او ایل ایکس O.L.X

O.L.X

O.L.X

تحریر: وقاراحمداعوان
ہم نے پاکستان کی مشہورکمپنی O.L.Xکو فون کیا ۔۔۔دوسری جانب سے کسی صاحب نے فون اٹھایا۔۔۔جی جناب میں فلاں بات کررہاہوں۔۔۔آپ کو کیا بیچنا ہے جناب۔۔۔ان صاحب کو چونکہ اپنے گاہک کی تعدادروزبروز بڑھانی ہوتی ہے اس لئے جناب جناب ۔۔۔۔ورنہ تو جناب کا لفظ اپنے سگے والد کے لئے سننے کو نہیںملتا،خیر ہم نے ان سے کہا۔۔۔۔کہ ہم نے اپنی کچھ کتابیں بیچنی ہیں۔۔۔۔۔ابھی ہم نے اپنی بات پوری ہی کی تھی شاید ۔۔۔یا پھرپوری ہونے سے پہلے دوسری جانب فون سننے والے صاحب قہقہہ بلند کرنے لگے،نہ صرف خود ہماری بات کا مذاق اڑانے میںمصروف تھے بلکہ ساتھ اپنے ساتھیوںکو اپنی طرف متوجہ کیا کہ آئو آئو دیکھو تو فون کرنے والے صاحب اپنی کتابیں بیچنا چاہتے ہیں۔۔۔ہم چونکہ پاکستانی ٹھہرے اس لئے روز اوردیگر امورکی طرح اس اذیت کو بھی برداشت کرگئے۔۔۔۔

اوران جناب کو اپنی جانب ایک بارپھر سے توجہ دلانے میں کامیاب ہوئے۔۔۔۔کیونکہ صاحب تو ہنستے اورہنساتے چلے جارہے تھے۔۔۔۔خیر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے۔۔۔جناب ۔۔۔آپ کسی ردی والے رابطہ کریں آپ کو کتابوں کی قیمت مل جائے گی۔۔ہم نے ان جناب کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔کہ ہمیں قیمت نہیںمول چاہیے۔۔۔۔ہمار امول کہنا تھا اورجناب ایک بارپھر سے مسخرابن گئے۔۔۔۔ان جناب کی ہنسی ہماری برداشت سے باہر تھی مگر کیاکرتے برداشت کررہے تھے کیونکہ ضرورت جو ہماری تھی۔۔۔اوروہ جناب سمجھ رہے تھے کہ ہم نے قیمت کو مول سے الگ کردیاہے۔۔۔خیر انہوںنے اپنی کمپنی بارے اورخریدوفروخت بھی ہمیں بتا ڈالا کہ ہم کیا خرید تے اوربیچتے ہیں۔۔۔۔وہ ہم سے گویا ہوئے کہ جناب ہم گھر،گاڑی،گھریلو سامان،الیکٹرانک سامان وغیرہ بیچتے اورخریدتے ہیں۔۔۔۔اب بتائیے آپ کو اگر ان چیزوںمیںسے کچھ خرید نا بیچنا ہو تو اللہ بسم اللہ ۔۔۔ہم نے ان سے کہاکہ جناب آپ پہلے ہماری پوری بات تو سن لیں پھر بتائیں کہ آپ میری کتابیں خرید سکتے ہیں یا نہیں۔۔۔انہوںنے جواب دیا جی بتائیں مگر ان کی بات میں ابھی تک میری باتوں کا مذاق اوربھرپورطنز شامل تھا۔۔۔۔

Allama Iqbal

Allama Iqbal

ہم ان سے کہنے لگے کہ ہمیں ہمارے قومی شاعراور شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کے مجموعہ جات بیچنے ہیں۔۔۔جناب کہلانے لگے کہ ہم تو آپ سے پہلے ہی کہہ چکے کہ آپ کسی ردی والے رابطہ کریں کیونکہ کتابیں اورپھر شعر وشاعری والی کتابیں ہم بھلا کہاں خرید تے ہیں۔۔۔کیونکہ یہ جدید دورہے اوراس جدید دورمیں شعروشاعری والے مجموعے کہاں لوگ خریدنا اورپڑھنا پسند کرتے ہیں۔۔۔اب تو جیسے ہماری برداشت جواب دے چکی تھی اس لئے ہم ذرا غصے میں ان جناب سے گویا ہوئے اوران کی غفلت کو یکسرختم کردیا ۔۔۔۔ہم نے کہا تم گھر،گاڑی ،بنگلے اوردیگر قیمتی سامان کی بات کرتے ہو۔۔۔۔جانتے ہو قومیں ان چیزوںسے نہیںبنتیں۔۔۔قومیںبنتی ہیں ایک نئی سوچ،نئے ولولے اور نئے جذبوںسے ۔۔۔۔کیا تمہاری ذکرکردہ چیزیں قومیں بناسکتی ہیں۔۔۔یا پھر تاریخ میں ان چیزوںنے کسی بھی قوم کو بنایا ہو۔۔۔۔

جناب اِدھر اُدھر کی چھوڑنے لگے۔۔۔۔ہماری باتیں ٹھیک نشانے پر جالگی تھیں اب کی بار۔۔۔۔ہم نے کہاکہ اقبال نے اس قوم کو غفلت کی نیند سے بیدا رکیا جس قوم نے برصغیر پاک وہند پر ایک ہزارسال حکومت کی مگر غیروںکی دیکھا دیکھی زندگی جو گزارنا شروع کی تو غلام بن گئے ۔۔۔۔اورایسی منہ کی کھانے لگے کہ تاریخ کا حصہ بن گئے۔۔۔۔جناب یہی اقبال تھے جنہوںنے اس قوم ایک شعر میں سمجھا دیا کہ

کی محمد ۖ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

یہی نہیں مسلمان جو آپس کی لڑائیوںمیں مصروف تھے انہیں سبق دیا کہ

ایک ہوںمسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

ہمارے ابھی دوشعر پڑھنے سے جیسے دوسری جانب مکمل خاموشی چھا گئی ہو۔۔۔۔ہم ان سے گویا ہوئے جناب ۔۔۔۔آپ نے صرف اقبال کے اشعار اپنی ضرورت کے لئے پڑھے ہونگے۔۔۔ان اشعارمیں چھپی گہرائی ، ان میں اقبال کا قوم کے لئے درد ۔۔۔۔قوم کو غفلت کی نیند سے بیدارکرنے کی ہر ممکن کوشش نہیں دیکھی ہوگی۔۔۔مانا کہ آج قوم کو ایک بارپھر ایک اقبال کی ضرورت ہے۔۔۔جو اس قو م کو اسی مقام پر پہنچا دے جو مقام اس قوم کی منزل ہے۔۔۔۔لیکن کیا واقعی میں کسی اقبال کے آنے کی اشد ضرورت ہے۔۔۔کیا واقعی میںکسی اقبال کو آنا چاہیے۔۔۔۔سوچنے والی بات ہے۔۔۔حیرانگی والی بات ہے بلکہ دل چیردینے والی بات ہے۔۔۔۔کیونکہ آج اگر اس قوم کو کسی دوسرے اقبال کی ضرورت ہے ۔۔۔۔تو جلادو ،مٹادو۔۔۔۔کسی دریا میں بہادو۔۔۔سمندرکی موجوںکی نذرکردو۔۔۔ان تمام مجموعہ جات کو جو اقبال نے صرف اورصرف اس قوم کو اس کا جائز مقام دینے کے لئے لکھے تھے۔۔۔اگر اقبال کو شہر ت کی طلب ہوتی تو ان کی نظمیںشہرہ آفاق نہ کہلاتیں۔۔۔۔اقبال نے ہمیں کیا دیا۔۔۔اقبال کی کتابوںنے ہمیں کیا دیا۔۔۔

Books

Books

اقبال نے ۔۔اقبال کی کتابوں نے ہمیں ایک سوچ دی ہے اور وہ آپ کی ذکر کئی گئی دنیاوی چیزیں ہرگز نہیںدے سکتیں۔۔۔مگر افسوس آج قوم پھر سے ایک نئے اقبال ۔۔۔۔جدید دورکے اقبال کی منتظرہے۔۔۔۔کیا اقبال نے آج کے حالات ۔۔۔۔۔آنے والے وقتوںکے حالات۔۔۔کامیابی کے گُرنہیںسکھائے۔۔۔۔کیا جینے کاسلیقہ نہیں بتلایا۔۔۔۔کیا اپنی دنیا اورآخرت کارازنہیںبتایا ۔۔۔اگر بتایا ہے تو خدارااقبال کے مجموعہ جات کو فٹ پاتھوں سے اٹھا کر ائیرکنڈیشنز والی دکانوںمیں رکھوادیجیے۔۔۔۔نکال پھینکئے ان جوتیوں کو ۔۔۔جوتوںکو ۔۔۔جو اپنے سامنے گرمی ۔۔سردی۔۔۔خزاں۔۔۔طوفان۔۔۔بارش۔۔۔میں پڑی ان تمام کتابوں کامذاق اڑاتی ہیں۔۔۔

جن کے لکھنے میں اقبال نے دن رات ایک کردیے۔۔۔جن کے لکھنے کا مقصد صرف اورصر ف مسلمان قوم کو بیدارکرنا تھا۔۔۔لیکن جناب آپ ایسا کیونکر کریںگے ۔۔۔۔کیونکہ آپ قیمت دے سکتے ہیںمول نہیں۔۔۔۔ اورجس دن آپ مول دینے کے قابل ہوجائیںگے اس دن اقبال کے مجموعہ جات فٹ پاتھوںپر نہیں۔۔۔بلکہ کسی اچھی دکان کی کسی اچھی الماری میں پڑی صاف ستھری ملیںگی۔۔۔۔اورایسا بہت جلد ہوگا۔۔۔۔ کیونکہ اس قوم کو آج پھر سے کسی نئی سوچ کی اشد ضرورت ہے۔۔۔۔اوروہ سوچ اقبال کی کتابیں ہی بہتر طوردے سکتی ہیں۔۔۔اور کوئی نہیں۔۔۔اورکوئی نہیں۔۔۔