سکھ، مردم شماری اور دیگر

Census

Census

تحریر : پون سنگھ اروڑہ
پاکستان ایک آزاد ملک ہے جس میں تمام مذاہب کے لوگوں کو برابر کے حقوق دینے کا وعدہ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے 11 اگست 1947 کے خطاب میں کیا۔ حکومت پاکستان وقت اور ضرورت کے مطابق عوام کو سہولیات کی فراہمی کے لئے کوشاں رہی ہے جبکہ بلاشبہ عوام کے مسائل سمجھنے کے لیے ان کی تعداد کا علم ہونا بے حد ضروری ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی جہاں وسائل کی کمی کا باعث ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ وہاں پاکستان میں دو مرتبہ منسوخ ہونے والی مردم شماری کے رواں سال مکمل ہونے پر آبادی کی بے حد بڑھ چکی تعداد کے اعداد وشمار کا بم پھٹنے کا خطرہ بھی سر پر سوار ہے۔
چھٹی خانہ و مردم شماری کا سلسلہ جاری و ساری ہے جس کے لئے مختلف حلقوں میں خصوصی مہم چلائی جا رہی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کچی پنسل سے فارم نہ بھرا جائے، اپنی مادری زبان کی درست نشاندہی کی جائے اور اپنے کوائف کے درست اور لازمی اندراج کو یقینی بنائیں۔ بحثیت پاکستانی یہ ہم سب کا فرض بھی ہے اور ہم سب پر لاگو بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی اصل پہچان کی نشاندہی کر کے مردم شماری کو کامیاب بنائیں۔

اپنی پہچان پر کس کو فخر نہیں ہوتا ، ایک اندازے کے مطابق کروڑوں کی آبادی والے ہمارے ملک میں 5 لاکھ کے قریب خواجہ سراؤں کو مردم شماری کے دوران مرد یا عورت کے خانہ میں اندراج کی قید سے آزاد کر کے اپنی الگ پہچان واضع کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اس مردم شماری کے بعد خواجہ سراؤں کی صحیح تعداد سامنے آ جائے گی اور ان کے حقوق پر نہ صرف تفصیل سے بات ہو سکے گی جبکہ ضرورت کے مطابق پالیسیاں بھی مرتب کی جا سکیں گی۔ لیکن پاکستانی سکھ کیونکہ گنتی میں نہیں آنے والے تو پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انکی فلاح وبہبود کے لئے کونسے پیمانے استعمال ہوں گے۔گذشتہ روز مقامی ایف ایم ریڈیو پرایک اشتہار نشر ہوا ، جس میں کہا گیا کہ” جب جانیں گے کہ کتنے ہیں تو پتا چلے گا کہ ضرورتیں کیا ہیں”۔ اسکا مطلب سکھوں کی اصل گنتی سامنے نہ آنے کے کئی نقصان ہو سکتے ہیں یہ اشتہار سنتے ہوئے ایک خیال سینے میں کھرُدرے خنجر کی طرح اتر گیا کہ جب سکھوں کی گنتی ہی نہ ہوئی تو وہ آخر کس گنتی میں آئیں گے۔

پاکستان میں پڑھے لکھے سکھ مرد و خواتین چنندہ لیکن اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور بین القوامی سطح پر پاکستان کی بڑے فخر سے نمائند گی کرتے نظر آتے ہیں علاوہ ازیں دنیا بھر میں بسنے والے سکھ جب پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو بے جھجک کہتے ہیں کہ پاکستان سے عزت اور پیار ملا۔ لیکن پاکستانی سکھوں کی دل آزاری تب ہوئی جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپکی پہچان کیا ہے پاکستان یا ”دیگر۔۔” اس خطے میں بسنے والے زیادہ ترسکھ تو تقسیم ہند کے وقت دربدر ہو گئے بھارت میں رہنے والوں کو آج تک الگ پہچان نہ مل سکی جبکہ چند ہی سکھ ہجرت کر کے بھارت جانے کے حق میں نہ تھے لہذا فخر سے پاکستانی بنے۔ لیکن پاکستان سکھوں کے لئے صرف اتنا ہی اہم نہیں بلکہ یہ وہ ملک ہے جہاں سے سکھ مذہب کی تاریخ کے پہلا ورق شروع ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں سکھوں کو یہاں نمائندگی بھی ملی اور آزادی بھی یہی وجہ ہے کہ 1998 کی مردم شماری کے اعدادوشمار والے تقریبا 18 ہزار سکھوں کی تعداد اب پہلے سے بہت زیادہ ہے لیکن کتنی یہ ہم نہیں جان سکیں گے۔

پاکستان میں بسنے والے سکھوں کی ضروریات مردم شماری کے فارم میں الگ خانہ بنانے سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ پاکستان میں مردم شماری عموماُ 10 سال بعد کی جاتی ہے جو کہ موجودہ حالات میں 2 مرتبہ ملتوی ہونے کے بعد 19 سال بعد ہونے جا رہی ہے ۔اس کی بنیاد پر ووٹر لسٹوں کو مرتب کیا جاتا ہے، پاکستانی ہونے کی شناخت ہوتی ہے، صوبائی اور قومی اسمبلی میں نمائندگی ملتی ہے اور تعلیمی، سیاسی، مذہبی، سماجی اور معاشی میدانوں میں حکومت سے مراعات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

گزشتہ مردم شماری میں مذاہب کی بنیاد پر بنائے گئے گراف بتاتے ہیں کہ “دیگر” کی تعداد پنجاب میں 48794 تھی جس میںسکھوں کے علاوہ کم گنتی والے دوسرے تمام مذاہب بھی شامل ہیں۔ ممبر صوبائی اسمبلی رمیش سنگھ اروڑہ نے مردم شماری مہم کو کامیاب بنانے کے لیے قبائلی اور افغانی علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے سکھوں کے شناختی کارڈ کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کو یقینی قرار دیتے ہوئے حالیہ مردم شماری کے دوران درست اور منتخب خانے میں اندراج کا مُدعہ بھی حکومت کے سامنے بھی رکھا ہے ان کا کہنا ہے سکھ قوم کا کوئی بھی فرد حکومتی کاروائی اور ملکی فلاح وبہبود کے معاملات میں خلل ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور مردم شماری کے معاملہ میں چونکہ سکھ مذہب کے الگ خانے کا مؤقف مرحلہ شروع ہونے کے بعد سامنے آیا ہے لہذا اس کا بہترین اور جمہوری حل نکالنے کی تجویز مرکز میں بھی پیش کی گئی ہے تا کہ سکھوں سمیت دیگر اقلیتوں کے حقوق کو بھی یقینی بنایا جا سکے جبکہ ایک موقف یہ بھی سامنے آیا ہے کہ حالیہ مہم میں استعمال ہونے والے فارم 2007 میں چھاپے گئے تھے جو اس وقت کے اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے بنائے گئے تھے اور اب جاری مہم میں فارم تبدیل کرنا یاعمل کو روکنا کسی صورت بھی ملک و قوم کے حق میں نہیں ہوگا بلکہ ایسا کرنے سے معاشی اور انتطامی حوالے سے پریشان کن صورتحال پیش آسکتی ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بہترین حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے پاکستان میں بسنے والے سکھوں کی واضع پہچان کو سامنے رکھ کر اعدادوشمار کے اس مرحلے کو بخوبی سرانجام دیا جائے تاکہ کسی کے حقوق متاثر ہوں نہ ہی کسی کی دل ازاری ہو اور پاکستانی سکھ فخر سے مردم شماری کے مرحلے میں شرکت کرسکیں۔کیونکہ اگر درستگی یا سدھار کا فیصلہ کر لیا جائے تو کبھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوتی بصورت ِ دیگر ‘دیر آئے درست آئے ‘ کا پہلو بھی توساتھ دے ہی سکتا ہے ، ضرورت صرف ایک اچھی حکمت عملی اور بروقت فیصلہ کی ہے۔

Pawan Singh

Pawan Singh

تحریر : پون سنگھ اروڑہ