خلیفہ سوم حضرت عثمان

Hazrat Usman Razi Allah Anhu

Hazrat Usman Razi Allah Anhu

تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
عثمان نام ،ابو عبداللہ اور ابوعمر کنیت، ذوالنورین لقب ہے۔ حضرت عمر نے اپنی موت کے وقت ایک انتخابی مجلس ترتیب دی اور اسے اپنے بعد خلیفہ منتخب کرنے کا کا م سپرد کیا۔ یہ انتخابی کونسل ان چھ افراد پر مشتمل تھی جو اُس وقت قوم میں زیادہ با اثر اور مقبول عام تھے۔ اس مجلس نے عبدالرحمٰن بن عوف کو خلیفہ تجویز کرنے کا اختیار دے دیا ۔ انہوں نے چل پھر کر عام لوگوں سے معلوم کیا۔ حج پر تشریف لانے والوں سے پوچھا اور آخر کار اس نتیجہ پر پہنچے کہ لوگوں کا رجحان حضرت عثمان کی طرف ہے۔اس پر مجمع عام میںان کی بیعت ہوئی اور خلیفہ بنے۔ حضرت عثمان بارہ سال چھ ماہ خلیفہ رہے۔ حضرت عثمان نے رسول ۖ اللہ کے وقت اسلام کے لئے بڑی قربانیاں دیں ۔جنگ تبوک کے موقع پر کثیر تعداد اونٹ جو ما ل سے لدھے ہوے تھے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کو پیش کیے۔

جنگ تبوک کے موقعے پرایک تہائی لشکر کے اخراجات بھی برداشت کیے ۔ہر وقت اسلام کی خدمت کے لیے تیار رہتے تھے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی دو بیٹیوں کا نکاح حضرت عثمان سے ہوا۔ عرب کے سب سے بڑے تاجر تھے حضرت عمر کے دورِ خلافت میں غلے کاقحط پڑا ،خلیفہ نے حضرت عثمان سے جن کے غلے سے لدھے اونٹ مدینہ کی طرف آرہے تھے حکومت کو فروخت کے لیے کہا تو حضرت عثمان نے انکار کیا اور کہا جو آپ نے قیمت لگائی ہے اس سے زیادہ قیمت پر فروخت کروں گاخلیفہ ان سے ناراض ہوئے۔

مگر جب غلے سے لدھے ہوے اُونٹ مدینے پہنچے تو حضرت عثمان نے تمام اُونٹوں کا غلہ بیت المال میں بغیر قیمت کے جمع کر وا دیا۔ حضرت ابو بکر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر اسلام لائے تھے مکہ میں کفار کے ظلم ستم کی وجہ سے حبشہ کی ہجرت میں شامل تھے جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب کو ہجرت مدینہ کا کہا تو مدینہ ہجرت کی غزوہ بدر میں اپنی کی بیماری کی وجہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق مدینہ میں ہی رہے باقی تمام مہمات میں شریک رہے غزوہ احد میں جب لوگ تتر بتر ہو گئے تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی حفاظت کے لیے دوسرے چند صحابیوں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔

Reconciled Hudaibia

Reconciled Hudaibia

صلح حدیبیہ میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سفیر بن کر کفار مکہ کے پاس گئے خبر مشہور ہو گئی کہ کفار نے حضرت عثمان کو شہید کر دیا ہے تو اس بات پر بیعت رضوان ہوئی۔ جنگ تبوک کے موقعہ پر بہت مال پیش کیا تھا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیاضی سے اس قدر خوش تھے کہ اشرفیوں کو دست مبارک سے اچھالتے تھے اور فرماتے تھے ”آج کے بعد عثمان کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا”حضرت عثمان کے دور خلافت شورائی طرز کا تھا لوگوں کو آزادی کی اجازت تھی لوگ حکومت پر تنقید کرتے تھے مجلس شوریٰ میں عمال شامل تھے جو حکومت کو اہم معاملات میں مشورے دیتے تھے ان مجلس میں عمال سے تحریری مشورے طلب کئے جاتے تھے حضرت عثمان کے دور خلافت میں اختیارات کی تقسیم تھی فوج کے افسر کا عہدہ ایجاد کیا گیا تھا صوبے میں عامل اور فوج کا افسر علیحدہ اختیارات کا مالک ہوتا تھا۔

نگرانی کانظام قائم تھا اس کے لیے دربار خلافت سے تحقیقاتی وفود روانہ کئے جاتے تھے جو تمام ممالک محروسہ میں دورہ کر کے عمال کے طرز عمل اور رعایا کی حالت کا اندازہ کرتے تھے جمعہ کے خطبے سے پہلے لوگوں سے اطراف ملک کی خبریں پوچھتے تھے حج کے موقعے پر تمام اعمال لازمی طور پر طلب کئے جاتے تھے اس لئے فوری شکایتوں کی تحقیقات کر کے تدراک کرتے تھے ملک کا نظم ونسق فاروق اعظم والا ہی تھا مگر ملکی محاصل میں اضافہ کیا مصر کا٢٠ لاکھ دینار سے ٤٠ لاکھ تک پہنچ گیا تھا ان کے دور میں اہل وظائف کا ایک ایک سو درہم کا اضافہ ہوا۔لوگوں کے کھانے کا انتظام بھی کیا۔

صوبہ جات میں دفاتر کے لیے عمارتیں تیار کروائیں۔ سڑکیں، پل،مہمان خانے،مسجدیں تعمیر کروائیں۔ خیبر کی طرف سے کبھی کبھی سیلاب آیا کرتا تھامسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شہر کی آبادی کو نقصان پہنچتا تھا مدینہ سے تھوڑے فاصلہ پر مدری کے قریب ایک بند صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنوایااور نہر کھود کر سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑ دیا اس بند کا نام مہروز ہے مسجد بنوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعمیر و توسیع کی۔ ملکی انتظامات کوتمام مقامات پر علیحدہ کیا مستقل فوجی افسروں کا ہر مقام پر تعینات کیاتمام ممالک میں گھوڑوں اور اونٹوں کی پرورش و پرداخت کے لیے نہایت وسیع چراگائیں بنوائیں چراگاہ کے قریب چشمے تیار کروائے اسلام میں بحری جنگ اور بحری فوجی انتظامات کی ابتداء خاص حضرت عثمان کے عہد خلافت سے ہوئی۔

Fear God

Fear God

نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکا اصل فرض مذہب کی خدمت ہے اس فرض کو اچھے طریقے سے انجام دیا ۔حضرت عثمان اکثر خوف خدا سے آبدیدہ رہتے تھے شرم وحیا حضرت عثمان کا امتیازی وصف تھا۔ فیاض تھے مدینے میں سارے کنوا ئیں کھاری تھے صرف بیر رومہ جو ایک یہودی کی ملکیت میں تھا شریں تھا رفاہ عامہ کے خیال سے اس کو بیس ہزار درہم میں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا آپ کاتب وحی تھے۔ طرابلس،برقہ،افریقیہ،اسپین، قبرض،طبرستان ،آرمینیہ ، امرورود،طالقان،فاریاب ، افغانستان،خراسان، ترکستان، ایران، ،آزربائیجان ، جوزجان ا ور ایشیائے کوچک کا ایک وسیع خطہ اور شام وغیرہ ان کے دور میں مفتوح ہوئے امیر معاویہ تنگنائے قسطنطنیہ تک بڑھتے چلے گئے۔کابل سے مراکش تک کے علاقعے حضرت عثمان ۖ کے دور حکومت میں شامل تھے۔ح

ضرت عثمان اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتے تھے اپنے رشتہ داروں کو اپنے پاس سے اور بیت المال سے مدد کرتے تھے۔ بعض وقت بیت المال سے قرض لے کر بھی رشتہ داروں کی مدد کی کہا کرتے تھے میرے رشتہ دار اتنے زیادہ مال دار نہیں، اس لیے ان کی مدد کرتا ہوں اور یہ صلہ رحمی ہے اور یہ قرآن کے مطابق ہے۔یہی بات بعض لوگوں کو پسند نہیں تھی اور آخر کار بلوائیوں نے انہیں شہید کر دیا شہادت کے موقع پر چالیس دن تک بردباری ضبط اور تحمل کا اظہار کیا ایک وسیع سلطنت کے حاکم اور جانثاروں کی فوج ہونے کے باوجود خلیفہ راشد حضرت عثمان نے چند بلوائیوں کے خلاف خونریزی کی اجازت نہیں دی اورشہادت قبول کر لی۔

قارئین! حضرت عثمان خلافت کے زمانے میں فرماتے تھے جب میں خلیفہ نہیںبنا تھا تو میں عرب کا سب سے زیادہ اونٹوں بکریوںکامالک تھا اب خلافت کے دوران میرے پاس ایک اونٹ حج کی سواری کے لیے اور ایک بکری ہے۔یہ ہیں مسلمانوں کے آئیڈ ئیل حکمران ! کیا آج کل کے مسلمانوں حکمرانوں میں کوئی ایسا ہے؟ مسلمان حکمرانوں نے عوام کو لوٹنے کے علاوہ کوئی اور کام کیا ہے اسی لیے پاکستان اور اسلامی دنیا کے عوام مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست اور خلفاء راشدین کے دور کی حکومت کے آرزو مند ہیں۔ آئیے مسلمان ملکوں میں ایسی حکومتوں کے لیے کوشش کریں تاکہ ضروریات زندگی کی فروانی ہو، امن وامان ہو، کرپشن ختم ہو،دہشت گردی ختم ہو، انصاف ہو، عدل کانظام ہو، انسانیت کی قدر ہو،بیرونی مداخلت ختم ہو تمام شہریوں کے لئے ترقی کے یکساں مواقعے ہوں۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میرافسر امان، کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد(سی سی پی)