جشن مگر کیسا

14th August Azadi Celeberation

14th August Azadi Celeberation

تحریر : عاصم ایاز چوہدری
عجیب اتفاق یہ ہے کہ میری قوم کو 14 اگست کے موقع پر یاد آتا ہے کہ وہ ایک قوم ہے اور رمضان کے مہینے میں یاد آتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں
یہ سوچ ہمیں کہاں سے ملی، یقینا ورثے میں تو ملی نہیں میری قوم کا حافظ نجانے کیوں اتنا کمزور ہے کہ یہ ہر سال بھول جاتی ہے کہ یوم آزادی پہ جشن نہیں منانا بلکہ پاکستان کو بنانے والوں کی یاد تازہ کرنی ہے، تازہ کرنی کیا ہے ہمیشہ تازہ ہی رکھنی ہے۔

ان کی یاد جو انبالہ سے لاہور کی جانب چلے جو امبرسر سے چلے جو گورداسپور سے نکلے جو ہوشیار پور سے نکلے ان کی یاد جو جالندھر سے روانہ ہوئے جو کپور تھلہ سے روانہ ہوئے نکلے چلے تو سبھی روانہ ہوئے تو سبھی لیکن پاکستان کبھی نہ پہنچ پائے چھت پر تیز ہوا چل رہی ہے مغرب کی بلند ہوتی آذانوں کی آواز دور دور سے آرہی ہیں میرے سامنے دور ایک گھر کی چھت پر چند ننھے منھے بچے اپنے چاچو کے ہمراہ سبز ہلالی پرچم نصب کرنے چڑھے ہوئے ہیں کسی کے ہاتھ میں ہتھوڑی ہے تو کسی کے ہاتھ میں میخیں ایک بچہ سبز ہلالی پرچم کو اونچا اُڑا رہا ہے باقی اسے دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں چاچو پرچم کی تنصیب کے لیے مناسب زاویہ تلاش کر رہا ہے اور میری سوچیں بے ترتیب بکھری ہوئی ہیں میرا ذہن ان کی فکر میں محو ہے جو چلے تو پاکستان کےلئے تھے لیکن کبھی پاکستان پہنچ نہ پائے۔

سبز ہلالی پرچم کے دیس کی آرزو دلوں میں لیے کتنے وہ بچے تھے کتنے وہ بوڑھے تھے کتنی وہ عورتیں تھیں اور کتنے وہ گبھرو جوان تھے۔ لیکن ان میں سے کتنے تھے جو پاکستان کی دہلیز پہ پہنچ کر سجدہ ریز ہو سکے تھے ان میں سے جو کسی نہ کسی طرح جان بچا کر پاکستان آن پہنچے تھے ان میں سے چند ایک کا مجھے گذشتہ سال انٹرویو کرنے کا موقع ملا انٹرویو کیا تھا زخموں کی پوٹلی تھی دکھوں کی گٹھڑیاں تھیں شق کلیجوں کی داستانوں تھیں جس سننے کا کم از کم مجھ ایسے کم حوصلہ میں حوصلہ نہ تھا۔

شیخوپورہ کے ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر کے پاس جو پہنچے تو لرزتی ٹانگوں کانپتے ہاتھوں اور نمناک آنکھوں سے وہ ہم سے گویا ہوئے پُتر کی پُچّھنا اے؟ اِک درد تھا جو ایک دم سے سمٹ کر ان کی زبان پر آن جمع ہوا تھا مجھے ایک لمحے جواحساس ہوا کہ شاید مجھے ان سے یہ غم کے لمحات کی کہانی سنانے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے تھا کہ وہ گویا ہوئے اور اپنی کہانی سنانے لگے بیٹا ہم امبرسر کے رہنے والے تھے میں نے امرتسر سن رکھا تھا امبرسر سننا میرے لیے نیا تھا وہ کہنے لگے بیٹا امرتسر کر اصل رہائشی ہمیشہ امبرسر بولیں گے۔

پھر انہوں نے سکھوں کے مظالم کی داستاں سنانا جو شروع کی تو مجھے احساس ہوا کہ ہماری نوجوان نسل کی تربیت جن خطوط پہ کس جا رہی ہے اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو کچھ بعید نہیں کہ اگلے چند سالوں بعد یہ نسل قیام پاکستان کے مقاصد کو فراموش کر بیٹھے گی۔
نہروں کا مقتول مسلمانوں کی لاشوں سے اٹ جانا کھیتوں کا لاشوں سے پٹ جانا باغات میں درختوں کی شاخوں کے ساتھ مسلمان عورتوں کے سروں کو کاٹ کر لٹکانا یہ سب وہ مناظر تھے جو *سر لال دین* کو آج بھی یوں یاد تھے گویا ابھی کل ہی کی بات ہو ان کی باتوں میں درد تھا تو اس حوالے سے کہ طلبہ کے نصاب میں قیام پاکستان کے مقاصد کو شامل نہ کرکے جانیں قربان کرنے والوں کے ساتھ غداری کی گئی ہے۔

ہم ننکانہ پہنچے یہاں تین بزرگوں سے ملاقات ہوئی کسی نے فیروز پور سے روانہ ہونے کی داستاں سنائی تو کسی نے ہوشیار پور سے لیکن مظالم کی داستاں وہی تھیں جن میں کسی طور کمی نہ آرہی تھی وہ بتانے لگے کیسے سکھوں کے جتھے غول بن کر آتے اور ہمارے سامنے ہمارے بچوں کو ہوا میں اچھال کر نیزے کی انّیوں میں پرو دیتے اور ہماری لڑکیوں کو ہمارے سامنے اغواء کرکے لےجاتے ہم بے بس تھے لاچار تھے کچھ کر بھی نہ سکتے تھے۔

اس موقع پر مجھے ہندوستانی پراپیگینڈا فلم *بجرنگی بھائی جان* یاد آئی جس میں انڈیا نے ثابت کرنا چاہا ہے کہ کیسے ایک ہندوستانی نوجوان اپنی جان پر کھیل کر ایک گمشدہ پاکستانی بچہ کو واپس اس کے دیس پہنچایا اور میرے ہم وطن ان پروپیگینڈا فلموں سے متاثر ہوکر انڈیا کو اپنا بہت بڑا ہمدرد سمجھ بیٹھے ہیں کیونکہ ان تک قیام پاکستان کے وقت کی مظالم پہ مشتمل داستانیں نہیں پہنچی ہیں میں سوچنے پہ مجبور تھا کہ کیا ظلم کرنے والے انساں نہ تھے؟ یا ان کے پہلو میں دل نہ تھے ؟ یا وہ انسانیت سے عاری تھے۔

اس کے بعد ہم فیصل آباد پہنچے یہاں میرے ماموں رہائش پذیر ہیں ان سے سلام دعا ہوئی اور ہم نے اپنے آنے کا مقصد بتایا وہ ایک دم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورنے لگے 80 سال کے نحیف جسم میں اس قدر چستی دیکھ کر میں دنگ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

پوچھنے لگے ” تم سن پاؤ گے” میں نے جواب دیا کوشش کروں گا یہ بھی امبرسر کے رہائشی تھے انہوں نے تقریبا چودہ سال کی عمر میں ہجرت کی تھی اسی وجہ سے ان کو سب کچھ آج بھی درست طرح سے یاد ہے کہنے لگے ہم نے نئے مکان بنوائے تھے میرا چھوٹا بھائی جو اس وقت چند سال کا تھا نئے مکانات کی خوشی سے سرشار تھا لیکن ہجرت کرتے وقت ہم اسے کبھی کہیں چھپا لیتے تو کبھی کہیں یہ بہت روتا تھا کہ ہائے ہمارے نئے مکانات ،ان میں کون رہے گا ؟ اور اس کے اسی رونے سے ہمیں کھٹکا لگا رہتا کہ مبادا کوئی ظالم ادھر نہ آنکلے۔

ماموں صادق کو آج بھی ڈاکخانے، گاؤں اور کمشنری کا نام سب ازبر ہے اور میز پر انگلی کے ساتھ اپنے گاؤں اور آس پاس کے علاقے کا نقشہ بناتے جاتے اس ایک انٹرویو میں انہوں نے کئی بار اپنے گاؤں واپس جانے کی خواہش ظاہر کی کہتے کاش میں اپنی زندگی میں ایک بار دوبارہ اپنے اُس گھر جا سکوں اپنی زمینیں دیکھ سکوں اپنے فلاں فلاں دوست سے مل سکوں (ان کی کہانی زیادہ دکھی ہے) ہم واپس شیخوپورہ لوٹے یہاں ہمیں تین ایسے بزرگوں کا انٹرویو ریکارڈ کرنا تھا جو اپنے ہوش میں ہجرت کرکے پاکستان پہنچے لدھیانہ سے آنے والے بابا جی نے سکھوں کے مظالم بیان کرکے ہمیں گویا رُلا ہی دیا آج نئی نسل پوچھتی ہے کہ پاکستان آزاد ہوا تھا یا تقسیم ؟ اور اسی طرح کے اُوٹ پٹانگ سوالات اور اشکالات چھوڑ کر نہ صرف خود کنفیوز ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اے کاش ہمارے نظام تعلیم میں دو قومی نظریہ پڑھایا جائے تو میری قوم کے نونہالوں کو معلوم ہو کہ کتنی جانیں قربان ہوئیں اس وطن کے حصول کی خاطر اور اس وطن کے حصول کا مقصد صرف زمیں کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ یہاں مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزارنا بھی ایک مقصد تھا صرف سال کے مخصوص دن کی آمد پر جشن منانا ہر گز نہیں اور آج ماروی سرمد جیسی جدید تعلیم یافتہ جاہل سرعام کہتی پھرتی ہیں کہ تحریک پاکستان ایک جنگ تھی غیر مسلموں کے خلاف پھر دو قومی نظریہ پر انگلی اٹھاتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر پاکستان اس بنیاد پر بنا تھا تو یہ ایک اعلان جنگ ہے غیر مسلموں بالخصوص ہندوؤں کے خلاف۔ کوئی اسے بتائے کہ بیٹا جب تم پیدا بھی نہیں ہوئیں تھیں تب ہندوؤں نے جو ظلم کیا تھا تم اس کی ایک ہلکی سی جھلک بھی برداشت نہیں کر سکتیں اس لئے بہتر ہے کہ ہندوؤں سے ہمدردی دکھانے کی بجائے قیام پاکستان کے وقت جانیں قربان والوں کی روحوں سے معذرت کرو ان سے معذرت کرو جو لدھیانہ سے چلے فیروز پور سے نکلے امبرسر سے روانہ ہوئے۔

ہوشیار پور اور جالندھر سے نکالے کئے گئے لیکن ہندوؤں اور سکھوں کے مظالم کے باعث کبھی پاکستان نہ پہنچ پائے میرے نزدیک آج کے استاد کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ طالب علم کو صرف اچھے نمبر حاصل کرنا ہی نہ سکھائے بلکہ پاکستان کی اساس پڑھائے دو قومی نظریہ سمجھائے اور پاکستان کا دفاع اس کے ذہن میں راسخ کرے کیونکہ اچھے نمبرز دفاع پاکستان کے ضامن نہیں ہوسکتے البتہ اچھی تربیت نہ صرف دفاع پاکستان کی ضامن ہو گی بلکہ دو قومی نظریے کی بقاء کی باعث بھی ہوگی۔

اور اگر اساتذہ اس میدان میں پیچھے رہ گئے جیسا کہ رہ چکے ہیں تو ماروی سرمد جیسوں کو آگے آنے کا موقع ملے گا جیسا کہ موقع مل چکا ہے اب دفاع صرف سرحدوں پہ فوجی نہیں کرے گا اب دفاع اساتذہ کو بھی کرنا پڑے گا تعلیمی محاذ پر ورنہ مذکورہ بالا مثال سے آپ سمجھ چکے ہیں کہ تعلیم کا میدان خالی چھوڑنے سے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

ASIM AYAZ

ASIM AYAZ

تحریر : عاصم ایاز چوہدری