نام نہاد مسیحائی اور حکمران

White Collar People

White Collar People

تحریر : عقیل احمد خان لودھی
ہمارے ہاں عوام الناس جب بھی کسی مقام پر پھنس رہے ہوں تو ۔۔۔انہیں ہر جگہ سے مہذب معاشروں کی مثالیں دیکر قانون کی سزا کے علاوہ بات بات پر شرمندہ کیا جاتا، کوسنے دیئے جاتے ہیں۔ بات روڈ پر سفر کی ہو یا ہسپتال میں علاج کی اگر کوئی مار کھا رہا ہے تو وہ عام اور غریب آدمی ہے عام اور غریب آدمی سے میری یہاں مراد سفید پوش طبقہ ہے جس کا زندہ رہنا یہاں مشکل ہی نہیں مشکل ترین بنایا جارہا ہے۔ عزت نفس کے بچائو کی خاطر سو طرح کی تدبیریں بھی عہد حاضر میں چلتی نظر نہیں آتیں تو بڑھتی ہوئی مایوسیاں لوگوں کو خود کشیوں پر مائل کرتی ہیں۔ دھرتی ماں سے رگوں میں دوڑتی محبت کے باوجود آج کروڑوں پاکستانی اس وطن سے ہجرت کرجانے کو ہی زندہ رہنے کا باقی سامان سمجھتے ہیں۔ مگر کیا ہے کہ انہیں ایک طرف وسائل اجازت نہیں دیتے۔

دوسری جانب خونی رشتوں سے فطری محبت ایسا کرنے میں بڑی آڑ ہے۔ طبقاتی واضح تفریق نے معاشرتی اقدار کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا جانتی ہے اس میں آج ایک کام بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ عوام کی بات کی جائے تو ان کی رگ رگ میں کرپشن کا ناسور خون کی طرح رچ بس گیا ہے کرپٹ ترین افراد انکی نظروں میں دانشور، لیڈر، رہبر ہیں ۔ شاید کروڑوں پاکستانی کرپشن جیسی غلاظت کے چھینٹوں سے بھی بچنا چاہتے ہیں مگر انہیں بہر حال اس دلدل میں دھنسنے سے کوئی نہیں بچاسکتا کہ اس کے علاوہ ان کے پاس اپنی زندگی کے سفر کو آگے لیجانے کا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

Hospital

Hospital

دیگر شعبوں کو چھوڑ دیا جائے اور صرف ایک اہم ادارے (ہسپتال)جس کا براہ راست انسانی زندگیوں سے واسطہ ہے کی بات کی جائے تو آپ دیکھ لیں کہ برسوں وطن عزیز پر ترقی کے بلند وبانگ دعووں کیساتھ حاکمیت کرنے والے وزراء کتنی بے باکی اور بے شرمی سے اپنے علاج کیلئے پیارے وطن کے کسی ادارے کو اپنے علاج کیلئے موزوں نہیں سمجھتے معمولی سی بیماری کی صورت میں خزانہ سرکارسے لاکھوں کروڑوں خرچ کر کے بیرون وطن علاج کروانے جاتے ہیں جہاں ان کے مخصوص معالجین موجود رہتے ہیں ۔عوام کی محبت کا پل پل دم بھرنے والے حکمران ذاتی علاج کیلئے جب اپنے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملک بہتر علاج کیلئے جانے کی بات کرتے ہیں تو مہذب معاشرے کی روایات کے مطابق ایسے لیڈر جوتوں کے حقدار ہوتے ہیںکہ برسوں حکومت میں رہنے کے باوجود کیوںایسا کوئی ادارہ نہ بنواسکے جہاں سے مناسب علاج معالجے کا بندوبست کیا جاسکتا۔

مگر کیا ہے کہ ہمارے اس معاشرے میں کرپشن کیساتھ ساتھ خوشامدپرستانہ رویے نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے اخلاقی جرات کے حکمرانوں کے احتساب کی بات کرنے والوں کو اس انداز میں ہدف تنقید بنایا جاتا ہے کہ جیسے اپنا حق مانگ کر یا حکمرانوں کی جواب طلبی سے کوئی گناہ عظیم کررہا ہو۔ وطن عزیز کی بربادی کا رونا رونے والے غرباء بھی ایسے حکمرانوں کی حمایت میں ایسے ایسے دانشور بن کر سامنے آتے ہیں کہ رہے رب کی پناہ ۔۔وجہ کیا ہے صرف جہالت!۔ بحثیت ایک عام آدمی آپ کسی سرکاری ہسپتال بالخصوص پنجاب کے کسی ہسپتال میں جاکر دیکھیں آپ کو اندازہ ہوگا کہ مسیحا کے نام سے پہچان رکھنے والے ڈاکٹر ز ڈریکولایا فرعون کا روپ دھارے محض پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج معالجہ کے چکر میں ابلیس کے نمائندے بنے ہوئے ہیں۔ہسپتال شفاخانے یا تسکین کے نہیں بلکہ عزت نفس کا جنازہ نکال دینے کے مراکز ہیں۔ آپ اس وطن عزیز کے عوامی نمائندوں کو اپنے مسائل اور ہسپتالوں کی اس کرپشن بارے آگاہ کریں کوئی آپ کی شنوائی کیلئے تیار نہیں ہوگا ۔۔ہو بھی کیوں؟ کہ کرپشن کی اس بہتی گنگا میں سب ننگے ہیں اور ہر کوئی جی بھر کر اشنا ن کررہا ہے۔ اور پھر آپ کے عوامی نمائندوں کا ان ہسپتال سے کیا واسطہ؟۔ وہ تو یہاں سے علاج بھی نہیں کرواتے۔

Treatment

Treatment

چند گھنٹوں کی اڑان بھرتے ہیں اور وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں انسانیت کا احترام ہوتا ہے ناکہ آپ کی جیب کا۔۔۔ ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ برائے نام ہوتا ہے اگر آپ کے کسی پیارے کو ایسا کوئی مرض آن لاحق ہوا ہے کہ جس میں چھوٹی موٹی سرجری کی ضرورت ہے تو پھر ان نام نہاد مسیحائوں کی اوقات سامنے آجاتی ہے۔ہسپتالوں میں فری علاج معالجہ اور بہتری کے دعوے کرنے والوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیئے کہ یہاں شومئی قسمت سے داخل کرلئے جانے والے مریضوں کو درد سر کی عام گولی اور سرنج سے لیکر ہزاروں لاکھوں کی ادویات پرائیویٹ میڈیکل اسٹورز سے خریدنا پڑتی ہیں ۔ سرکاری ہسپتالوں میں فراہم کی جانے والی ادویات حکمرانوں کی طرح بدنیت ملازمین افسران کی معاونت سے پرائیویٹ اسٹورز پر فروخت کرجاتے ہیں۔ مثالیں سب کے سامنے ہیں ابھی دو روز میں لاکھوں،کروڑوں کی سرکاری ادویات سرگودھا سے پکڑی گئی ہیں۔

احترام آدمیت، احترام انسانیت کوروندنے والے بھیڑیا صفت نام نہاد مسیحائوں کے حرص کے سامنے میں نے اپنی آنکھوں سے انسانیت کی بے بسی دیکھی ہے آپ صوبائی دارالحکومت کے سروسز ہسپتال جیسے مشہور ادارے میں چلے جائیں گوجرانوالہ یا عزیز بھٹی شہید جیسے گجرات کے سرکاری ہسپتال میں ہر جگہ آپ کو ایک ہی داستان ملے گی سرکاری ہسپتال آپ کو موت کے پروانے جاری کرنے کے سینٹر ملیںگے ۔سرجنزاور ڈاکٹروں کے رویوں میں فرعونیت چھلکتی دکھائی دے گی جبکہ انہی ڈاکٹروں کے پرائیویٹ کلینکوں پر آپ کوماں کی ممتا سے زیادہ محبت کا ماحول ملے گا بس فرق یہ ہے کہ روپوں کی تھیلیوں کا منہ کھول دیا جائے ۔لعنت ہے ان نام نہاد مسیحائوں اور عوامی رہنمائوں پر جو اپنے حال میں مست رہ کر انسانوں کی بے بسی اور بدحالی پر اپنے گھروں کے چراغ روشن رکھتے ہیں جن کے نزدیک روز آخرت کی جوابدہی کا بھی کوئی خوف باقی نہیں۔اﷲ انہیں ہدایت دے اگر ہدایت ان کے مقدر میں نہیں تو انہیں ان کی نسلوں کے سامنے دنیا میں بھی عبرت کا نشان بنادے آمین۔۔!

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

تحریر : عقیل احمد خان لودھی