاکستان مسلم لیگ ن ،پاکستان پیپلز پارٹی ،پاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان والوں کو ایک موقعہ اور عطا کیا ہے کہ وہ جاتے جاتے ایسا عوامی اور فلاحی بجٹ پیش کرکے جائیں تاکہ ملک کی غریب عوام کو سکھ کا سانس اور خوشی کے لمحات مل سکیں اور خاص کر بچوں ،نوجوانوں اور بوڑھوں کے لیے ایسے منصوبوں کا اعلان کیا جائے کہ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ بن جائے اور آخر میں ایک آخری جملہ کہ موجودہ حکمرانوں کے دور حکومت کایہ آخری بجٹ کے ساتھ ساتھ ان کے لیے آخری موقعہ بھی ہے اور جاتے جاتے اس موقعہ کو یاد گار بنا کر جانا چاہیے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200