اک روز کوئی تو سوچے گا
ستمبر کی یاد میں
رات کے دوسرے کنارے پر
ایک رات کی کہانی
بارہواں کھلاڑی
وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا
سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
جہاں بھی رہنا یہی اک خیال رکھنا
قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تہے
کھوئے  ہوئے  اک موسم کی یاد میں
مرے خدا مرے لفظ وبیاںمیں ظاہر ہو
گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا
ہم اہلِ جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں