وہ کانچ جیسے بدن کی گرمی
حوصلہ جب بھی اسکا بکھر گیا ہو گا
اپنی تنہائی کے قصے ہیں
محبتیں اور فاصلے
ہے ساتھ سدا رہتی تنہائی گلیوں میں
چپ رہنا عادت ہے
دل لگانا نہ دل لگی کرنا
ریت اور ہاتھ
وفا کو ڈھونڈنے نکلو، تو مجھ کو پائو گے
رات کے رنگ
شہرِدلِ سنسان سے کوئی گزرے تو پتہ ہو
ہوا کے ہاتھ ایک پیغام
ایک دُعا
جب میری آنکھ سے ٹوٹا ہوا تارہ دیکھا
ابھی کچھ دن لگیں لگے
پہلی محبت کے لیے آخری نظم
ہجر راتوں کے زمانے آئے