برما کے مسلمان انسان نہیں ۔۔۔۔انصاف کا دہرا معیار

Burma Muslims

Burma Muslims

تحریر : عتیق الرحمن
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”جس نے کسی انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان کو محفوظ بنایا اور اسی طرح جب کسی نے بے گناہ انسان کو خون بہایا ایسا ہے کہ اس نے انسانیت کا خون کیا ہے”اس بات سے واضح ہوتاہے کہ اسلام کسی بھی صورت میں خون کے بہانے کے حق میں نہیں یہی وجہ ہے کہ کلام مجید میں مسلمانوں کے خون کی بات نہیں کی بلکہ لفظ ناس (یعنی انسان) کا استعمال کرکے بات کو بین انداز میں بیان فرمادیا کہ اسلام مسلم و غیر مسلم ،کافر و مومن،فاسق و فاجر،ظالم و عادل سبھی کی جان و مال کی حفاظت کی تاکید کرتاہے تاوقتیکہ ان سے کھلا جرم و ظلم ثابت نہ ہوجائے اور پھر طاغوتیت کے ارتکاب کی صورت میں بھی حدود و قیود مقرر کردی ہیں کہ قصاص میں قتل کیاجائے گا۔۔

حکومت و عدالت کو سزا تجویز کرنے کا اختیار ہوگا، بذات خود قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا جائے گا،سزادیتے وقت اس میں مبالغہ و زیادتی نہیں کی جائے گی بقدر جرم سزا مقدر ہوگی۔تاکہ ملک و ملت میں اعتدال اور امن و آشتی کی صورتحال مستحکم رہ سکے۔اب ظلم کی بات تو یہ ہے کہ جو اسلام دین امن و محبت ہے کہ حاملین کو شام و عراق، کشمیر و فلسطین، بوسنیاو چیچنیا،افغانستان و برمامیں گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔

حال ہی میں برماکے صوبہ ارکان میں مسلمانوں کی جاری نسل کشی پر عالمی دنیا کی بے رخی و بے حسی قابل غورو تدبر ہے کہ کیا وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں درجن بھر انسان قتل ہوجائیں تو ان کی سزا ملکوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی صورت میں ظاہر ہو اور مسلمان سیکڑوں نہیں لاکھوں کی تعداد میں وحشیانہ انداز میں قتل کردیئے جائیں تو امن عالم کے علمبرداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔صاف ظاہرہے کہ اقوام متحدہ و امریکہ اور یورپ کے ہاں امن عالم کویقینی بنانے کیلئے دستور و قانون دوطرح کے ہیں یعنی مسلمان کٹ مرجائے تو کوئی کارروائی نہیں اور اگر کوئی انگریز ناگہانی آفت کا شکار ہوجائے تو اس پر دنیاکو تہہ وبالا کرنا لازمی ہے۔

اب اس وقت سوال مغرب کے حکمرانوں کی کارکردگی کا نہیں بلکہ مسلم حکمرانوں،مسلم قائدین کی حمیت و غیرت کا ہے کہ جنہیں مدرسہ نبویۖ سے یہ آفاقی و عالمی پیغام ملا ہے کہ ”بھائی کی مدد کرو خواہ و ظالم ہو یا مظلوم”ظالم کی مدد کو بیان کرتے ہوئے بیان فرمادیا کہ اس کو ظلم کرنے سے روک دو۔اور اسی طرح فرمادیا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں کہ خطہ ارض کے کسی کونے میں بھی مسلمان کو گزند پہنچے تو لازم ہے کہ کوئی ہارون الرشید، معتصم باللہ،صلاح الدین ایوبی اور محمد ابن قاسم کی صورت میں مردمجاہد علم جہاد بلند کرتے ہوئے ظالموں اور جابروں کو ان کے کئے کی سزا دیکر مسلمانوں کو عدل و انصاف فراہم کرکے امن و آشتی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع عنایت کرے۔اب برما کہ مسلمانوں کو مسیحا کی ضرورت ہے پاکستان،سعودی عرب، ترکی، ایران، اور 52اسلامی ممالک کی حکومتیں اور عرب ممالک کی اسلامی سربراہی فوج کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہے کہ وہ اپنے مظلوم و مقہور مسلمان بھائیوں کی مددو نصرت کیلئے عملاً حرکت میں آئیں۔

تحریر : عتیق الرحمن
(اسلام آباد)
0313-5265617
atiqurrehman001@gmail.com