برما

Muslim Children Were Burnt Alive In Meiktila – Burma

Muslim Children Were Burnt Alive In Meiktila – Burma

تحریر: شاہد شکیل
برما میں مسلمانوں پر ظلم و جبر کوئی نئی بات نہیں عرصہ دراز سے وہاں کے مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں صدیوں سے بسنے والے مسلمانوں سے ان کی شہریت چھین لی گئی ہے ان کی ہر آزادی پر پابندی عائد ہے اس المیہ پر عالم خاموش ہے، انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان مظالم پر امت مسلمہ کی بے حسی اور خاموشی حیران کن ہے سب جانتے ہیں کہ برما میں کیا ہو رہا ہے لیکن کسی کو کوئی سروکار نہیں سب کو اپنے اقتدار کی فکر لاحق ہے ترکی کے علاوہ کسی مسلمان ملک نے برماکے مظلوم مسلمانوں کی مدد نہیں کی۔

اسلامی ملک بنگلا دیش کا کہنا ہے کہ تمام روہنگیا کے مسلمان غیر ملکی ہیں ان کا بنگلا دیش سے کوئی تعلق نہیں جس کے نتیجے میں یہ لوگ ظلم و ستم کا شکار ہورہے ہیں اور دنیا کے مسلم ممالک کے لئے ناقابل قبول حیثیت رکھتے ہیں۔

چالیس لاکھ سے زائد روہنگیا کے مسلمان پناہ گزین کیمپوں میں جانوروں سے بھی بد تر حالت میں قید ہیں اور برما کے علاوہ دیگر ہمسایہ ممالک میں انہیں زبردستی برداشت کیا جا رہاہے کئی ممالک میں ان کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی دردِسر بن چکی ہے،قوانین میں روز بروز انسانی حقوق کے خلاف تبدیلیاں کی جارہی ہیں حتیٰ کہ شادی کرنے کیلئے بھی حکومت سے اجازت لینی پڑتی ہے اور دو سے زائد بچوں کی پیدائش پر پابندی عائد ہے۔

Rohingya Moving in Sittwe

Rohingya Moving in Sittwe

حیثیت کے مسئلے کو قومیت کا مسئلہ بنا کر دنگے فساد اور بلوے کروائے جا رہے ہیں اقتصادی کمزوری کی آڑ میں انسانیت کی تذلیل کی جا رہی ہے اور دنیا بھر میں میڈیا سچائی اور حقائق کو جانتے ہوئے بھی پروپیگنڈا کر رہا ہے ،عالمی ادارے بظاہر ایکشن لینے یا مذکرات کا ڈھونگ رچا کر مسائل کو حل کرنے کی بجائے اضافہ کر رہے ہیں ہر کوئی اپنی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے محض نپے تلے بیان دے رہا ہے جبکہ روہنگیاکے مسلمانوں کا کوئی پرسان ِحال نہیں ظلم و ستم کی تمام حدود کو تجاوز کر دیا گیا ہے ماؤں کے سامنے ان کے معصوم بچوں کی گردنیں اڑائی جا رہی ہیں ،نو عمر لڑکیوں کی انکے والدین کے سامنے عصمت دری کی جارہی ہے۔

جوانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے ،ہزاروں لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ،برما اور تھائی لینڈ کی سرحد پر انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھنے کے بعد سیکڑوں کی تعداد میں کشتیوں میں بٹھا کر کھلے سمندر میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ،سمندری موجیں انہیں نگل جاتی ہیں یا بیچ سمندر میں ہی بھوک وپیاس سے جان گنواتے ہیں اور اگر خوش قسمتی سے موت کو دھوکادے کر بچ نکلے تو کسی ملک کے ساحل پر آ لگتے ہیں جہاں اس ملک کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

انتیس مئی کو سترہ ممالک کے وفود اس انسانی مسئلے کو لے کر جمع ہوئے تاکہ خلیج بنگال میں موجود کشتیوں میں سوار ہزاروں برمی مسلمان تارکین وطن کے اس سنگین مسئلے کا حل نکالا جائے ،برما سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مہاجرین انڈو نیشیا اور ملائیشیا پہنچنے کے خواہشمند ہیں اب یہ مسئلہ قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ بن گیا ہے ،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی تنظیمیں اس مسئلے کو حل کر پائیں گی؟کیا امتِ مسلمہ متحد ہو کرمسلمانوں کے مسائل حل کر سکے گی؟۔

آج تک دنیا کی کسی تنظیم نے فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم کو حل نہیں کیا تو کیا مستقبل میں کسی اسلامی یا غیر اسلامی تنظیم پر انحصار، اعتماد اور بھروسہ کیا جا سکتا ہے ؟ جب تک مسلمان متحد ہو کر دوسرے مسلمان کے مسائل کو اپنا ذاتی مسئلہ نہیں سمجھیں گے ایسے واقعات جنم لیتے رہیں گے اور غیر اسلامی تنظیموں کی امداد کے منتظر رہیں گے۔

Shahid Shakil

Shahid Shakil

تحریر: شاہد شکیل

Rohingya Moving in Sittwe

Rohingya Moving in Sittwe