ایک لڑکا
جھلسی سی اک بستی میں
کچھ کہنے کا وقت نہیں
یہ جھوٹی باتیں ہیں
ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا
اے دل والو گھر سے نکلو
فرض کرو
دل عشق میں بے پایاں
دیکھ ہماری دید کے کارن
چھپ چھپ ان کے گھر میں آتے جاتے ہو
کل چودہویں کی رات تھی
کل ہم نے سپنا دیکھا ہے
اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
اس بستی کے اک کوچے میں
دوستو فرصت دلداری دنیا بھی کہاں
اب آن ملو تو بہتر ہو
دیکھ بیت المقدس کی پرچھائیاں
دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشتِ طلب کی دھول میاں
دروازہ کھلا رکھنا
بستی میں دیوانے آئے
اک بار کہو تم میری ہو
لب پر نام کسی کا بھی ہو……
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کا لگانا کیا
ابن انشا