قبرستان میں پکنک ۔ ۔ ۔ ۔! یونانی قبیلے کی قدیم انوکھی روایت

Greek

Greek

ایتھنز (جیوڈیسک) پکنک منانے کے لیے لوگ پُر فضا مقام کا انتخاب کرتے ہیں۔ سمندر کنارے واقع علاقوں کے لوگ اس مقصد کے لیے عام طور پر ساحل سمندر کا رخ کرتے ہیں مگر کیا کبھی آپ نے قبرستان کے اندر مُردوں کے درمیان بیٹھ کر پکنک منائی ہے ؟ یقیناً نہیں۔ قبرستان وہ مقام ہے جہاں لوگ اپنے پیاروں کو ایصال ثواب کرنے اور ایمان تازہ کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ قبروں کے درمیان بیٹھ کر کھانے پینے اور اہل خانہ کے ساتھ خوش گپیاں کرنے کا تصور ہی عجیب و غریب محسوس ہوتا ہے مگر بحیرۂ اسود کے کنارے واقع ایک گاؤں کے باسی باقاعدگی سے مردوں کے درمیان بیٹھ کر ضیافت اڑاتے ، خوش گپیوں اور کھیل کود میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

رزانا نامی اس گاؤں میں ایک یونانی قبیلے کے لوگ آباد ہیں جوپونتک کہلاتا ہے۔ ان کے آباء و اجداد 1914ء اور 1923ء کے بیچ بحیرۂ اسود کے کنارے آکر آباد ہوگئے تھے۔ ان کی بڑی تعداد یونان کے قتل عام کے دوران ترکوںکے ہاتھوں ماری گئی تھی جو باقی بچے انھیں آس پاس کے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ اسی دوران پونتک قبیلے کے بچے کچے لوگ بحیرۂ اسود کے کنارے آبسے تھے۔ اس قبیلے نے اپنی قدیم روایات کو زندہ رکھا جن میں قبرستان میں جاکر پکنک منانا بھی شامل ہے۔
ایسٹر کے بعد ہر سال اتوار کے روز (یہ اتوار سینٹ تھامس سنڈے بھی کہلاتا ہے) گاؤں کے بیشتر خاندان مضافاتی قبرستان کا رخ کرتے ہیں۔ کھانے پینے کا سامان اور میز کرسیاں بھی ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ قبرستان میں پہنچ کر یہ قبروں کی درمیانی جگہ میں میز کرسیاں لگاتے ہیں۔ ان پر دیدہ زیب میز پوش بچھاکر روایتی کھانے چنے جاتے ہیں۔ ساتھ میں شراب رکھی جاتی ہے۔ سب سے آخر میں میز کے وسط میں موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔ اس روز اپنے پیاروں کی یاد میں اشک بہانے اور آہ و زاری کرنے کی اجازت نہیں ہوتی کیوں کہ یہ دن مُردوں کی عزت و تکریم کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ خاندان کے لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں اور بچے قبروں کے درمیان کھیل کود میں مگن ہوجاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قبرستان میں جاکر پکنک منانے کی روایت کا آغاز ساڑھے آٹھ سو سال قبل مسیح میں، قدیم یونامی شاعر ہومر کے دور میں ہوا تھا۔

رزانا کے باسیوں کی باقاعدہ ایک تنظیم موجود ہے جس کا مقصد پونتک باشندوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنا ہے۔ اس تنظیم کے صدر استینانوس اوفلیدس کہتے ہیں کہ 1900ء کے عشرے میں پونتس اور سابق سوویت یونین ریاستوں سے ہزاروں یونانی پونتک بحیرہ اسود کے ساحلوں پر آبسے۔ اپنی دوسری روایات کی طرح انھوں نے اس روایت کو بھی زندہ رکھا۔ تاہم یوں لگتا ہے کہ آئندہ برسوں میں یہ روایت دم توڑ دے گی کیوںکہ قبرستان میں پکنک منانے کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد محدود ہوتی جارہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بہت سے پونتک روزگار کے سلسلے میں جرمنی اور دوسرے ممالک میں جابسے ہیں۔ ان کے لیے سینٹ تھامس سنڈے کو آبائی گاؤں پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ کئی لوگ تنگ دستی کی وجہ سے گاؤں آنے جانے کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ اب بہت کم لوگ اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔