چیئرمین سینٹ کی ناراضگی

Mian Raza Rabbani

Mian Raza Rabbani

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
یوں تو چیئرمین سینٹ میاں رضار بانی اکثر ناراض ہی رہتے ہیں لیکن اب کی بار ایسے ناراض ہوئے کہ سبھی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ بھری محفل (سینٹ) سے احتجاجاََ اُٹھ کر چلے گئے، اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے منسوخ کر دیا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا ، وہ جا ۔ اُن کی ناراضی کا سبب نون لیگ کے غیرحاضر وزراء بنے جو کام کرتے کرتے اتنے تھک بلکہ ”ہَپھ” جاتے ہیں کہ پھر اُن کی پارلیمنٹ اور سینٹ کے اجلاسوں میں جانے کی ہمت ہی نہیں رہتی۔ ویسے بھی آجکل وہ اگلے الیکشن کی تیاریوں میں ہیں ، مقابلہ تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی سے، جن کے تڑپتے حملوں کا جواب ، پھڑکتے جملوں سے دینا اُن کا فرضِ عین ، باقی سب جائے بھاڑ میں ۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے میاں رضاربانی کو منانے کے لیے اُن کے پیچھے ”دُڑکی” تو بہت لگائی لیکن بات بنی نہیں۔ چیئرمین صاحب نے دوٹوک کہہ دیا کہ اب وہ چیئرمین نہیں اور استعفے کے لیے تیار ہیں۔

اُنہوں نے سینٹ سیکرٹریٹ کو سرکاری فائلیں نہ لانے کی ہدایت کر دی ، پروٹوکول واپس اور دورۂ ایران منسوخ کر دیا اور یہ کہا ”اگر ایوان کا وقار برقرار نہیں رکھ سکتا تو عہدے پر بیٹھنے کا حق نہیں” ۔ چیئرمین صاحب کے اِس اقدام کی ،اے این پی اور ایم کیو ایم ہی نہیں ، نون لیگ نے بھی حمایت کی ۔ یہی نہیں بلکہ نون لیگ کے سینیٹرنثار محمد نے رضاربانی سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے استعفےٰ بھی دے دیا ۔ کئی اور سینیٹر بھی استعفے دینے کو تیار بیٹھے ہیں ۔ گویا دوسری جماعتوں کو یہاں بھی سیاست جھاڑنے کا شغل ہاتھ آ گیا ۔ اے این پی کے شاہی سیّد اور زاہد خاں نے کہاکہ پارلیمانی جمہوری حکومت عوام کو جواب دہ ہوتی ہے لیکن نوازلیگ کو تو جمہوری رویے کا پتہ ہی نہیں ۔ ایم کیو ایم کے طاہر مشہدی نے کہا کہ وزراء کرپشن میں لگے ہوئے ہیں ، اُن کے پاس ٹائم نہیں ۔ قائدِ ایوان راجہ ظفرالحق ، میاں رضاربانی کے کام چھوڑنے پر متحرک ہو گئے ۔ اُنہوں نے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو فون کرکے کہا کہ یہ معاملہ وزیرِاعظم کے نوٹس میں لایا جائے۔

ہوا یوں کہ جمعے کے روز میاں رضاربانی وزراء کی عدم موجودگی اور حکومت کی طرف سے جواب نہ ملنے پر بَرہم ہو گئے ۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت سینیٹ کو اہمیت نہیں دیتی جو سینیٹ کو آئینی کردار سے محروم کرنے کے مترادف ہے ۔ اگر وہ ایوان کا تقدس برقرار نہیں رکھ سکتے تو اُنہیں سیٹ پر بیٹھنے کا حق نہیں ۔ میاں رضاربانی بعض سوالات کے جوابات کے نہ آنے اور بعض وزارتوں کی طرف سے دوسری وزارتوں کو بھیجے جانے والے سوالات قبول نہ کیے جانے پر شدید بَرہم ہوگئے ، جو اُن کا حق تھا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ اور سینیٹ اتنے ہی بیکار ایوان ہیں تو پھر اِنہیں بند ہی کردینا چاہیے ۔ اِن پر کروڑوں ، اربوں روپیہ صرف کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ وزیرِاعظم صاحب پارلیمنٹ اور سینیٹ میں کبھی کبھار اپنے رُخِ روشن کا دیدار کرواتے ہیں اور اُن کی دیکھادیکھی خادمِ اعلیٰ بھی پنجاب اسمبلی میں کبھی کبھی تشریف لاتے ہیں ۔یاد آیا کہ ایک دفعہ نوشیرواں عادل شکار کے لیے جنگل میں گئے۔ شکار کرنے کے بعد پتہ چلا کہ نمک نہیں تھا۔

نوشیرواں نے اپنے مصاحبوں سے کہا کہ قریبی گاؤں سے نمک لائیں لیکن قیمت ادا کرکے ۔ مصاحب بولے کہ اتنی چھوٹی سی چیز کی قیمت کیا دیں گے ؟۔ تب توشیرواں نے وہ تاریخی جملے بولے جو ہر حاکم کو اَزبَر ہونے چاہییں ۔ اُنہوںنے کہا ”اگر حاکم ایک انڈے پر ظلم روا رکھے گا تو مصاحب رعایا کی ساری مرغیاں ہڑپ کر جائیں گے ”۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میاں صاحبان خود اجلاسوں میں شریک ہوتے تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وزراء غیرحاضر ہوتے ۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ میاں رضاربانی کا احتجاج غلط تھا تو اِسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ صرف وزراء کی غیر حاضری ہی نہیں ، دیگر کئی سیاسی عوامل نے بھی چیئرمین سینیٹ کا پیمانۂ صبر لبریز کر دیا اور وہ پھَٹ پڑے ۔ میاں رضاربانی کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے ، یہ الگ بات کہ اُن کے اندر پیپلزپارٹی کے جیالوں جیسے جراثیم پیدا نہیں ہو سکے لیکن اُن کی ہمدردیاں بہرحال پیپلزپارٹی ہی کے ساتھ ہیں۔ آجکل پیپلزپارٹی نے ”فرینڈلی اپوزیشن” کا نقاب اتار پھینکا ہے ۔ اب ہمیں وہی ”اصلی تے وَڈی” پیپلزپارٹی نظر آتی ہے جو اپنی بڑھکوں سے تھَرتھلی مچانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے ۔ جلتی پر تیل کا کام کراچی کے تناظر میں ہونے والی حالیہ گرفتاریوں اور گمشدگیوں نے کیا ، جس کاچیئرمین صاحب نے بھی اثر قبول کیا۔ شاید وہ سوچ رہے ہوں گے کہ

وفا کیسی ، کہاں کا عشق ، جب سَر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

ایک طرف گمشدگیاں اور دوسری طرف میاں نواز شریف کے سندھ میں دھڑادھڑ دَورے اور ترقیاتی حکمت عملیاں ، جِن سے پیپلزپارٹی بوکھلاہٹ کا شکار ہے ۔ میاں صاحب اب لگی لپٹی رکھے بغیر تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی کے لَٹّے لینے لگے ہیں ۔ اُنہوں نے جیکب آباد میں ترقیاتی کاموں کے لیے 100 کروڑ روپے ، 100 ٹرانسفارمرز اور گیس کی فراہمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو اب ووٹ نعروں پر نہیں ، کام پر ملیں گے ۔ سندھ حکومت اپنی کارکردگی دیکھے ۔ ہم سے پہلے یہاں ڈاکوراج تھا ، سندھ میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا ، کراچی میں ہر طرف کچرا ہی کچرا ہے ۔ ہم عوام کی طاقت سے حالات بدلیں گے۔ وزیرِ اعظم صاحب نے مزید کہا کہ بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے لوگ علاج سے قاصر ہیں اِس لیے اُن کے لیے ہیلتھ کارڈ فراہم کیے جائیں گے تاکہ اُن کا مناسب علاج ہو سکے ۔ وفاقی وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اپنے مخصوص لہجے میں خطاب کرتے ہوئے کہا ” سندھ دھرتی کو زرداریوں کے آسیب اور چنگل سے آزاد کروائیں گے ۔ بہت مہلت دے دی مگر یہ سدھرنے والے نہیں ۔ پیپلزپارٹی صرف چوری کرتی ہے ۔ بھٹو کے نام پر حکومت کرنے والوں نے عوام کو کچھ نہیں دیا ۔ نوری آباد کمپنی کے پیچھے زرداری ہیں ”۔ خواجہ سعد رفیق نے پیپلزپارٹی پر اور بھی بہت سے الزامات دَھرے ۔ اب ظاہر ہے کہ جب اِس قسم کی صورتِ حال ہو اور سیاسی درجہ حرارت آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جا رہا ہو تو پھر محتاط حکومتی رویہ ہی بہتر ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ اُلٹ ہے۔ حکومتی وزراء کو ایسی نوبت ہی نہیں آنے دینا چاہیے تھی کہ چیئرمین سینیٹ ہی ”واک آؤٹ” کر جاتے ۔ اکابرینِ حکومت کو یاد رکھنا ہو گا کہ اپوزیشن کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہوتا ، جو نقصان بھی ہوتا ہے ، حکومت ہی کا ہوتا ہے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر