تبدیلی مگر کیسے

Change

Change

تحریر : عتیق الرحمٰن

ملک کی تمام بڑی جماعتیں بظاہر اس نظام کی خرابیوں کا اقرار کررہی ہیں، مخالف جماعتوں کو لوٹوں کی جماعت کے القابات سے بھی نواز جارہا ہے، اور ایک دوسرے پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انکی جماعت کے گند کو مخالف اپنی جماعت میں شامل کررہے ہیں۔ ویسے یہ عجیب سائنس ہے جو کہ عوام کی سمجھ سے بالا ہے وہ الیکٹیبلز جو کسی اور جماعت کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ ن میں آئے تھے تو کیا وہ اس وقت لوٹے اور برے نہیں تھے جو وہ آج لوٹے اور برے ہوگئے۔ پی ٹی آئی کو بھی اس صورت حال سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ اقتدار کی امید پر جو گدھ انکی طرف بڑھ رہے ہیں وہ پروگرام یا لیڈر شپ سے متاثر نہیں بلکہ وہ اقتدار کی بو سونگھنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں اور انکی دوسری پارٹی میں آمد دراصل اپنی بھوک مٹانے کے لیے ہے۔

اب جب کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن یہ سمجھ گئی ہیں کہ الیکٹیبلز دراصل کسی کے نہیں ہوتے۔ عمران خان خود اس بات کا برملا اعلان کرتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر اس نظام کو تبدیل کریں گے، ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک بھی اس نظام کو تبدیل کرنے کی بات کرتی ہے اور اس سلسلے میں ایک پروگرام بھی دے چکی ہے پاکستان میں نئی حکومت آنے والی ہے ایسے میں یہ اشد ضروری ہے کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ اس نظام میں کون سے تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے جس کی بناء پر مملکت پاکستان میں جمہوریت پھلے پھولے اور اسکے ثمرات عام عوام تک پہنچیں، اور عوام کو بھی معلوم ہو کہ نئی آنے والی اسمبلی اور حکومت سے انہیں نظام کی بہتری کے لیے کون سے مطالبات کرنے چاہئے نیز نئی اسمبلی و حکومت کی کارکردگی کو کن اصولوں کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔

کسی معاشرے کے معروضی حالات کے پیش نظر اس ملک کا جمہوری نظام واضح کیا جانا ضروری ہے وہ جمہوریت جو کہ آج مغرب میں رائج ہے اگر پاکستان میں نافذ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو بری طرح ناکامی ہوگی کیونکہ نظام ارتقائی مراحل طے کرکے بلندی کی اس سطح پر پہنچتا ہے جہاں عوامی سوچ، فطرت اور فیصلے جمہوری بنتے ہیں اگر ہمیں جمہوری ثمرات عوام تک پہنچانے ہیں تو پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام انتخاب کو اپنانا ہوگا جہاں سربراہ مملکت کا انتخاب عوام براہ راست اپنے ووٹ سے کریں اس طریقہ سے سیاسی جماعتیں اور نظام الیکٹیبلز کے روپ میں موجود جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور غنڈوں کے چنگل سے نکل جائے گا اور عوام براہ راست اسے منتخب کریں گے جو کہ اس صلاحیت کا حامل ہوگا جو انکے مسائل حل کرسکے اور وہ اپنی کابینہ میں بھی بہترین افراد لےسکے گا۔ اسمبلی کی سیٹیں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر دی جائیں جو پارٹی جتنے ووٹ حاصل کرے اسی تناسب سے اس پارٹی کے ممبران اسمبلی میں پہنچ جائیں اسطرح پارٹیاں ایسے افراد کو اسمبلی میں بھیجیں گی جو کہ اعلی صلاحیت کا حامل ہوگا۔ اور پارٹی کو الیکٹیبلز کے ووٹوں کی ضرورت نہیں رہے گی اور الیکٹیبلز کے عفریت بھی جان چھوٹ جائے گا۔

ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دے دیا جائے اس طرح انتظامی بنیادوں پر پاکستان میں 35 صوبے بنیں گے اور صوبائیت اور لسانیت کے مسائل ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں گےاور اختیارات بھی اسی صوبے سے تعلق رکھے والے افراد کے پاس ہونگے اور احساس محرومی ختم ہوگا، چھوٹے انتظامی یونٹ ہونے سے کنٹرول اور کام کرنا آسان ہوگا۔ صوبے کا انتظامی سربراہ گورنر ہو جو کہ عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوگا اور اپنی کابینہ بہترین انتظامی صلاحیتوں والے افراد کی منتخب کرسکے گا۔ صحت، تعلیم، روزگار، پانی، بجلی، انفراسٹرکچر ، پولیس، بیروکریسی، ٹرانسپورٹ اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی انکا کام ہو۔

اسمبلی کا کام صرف قانون سازی ہو اور اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر منتقل کئے جائیں، لوکل باڈیز کو انتظامی و مالی اعتبار سے خودمختار بنایا جائے، ضلع، تحصیل اور یوسی کے نمائندوں کا کام اپنے شہر، قصبہ اور علاقے کی صفائی، ستھرائی، ترقیاتی کام، پانی، سیوریج، روڈ اور گلیاں بنانا ہو۔

عدل کا نظام عوام کی دہلیز پر پہنچایا جائے وفاقی سپریم کورٹ اسلام آباد میں ہو اور نئے بننے والے 35 صوبوں میں بھی سپریم کورٹ قائم کی جائیں۔ سپریم کورٹ انتہائی اہم مقدمات اور آئین کی وضاحت سے تعلق رکھنے والے مقدمات کی سماعت کرے باقی تمام مقدمات ہائی کورٹ پر ہی نمٹائے جائیں۔ ہائی کورٹ اضلاع کی سطح پر بنائی جائیں۔ عام اور لوکل سطح کے مقدمات کو سیشن کورٹ تک محدود رکھا جائے سیشن کورٹ تحصیل کی سطح پر ہوں اور ہر قسم کے کیس کے لیے ٹائم فریم مقرر کیا جائے تاکہ کوئی تاخیری حربہ استعمال نہ کیا جاسکے اور عوام کو اپنے شہر میں ہی جلد انصاف مل سکے۔

زرعی ریفارمز کی جائیں اور زرعی زمین کی حد مقرر کی جائے، وہ زمینیں جو کہ انگریز سرکار سے وفاداری کی بنیاد پر دی گئی انہیں وہاں کے کاشتکاروں میں بانٹ دیا جائے۔ کڑے احتساب کا یکساں نظام رائج کیا جائے اور اس پر عمل درامد کو یقینی بنایا جائے اداروں کو خودمختار بنایا جائے تاکہ ان پر حکومتی دباؤ نہ ہو اور وہ قانون کے تحت دیئے گئے اختیارات کے اندر رہتے ہوئے کام کریں۔ یکساں نظام تعلیم متعارف کروایا جائے اور تمام اسکولوں میں وہی نظام رائج ہو۔

اگر تمام سیاسی جماعتیں اور آنی والی اسمبلی ریفارمز کے اس ایجنڈے پر متفق ہوجائیں تو پاکستان میں حقیقی جمہوری کی جانب پیش قدمی کا آغاز ہوجائے گا جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں گی، اور عوام تک بہتر نظام کے ثمرات بھی پہنچیں گے۔

ATIQ-UR-REHMAN RASHEED

ATIQ-UR-REHMAN RASHEED

تحریر : عتیق الرحمٰن