سی پیک منصوبے میں ایران کی شمولیت کی خواہش

Pak-China Economic Corridor

Pak-China Economic Corridor

تحریر: رضوان اللہ پشاوری
پاک چائنہ اقتصادی راہداری کی اہمیت سے کونسا پاکستانی واقف نہیں ہوگا، یہ وہ منصوبہ ہے،جسے خطے میں گیم چینجر منصوبے کا نام دیا گیا ہے،اس منصوبے کی کامیاب تکمیل کے بعد پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔

پاک چائنہ اکنامک کاریڈوردونوں ممالک کے مفاد میں غیر معمولی اہمیت اور ترقی کا باعث بن سکتا ہے، دونوں ممالک کی قیادت اس منصوبے کی تکمیل کے لئے نہایت پر جوش اور پرعزم ہیں، جس سے بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ دونوں ممالک میں توجہ کا مرکز اور اہم ترین ذمہ داری اس معاہدے کی تکمیل کو سمجھا جا رہا ہے،یہ معاہدہ جتنا پاکستان کے حق میں بہتر ہے اس سے زیادہ چین کے فائدے میں بھی ہے،خطیر سرمایہ سے مکمل ہونے والے اس منصوبے پر کام شروع کردیا گیا ہے۔

پاکستان کی ترقی میں اہم کردار کے حامل اس منصوبے کا آغاز ہی پاکستان کے اعلانیہ دشمنوں اور دوست نما دشمنوں کی آنکھ میں کھٹکنے لگا تھا،جس میں سب سے زیادہ اضطراب ہمارے روایتی حریف بھارت کو ہے جبکہ اوپر اوپر سے پاکستان کے ساتھ دوستی کا دم بھرنے والا دوست نما دشمن ایران بھی اس منصوبے کے حاسدین میں نمایا ںہے،بھارت نے اس منصوبے کی ناکامی کے لئے ہر طرح کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں،اس معاہدے کے بعد پاکستان میں بھارت نے پراکسی وار پہلے سے زیادی تیز کر دی ہے، جس میں ایران نے بھارت کا بھر پور ساتھ دیا جس کی سب سے بڑی مثال بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی بلوچستان سے گرفتاری اور ایرانی سرزمین کی استعمال کا اعتراف ہے،پاکستان دشمن بھارت کو پاکستان کی ترقی کا باعث بننے والا یہ معاہدہ بھی ایک آنکھ نہ بھایا اور بھارت نے اس کے مقابل سہ فریقی اتحاد بنا لیا۔

Nawaz  Sharif and Rouhani

Nawaz Sharif and Rouhani

جس میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ دوستی کے روپ میں دشمنی نبھانے والے ایران کو بھی ساتھ میں ملالیا اور یہ دونوں انجام سے غافل اور احسان فراموش ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کو استعمال کرنا چاہتے ہیں،سہ فریقی اتحاد نے ٹرانزٹ ٹریڈ اور چاہ بہار کی بندرگاہ کی تعمیر کا معاہدہ کیا،منصوبے میں ایک خطیر سرمایہ لگانے کا فیصلہ کیا گیاہے،مگر یہ سی پیک جیسی اہمیت کا حامل ہر گز نہیں ہوسکتا۔

جس کے واضح مثال یہ ہے کہ ایرانی صدرنے نیویارک میں وزیراعظم نوازشریف سے سی پیک منصوبے میںشمولیت کے خواہش کا اظہار کیا ہے، ایرانی صدر حسن روغانی نے نوازشریف کو دورہ ایران کی دعوت بھی دی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت اور ایران کا ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ ایران کو مفید نظر نہیں آرہا،اگر وہ مفید ہوتا اور بہارتی خواہش کے مطابق اس منصوبے سے سی پیک کی اہمیت کم ہوتی تو ایران ہر گز پاکستان سے سی پیک میں شمولیت کی خواہش کا اظہار نہ کرتا۔

India

India

وزیراعظم نوزاشریف نے اگرچہ دور ایران کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے جلد ایران کے دورے پر آمادگی ظاہر کی ہے لیکن کیا ایسا ملک جو ہمارے حریف بھارت کا قریبی دوست ہے، اور بھارت جب بھی پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کرنے کی کوشش کرے تو ایران اور بہارت میں قربتیں مزید بڑھ جاتی ہیں تو کیا کسی ایسے ملک کو اس طرقیاتی منصوبے میں شامل کیا جا سکتا ہے؟جو ہمارے دشمن کا دوست ہو،جوملک میں فرقہ وارانہ فسادات نے براہ راست ملوث ہو،کیا پاکستان میں سینکڑوں ایرانی تربیت یافتہ دہشت گرد اور ایجنٹ گرفتار نہیں ہوئے؟۔

کیا پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی یا شیعہ سُنی فسادات میں ایران ملوث نہیں رہا؟تو ہم کیسے اس ملک کو اس منصوبے میں شریک کرسکتے ہیں؟جس کی محبتیں اور مفادات ہم سے زیادہ ہمارے دشمن ملک سے وابستہ ہیں،اس لئے ہمیں ایران سے اُسی نہج کے تعلقات استوار رکھنے ہونگے جو ایران ہمارے ساتھ کرتا چلا آیا ہے بظاہر دوستی اور اندرونِ خانہ دشمنی کی ایرانی روش اب عیاں ہو چکی ہیں،اس لیے تمام فیصلے ملکی مفادات اور قوم کے فائدوں کو مدنظر رکھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔

Rizwan Ullah Peshawari

Rizwan Ullah Peshawari

تحریر: رضوان اللہ پشاوری
rizwan.peshawarii@gmail.com
0313-5920580