مردم شماری اور بلوچستان

Census

Census

تحریر : عبد الغنی شہزاد
ملک میں مردم شماری کا اعلان ہوتے ہی بلوچستان کی بلوچ اور پشتون قوم پرست پارٹیوں کے تندوتیز بیانات نے ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کیا اس حوالے سے سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی سرگرمیوں سے بھی نفرت واضح طور پر محسوس ہوتی ہے . بلوچستان کا صوبہ پہلے ہی سے مختلف حوالوں سے زخم زخم ہے یہاں محبت واخوت اور بھائی چارے کی فضاء کی پہلے سے ذیادہ ضرورت ہے، بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کاسب سے بڑا صوبہ ہے اس کا رقبہ 347190مربع کلومیٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا 43.6فیصد حصہ بنتاہے . یہاں کی آبادی بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور ساتھ ہی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں، ہر شخص اپنے گھر کی آبادی کو اگر مد نظر رکھ کر سوچے تو ان کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا.مختلف ادوار میں کی گئی مردم شماری ملاحظہ کرے توآبادی بڑھنے کا اندازہ ہو سکے گا.ملک میں مردم شماری ہر 10 سال بعد ہوتی اس کا آغاز آزادی سے چارسال بعد 1951میں ہوئی تھی اس وقت بلوچستان کی آبادی 1167167تھی، دوسری مردم شماری 1961کو ہوئی اس وقت آبادی 1353484تھی، تیسری مردم شماری1972کوہوئی آبادی 2428678تھی ،چوتھی مردم شماری میں 1981کوہوئی آبادی 4332376تھی، آخربار 1991کوہوناتھی جو سیاست کی بھینٹ چڑھ کر 1998میں ہوئی اس وقت آبادی 6565885تھی،اس وقت بلوچستان کی بلوچ قوم پرست اور سیاسی شخصیات کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہاہے کہ افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کا انعقادقابل قبول نہیں اور بعض بلوچ رہنماؤں کا موقف ہے کہ تارکین وطن کے انخلاء تک مردم شماری موخر کی جائے جبکہ پشتون قوم پرست جو ماضی میں مردم شماری سے بائیکاٹ کرچکے،اب مردم شماری کی حمایت کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز نواب زادہ لشکری رئیسانی نے ساراوان ہاوس کوئٹہ میں بلوچستان کی سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور قبائلی عمائدین پر مشتمل جرگے کا انعقاد کیا جس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سر براہ سردار اختر جان مینگل، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی،نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے مرکزی نائب صدر سید احسان شاہ، جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے امیر مولانا عبدالقادر لونی، مسلم لیگ(ن) کے رہنماء رکن صوبائی اسمبلی میر عاصم کر د گیلو، نیشنل پارٹی حئی کے سر براہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، جماعت اسلامی کے سابق صوبائی امیر عبدالمتین اخونذادہ ،ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزار، سابق نگراں وزیراعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی، پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء بسم اللہ خان کاکڑ، سینیٹر نوابزادہ سیف اللہ مگسی، سابق صوبائی وزیر میر شاہنواز مری، جمہوری وطن پارٹی کے مرکزی رہنماء نوراللہ وطن دوست کے علاوہ دیگر سیاسی وقبائلی عمائدین بھی شریک ہوئے۔

حاجی لشکری رئیسانی نے جر گے کے اعلامیہ کو جاری کر تے ہوئے کہا کہ قومی یکجہتی جرگہ کا انعقاد انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے اس کے دورس مثبت نتائج برآمد ہونگے وقت اور حالات کی نزاکت کا تقاضہ ہے کہ اہل بلوچستان یکجہتی کا مظاہرہ کریں تاریخ بتاتی ہے کہ جن قوموں نےمشاورت سے قومی مسائل پر مشترکہ حکمت عملی بنا کر لائحہ عمل مرتب کیا تو وہ کامیاب وکامران ہوئے اور تاریخ کے اوراق میں انہیں گراں قدر الفاظ میں یاد کیا جا تا ہے18 فروری کو مردم شماری کے سلسلے میں قومی یکجہتی جر گہ میں ژوب سے لے کر گوادر تک سیاسی جماعتوں، بلوچ وپشتون، قبائلی عمائدین ودیگر برادری کی شرکت اس بات کی غمازی کر تا ہے کہ بلوچستان کے عوام اہم مسائل پر مشترکہ سوچ وفکر اور حکمت عملی پر بھر پور یقین رکھتے ہیں اور انہیں اپنی تاریخی ذمہ داری کا شدید احساس وادراک ہے یہ ایک نا قابل تردید تاریخ حقیقت ہے کہ پاکستان کثیر القومی، کثیر الثقافتی اور کثیر اللسانی وفاق ہے وفاق پاکستان کے دستوری ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریاست میں موجود قو میتوں کی شناخت اور ڈیمو گرافی کا تحفظ کرے اور کسی بھی ایسے عمل سے گریز کرے جس سے قومیتوں کی شناخت اور حیثیت کو خطرہ لاحق ہو گزشتہ تین دہائیوں سے غیر ملکی افراد کا پاکستان مسکن رہا ہے ان کے قیام سے سنگین سیاسی ، معاشرتی اور معاشی مسائل سے جنم لیا ہے اور پاکستان بالخصوص بلوچستان کے عوام مختلف حوالوں سے عدم تحفظ کی صورتحال سے گزررہے ہیں حالیہ مردم شماری میں قوی امکان ہے کہ غیر ملکی افراد کی شمولیت ہو گی ان کی نشا ند ہی نہیں کی گئی اور وہ حالیہ مردم شماری میں شامل کئے گئے تو بلوچستان کے مقامی بلوچ اور پشتون اور دیگر برادری کی ڈیمو گرافی میں تبدیلی وقوع پذیر ہو گی جرگہ مطالبہ کر تی ہے کہ غیر ملکی افراد کیلئے محکمہ شماریات وفاق اور دیگر متعلقہ ادارے ایسے اقدامات کریں تاکہ ان کی شمولیت کی روکا جا سکے۔

گزشتہ کئی عرصے سے بلوچستان کے کئی اضلاع میں مخدوش اور خراب امن وامان کی صورتحال کی وجہ سے کثیر تعداد میں لو گوں نے اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کر چکے ہیں ان کی شمولیت مردم شماری میں یقینی بنائی جائے اور ان کو واپس اپنے آبائی علاقوں دوبارہ بسانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گزشتہ خانہ شماری میں اساتذہ، پیرا میڈیکل اسٹاف دیگر ملازمین نے عدم تحفظ کی بناء پر بائیکاٹ کیا تھا بلوچستان میں دور دراز علاقوں میں عوام تک رسائی کیلئے اور ان کے نام مردم شماری میں شامل کر نے کے لئے وفاقی حکومت، محکمہ شماریات ودیگر ادارے متبادل حکمت عملی وضع کریں تاکہ ان اضلاع کے مقامی افراد کے اندراج کو یقینی بنایا جا سکے جرگہ یہ سمجھتی ہے کہ صاف وشفاف اور غیر متنازعہ مردم شماری کیلئے ضروری ہے کہ مردم شماری سے قبل وفاقی حکومت درج بالا تحفظات اور خدشات کا تدارک کرے اور ان کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں اگر مردم شماری سے قبل ارباب اقتدار واختیار نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا تو ممکنہ مردم شماری نہ صرف متنازعہ ہوگا بلکہ وفاق کیلئے ایک سنگین بحران پیدا کر نے کا سبب ہو گا جس کے انتہا ئی منفی اثرات مستقبل میں پیدا ہونگے اور اس کے ذمہ داری حکمران ہونگے جرگے سے جمعیت علماء اسلام کے رہنماء مولانا محمد خان شیرانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا اگر تمام مہاجرین کو مردم شماری میں شامل کردیاجائے تو ہمارے گھر سے کچھ نہیں جائے گا ان کا حصہ وفاق سے آئے گا منتشر آبادی کے باعث پسماندگان میں اضافہ ہوتا ہے جارہا ہے صحت اور تعلیم پر بجٹ کا تعین مردم شماری سے ہوگا اور یہ ایک آئینی تقاضہ ہے جسے متنازعہ نہیں بنانا چاہیئے ہم اگر آپس میں دست وگریبان ہوں گے تو فائدہ کوئی اور لے جائے گا.سابق وزیراعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ مردم شماری ثانوی مسئلہ ہے اصل مسئلہ وسائل پر دسترس کا ہے مردم شماری کے بارے میں ہمارا موقف ہے کہ تارکین وطن تک کے انخلاء تک مردم شماری موخرکی جائے۔

Sardar Akhtar Mengal

Sardar Akhtar Mengal

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سر براہ سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ مردم شماری سے کوئی انکار نہیں کر تا ہم شروع دن سے یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ غیر ملکیوں کا اندراج نہ کیا جائے اس وقت بھی قصور یہی تھا جس پر کچھ عناصر نے احتجاج کیا اگر اس حالت میں مردم شماری کرائی گئی تو یہ اجتماعی خودکشی ہو گی انہوں نے کہا کہ2005 سے صوبے میں پانچواں آپریشن کیا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ نقل مکانی کر گئے آواران میں انتخابات کے دوران 20 ہزار ووٹ کاسٹ ہو تے تھے2013 کے انتخابات میں صرف500 ووٹ کاسٹ ہوئے اور الیکشن کمیشن کے سامنے 25 ووٹ سامنے آئے جس پر ایم پی اے منتخب ہوا ڈپٹی اسپیکر بھی بنا اور قائمقام اسپیکر بھی بنا مردم شماری اور انتخابات میں فر ق ہو تا ہے سرکاری فورسز کی نگرانی میں ووٹ کاسٹ ہو تا ہے مردم شماری کا طریقہ کار انتخابات سے مختلف ہو تا ہے مردم شماری کے دوران گھر گھر جانا ہو تا ہےمردم شمار اور خانہ ہی نہیں جبکہ کسی علاقے میں مردم نہ ہو تو وہاں کیا مردم شماری ہو گی کچھ گھر آپ لو گوں نے گرائیں تو کچھ زلزلے سے گر گئے بلوچستان کے مختلف علاقوں کیچ، پنجگور، ڈیرہ بگٹی، قلات، بولان سمیت دیگر علاقوں سے چالیس فیصد آبادی نقل مکانی کر چکی ہے جو شورش ہے ان کا خاتمہ نہیں کیا جا تا شورش کا خاتمہ سیاسی طور پر ختم کرنا ہو گا جب سے بلوچستان میں شورش ہوئی ہے کسی نے سیاسی طور پر حل کر نے کی کوشش نہیں کی 4 سیٹیں ملنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلوچستان اور افغانستان کے قریبی تعلقات اور رشتے ہیں یہ رشتے چند وزارتوں اور ممبر شپ کے محتاج نہیں ہے جب بلوچستان میں حالات خراب تھے تو ہمارے اکابرین نے افغانستان میں پنا ہ لی ہم فخر کر تے ہیں بلوچ بھی مہا جر کی حیثیت افغانستان میں آباد ہے جب یہاں حالات بہتر ہوئے تو وہ واپس آئے بلوچستان سے افغانستان کی حالت قدرے بہتر ہے۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق 1978 میں مہا جرین کے آمد کا سلسلہ شروع ہوا پہلے21 ہزار مہا جرین بلوچستان میں آباد ہوئے یہ سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا 1 لاکھ 93 ہزار پھر3 لاکھ86 ہزار تک پہنچے ماہانہ 10 ہزار کے مہا جرین کا اضافہ ہو تا گیا دسمبر1980 میں14 لاکھ17 ہزار تک پہنچے پھر ماہانہ ایک لاکھ مہا جرین کا یہاں آنا شروع ہو گیا اور پھر یہ آبادی بڑھتی بڑھتی چالیس لاکھ تک پہنچ گئی انہوں نے کہا کہ دو برادر قومیں صدیوں سے آباد ہے جن کو کوئی بھی الگ نہیں کر سکتا کچھ عناصر اسمبلیوں کی سیٹوں میں اضافے کی خاطر اور اپنا اجاداری کو تقویت دینے کے لئے مردم شماری میں مہا جرین کا اندراج کر رہے ہیں اگر خدنخواستہ برادر اقوام کے درمیان تقسیم کا فیصلہ کیا گیا تو بیٹھ کر جرگے کے ذریعے فیصلہ کرینگے، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے مرکزی نائب صدر سید احسان شاہ نے کہا کہ جر گے نے مردم شماری کے حوالے سے جر گہ بلا کر قومی فریضہ ادا کیا پنڈال سے اعلامیہ جاری ہو تا ہے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے قراردادوں کی طرح جر گے کے اعلامیہ کو سرد خانے میں نہ ڈالا جائے بی این پی عوامی مردم شماری کی مخالف نہیں ملک میں مر دم شماری ہونی چاہئے ایسا نہ ہو کہ مردم شماری مزید مسائل پید کرے صوبے کا حق نہیں دیا جا رہا حکمران مردم شماری اپنے مرضی سے کر اتے ہیں کسی ایک مہاجر کے خلاف نہیں بلکہ جو بھی تارکین وطن ہے بی این پی عوامی ان کے خلاف ہے کچھ سیاسی جماعتیں اپنی ذاتی عناد کے لئے منفی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نقل مکانی کر نے والے لو گوں کو واپس بلایا جائے اور ان کو مردم شماری میں شامل کیا جائے بلوچستان کے مجموعی امن وامان کی صورتحال خراب ہے ایسے حالات میں مردم شماری کیسے ہو گی صوبائی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جو لوگ معائنہ کر نے گئے تھے ان کی لاشیں ملی اس حالت میں مردم شماری کیسے ممکن ہے جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے امیر مولانا عبدالقادر لونی نے کہا کہ بلوچستان امتحانات سے گزر رہا ہے اہل بلوچستان دن بدن مایو س ہو تے جا رہے ہیں ہمیں مایوسی کے سواکچھ نہیں ملا ہمارے وسائل ہم پر نہیں بلکہ کسی اور پر خرچ ہو رہے ہیں مردم شماری اہم ایشو ہے پشتون وبلوچ کا تنازعہ نہیں ہو نا چا ہئے 98 میں مردم شماری سے بائیکاٹ کی وجہ سے جو نقصان اٹھا رہے ہیں وہ آج بھی پورا نہیں ہوا یہ نہ سوچ لیں کہ مردم شماری کا بائیکاٹ کریں غیر ملکیوں کومردم شماری سے دور کیا جائے اپنے مفادات میں کسی بھی غیر ملکی کو شریک نہیں کرینگے سب سے زیادہ نقصان پشتونوں کا ہو رہا ہے سی پیک ، سیندک اور ریکوڈک جیسے منصوبوں پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا رکن صوبائی اسمبلی میر عاصم کر د گیلو نے کہا کہ بلوچستان میں مردم شماری سے کوئی انکار نہیں کر رہے۔

Afghan Refugees

Afghan Refugees

تا ہم چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو فوری طور پر وطن واپس بھیجا جائے 19 سال سے مردم شماری نہیں ہوئی تو ایک دوسال مزید مردم شماری کو ملتوی کر کے انتظار کیا جائے جن لو گوں نے مردم شماری کا بائیکاٹ کیا گیا اس کانقصان ہمیں اٹھانا پڑ ھ رہا ہے نیشنل پارٹی (حئی) گروپ کے سربراہ اور بلوچ قوم پرست ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے کہا کہ ملک اور خاص طور پربلوچستان میں غیر جمہوری قوتوں کا مسلط کر دہ نظام یہاں کے عوام پر مسلط ہے ہم کل بھی اختیار تھے اور آج بھی بے اختیار تھے وفاق کا صرف نام ہے یہاں جمہوریت بھی برائے نام ہے جو اسمبلیاں وجود رکھتی ہے وہ بھی بے اختیار ہے بلوچ عوام کو کسی بھی صورت اقلیت میں تبدیل نہیں ہونے دینگے وفاق آج بھی ہمارے وسائل پر قابض ہے،افغان مہا جرین کو چالیس سے برداشت کیا اب ان کو واپس وطن جانا چا ہئے جماعت اسلامی کے سابق صوبائی امیر عبدالمتین اخونزادہ نے کہا کہ سیاست کیو ں خوف میں مبتلا ہو تا ہے معاشرے میں بالادست لوگ ہے وہ سارے معاملات کو چلاتے ہیں ہم کیسے جمہوری لو گ کہ مردم شماری پر کیو ں اتفاق نہیں ہو تا سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات میں لیکن اختیارات نہیں دیئے مردم شماری کو اچھے ماحول میں ہونی چاہئے ماضی میں ایک قوم پرست جماعت نے بائیکاٹ کر کے صوبے کے عوام نے جو نقصان اٹھایا وہ ہمارے لئے قابل افسوس ہے ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ جس سر زمین پر آباد ہے۔ دنیا کی نظریں بلوچستان پر لگی ہوئی ہیں۔

غیر ملکی کمپنیاں یہاں سر مایہ کاری کر نے کے حق میں سویت یونین کو گرم پانی کے لئے مختلف راستے تلاش کر رہے ہیں سی پیک پر بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا دوریوں کو ختم کر نا ہو گا مردم شماری پر جو خدشات وتحفظات ہے ان کو دور کر نا چا ہئے دنیا نے ترقی کر لی ہم اب بھی مایوسی کے عالم میں ہے سابق نگران وزیراعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی نے کہا کہ ہمارے رسم رواج ایک جیسے ہیں اور صدیوں سے آباد ہے مردم شماری پر جو تحفظات ہے اس تحفظات کو ختم کر نا ہو گا بلوچستان کو1970 میں شناخت ملا کس طریقے سے آئے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا باہر کے دشمنوں نے ہمیں آپس میں دست وگریباں کیا تمام حالات اور واقعات کو مد نظر رکھ سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

اس سلسلے میں بلوچستان کی تمام اسٹیک ہولڈرز سے گزارش ہے کہ اس مسئلے کو انا کا نہ بنائے ماضی میں افغان مہاجرین کے ہوتے ہوئے بلوچ قوم پرست اس وقت اقتدار میں تھے مردم شماری کی حمایت کی تھی پشتون قوم پرست نے مخالفت کی تھی آج پشتون قوم پرست اقتدار میں ہیں حمایت جبکہ بلوچ مخالفت کررہے ہیں .خدا را بلوچستان پر رحم کرے صرف جذباتی نعروں کے ذریعے آئندہ انتخابات کی تیاری کیلئے بلوچستان کے عوام کو نقصان نہ پہنچائیں اس جرگے میں پختونخواہ میپ وزارتوں کے محسورکن ماحول سے نکل کرضرور شرکت کرکےدلیل کے ساتھ موقف پیش کرنا چاہیئے تھا اس سلسلے میں مردم شماری کے عمل شروع ہونے سے قبل تمام سیاسی پارٹیاں باہم بیٹھ کر تحفظات کو ختم کرنا ہوگا۔

Abdul Ghani Shahzad

Abdul Ghani Shahzad

تحریر : عبد الغنی شہزاد