تمہارے بعد اس دل کا کھنڈر اچھا نہیں لگتا
تمام عمر تڑپتے رہیں کسی کے لیے
تجھے بھلا کے جیوں ایسی بددعا بھی نہ دے
نہ خط لکھوں نہ زبانی کلام تجھ سے رہے
مجھے کوئی شام ادھار دو
معلوم نہ تھا ہم کو ستائے گا بہت وہ
میرے خط مجھے واپس کر دو
لو، خدا حافظ تمہیں کہنے کی ساعت آ گئی
لب پہ نہ لائے دل کی کوئی بات اُسے سمجھا دینا
ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں کہانی میری
بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی
کاش میری کوئی بیٹی ہوتی
بند دریچے سونی گلیاں ان دیکھے انجانے لوگ
بالآخر یہ حسیں منظر مٹا دینا ہی پڑتا ہے
رات کچھ یارِ طرحدار بہت یاد آئے
اک بار مجھے آواز تو دے
آنے والی تھی خزاں، میدان خالی کر دیا
عجب حالات تھے میرے عجب دن رات تھے میرے
اگر ملنا ضروری ہے
اب آنے والی ہے فصلِ بہار، سوچتے تھے