صدقہ فطر(فطرانہ) کس کو دیں؟

Fitrana

Fitrana

تحریر: حبیب اللہ
مٹی میں ملے ہوئے بہت سے بیج اور جڑیں جو طویل عرصے سے نیم مردہ حالت میں پڑے ہوتے ہیں، جونہی موسم بہار آتا ہے تو ان میں زندگی کی رمق پیدا ہو جاتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گردو غباراڑانے والے میدان شادا بی سے لہلہانے لگتے ہیں۔ آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے سبزہ اور ہریالی کو دیکھ کر انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس سے قبل یہاں دھواں اڑا کرتا تھا اور دلوں کو فرحت بخشنے والے سبزہ کا یہاں نام و نشان تک نہیں تھا۔ بالکل ایسی ہی مثال مسلمان اور رمضان المبارک کی ہے، چونکہ انسان خطا کا پتلا ہے ، سارا سال عبادات و معاملات میں اس سے غلطیاں اور کوتاہیاں سرز د ہوتی رہتی ہیں اور امت مسلمہ کے بہت سے افرا دکے دلوں میں ایمان کی حرارت کمزور ہونے لگتی ہے۔ایسے میں اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کا موسم بہار لے آتا ہے۔ مسلمان مساجد کا رخ کرتے ہیں ، اللہ کی رضا کے لئے بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہوئے روزے رکھتے ہیں ، قرآن کی تلاوت اور صدقہ و خیرات کو معمول بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح جن کو اللہ توفیق سے نوازے وہ اعتکاف کی بھی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اپنی نظروں کی حفاظت ، جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، حسد ، بغض ، کینہ اور اس طرح کے دیگر گناہوں سے بچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے اندر ایمان کی چاشنی اور شادابی پھر سے تازہ کر دیتا ہے اور وہ تقویٰ اور پرہیز گاری کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔

رمضان المبارک میںایک ماہ کے مسلسل روزے رکھوانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ تمام گناہ جو انسان کی عادت بن چکے ہوتے ہیں اور انسان انہیں گناہ ہی نہیں سمجھتا، اللہ تعالیٰ انہیں بھی ختم کروانا چاہتا ہے اور اپنے بندوں کو گناہوں سے بالکل پاک صاف کرنا چاہتا ہے۔ روزہ کے مسائل و احکامات ، فضائل ، نما زتراویح ، کن لوگوں پر روزہ رکھنا فرض اور کن لوگوں کو اس کی رخصت ہے ، اعتکاف و دیگر مسائل پر اخبارات میں علمائے کرام کے بہت سے مضامین شائع ہو چکے ہیں اور ان پر دوبارہ قلم اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم درج ذیل سطور میں صرف رمضان المبارک میں ادا کئے جانے والے ایک اہم فریضے کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں جس کا ادا کرنا سب پر واجب ہے، اسے صدقہ فطر کہتے ہیں۔صدقہ فطر کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ نبی اکرمۖ کی حدیث ہے کہ عید الفطر سے قبل پیدا ہونے والے ایک دن کے بچے کا فطرانہ ادا کرنا بھی لازم ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ۖ نے روزہ دار کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک کرنے اور مساکین کو کھلانے کے لئے صدقہ فطر مقرر فرمایا ہے، لہٰذا جو نمازعید سے قبل ادا کرے

اس کا صدقہ مقبول ہوا اور جو نماز کے بعد ادا کرے تو عام صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے ( نہ کہ واجب صدقہ )… یعنی اسے صدقہ فطر نہیں کہا جا سکتا …( ابن ماجہ ، کتاب الزکوٰة ، باب صدقة الفطر )…اللہ تعالیٰ قرآن پاک میںکہتے ہیں کہ ” ان ( امیروں ) کے مال میں سے سائل اور محروموں کا حق ہے ” اس لئے یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ غربا ء و مساکین کو صدقہ فطر ادا کرنا ان پر کوئی احسان نہیں ہے۔ نبی اکرم ۖ کی حدیث ہے کہ صدقة الفطر ادا کرنا ہر غلام اور آزاد ، مرد اور عورت ، چھوٹے اور بڑے ہر مسلمان پر فرض ہے…( بحوالہ : صحیح بخاری )…بعض کم علم لوگ اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی صورت درست نہیں ہے۔ صحیح احادیث میںصدقہ فطر(فطرانہ) کی مقدار ایک ” صاع ” یعنی تقریباً اڑھائی کلو ہے …( بخاری ، مسلم)… مختلف صحیح احادیث میں صدقہ فطر کی ادائیگی کے لئے مندرجہ ذیل چیزوں کا ذکر ہوا ہے : گندم ، جو ، کھجور ، آٹا ، پنیر اور عام خوراک۔ مثلاً دالیں ، چنا ، سوجی وغیرہ…(بحوالہ : صحیح بخاری )…یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ صدقہ فطر ہر گھرانے پر اس کی استطاعت اور حیثیت کے مطابق فرض ہے، یعنی امیر اور غریب دونوں پر ایک ہی جنس کے حساب سے فطرانہ ادا کرنے کی بات درست نہیں ہے۔

Fitrana

Fitrana

جن گھرانوں کے باورچی خانوں میں گندم کے ساتھ ساتھ چاول ، پنیر ، کھجور وغیرہ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ اڑھائی کلو گندم کے حساب سے فطرانہ دے کرہی گزارہ کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق جو چیزیں آپ کثرت سے استعمال کرتے ہیں، وہ اعلیٰ اور قیمتی چیزیں بطور صدقہ فطر ادا کریں۔ مثلاً پنیر ، کھجور وغیرہ یا اس کی مالیت کے مطابق رقم ادا کریں تاکہ غریبوں کو بھی مہنگی اور اچھی اشیاء کھانے کو مل سکیں۔آج بھی تھرپارکر سندھ اور بلوچستان سمیت ملک کے مختلف شہروں و دیہاتوں میں لاکھوں افراد ایسے موجود ہیں جنہیں رمضان المبارک کے ایام میں سحری و افطاری کے لئے بھی کچھ میسر نہیں ہے اور وہ پانی پی کر روزہ رکھنے پر مجبور ہیں۔وہ غریب اور مستحق بھائی جن کے پاس رہنے کے لئے گھر نہیں اور وہ کھلے آسمان تلے دن گزار رہے ہیں۔انہیں خوراک ، لباس اور صاف پانی کی اشد ضرورت ہے۔برما کے مظلوم مسلمانوں کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہیں۔ انڈونیشیا میں اس وقت ہزاروں برمی مہاجرین موجود ہیں جن کیلئے جماعةالدعوة جیسی تنظیمیں شیلٹرز ہوم بنارہی ہیں اور ہزاروں افراد کے روزانہ سحروافطار کیاجارہا ہے اس لئے پوری قوم کو چاہیے کہ وہ اپنی زکوٰہ ، صدقات اور فطرانہ انہیں ادا کرے تاکہ ان کی مشکلات کم کی جا سکیں۔

اس سلسلے میں جماعةالدعوة، فلاح انسانیت فائونڈیشن جیسی رفاہی و فلاحی تنظیموں نے بلوچستان وتھرپارکر سندھ کے انتہائی پسماندہ متاثرہ علاقوںاورانڈونیشیاکے آچے شہر میں مظلوم برمی مسلمانوں کی امداد کیلئے زبردست ریلیف آپریشن شروع کر رکھا ہے جس پر کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔اسی طرح تعلیم و صحت سمیت دیگر شعبہ جات میں بھی ہر سال کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اس لئے اس کار خیر میں حصہ لینے کیلئے ایف آئی ایف کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف کے موبائل نمبر0321ـ8444992 یا 042ـ37230550پر رابطہ کیاجاسکتا ہے تاکہ غرباء ومساکین اور مستحق افراد کے معمولات زندگی بحال کرنے میں ان کی مدد کی جا سکے۔ فطرانہ ادا کرنے کے وقت سے متعلق نبی اکرم ۖ کی حدیث ہے کہ صدقہ فطر(فطرانہ)لوگوں کے عید گاہ کی طرف جانے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے …(بحوالہ : بخاری ، مسلم )…سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ لوگ یہ صدقہ عید سے ایک دو روز پہلے دیدیا کرتے تھے …( بخاری )… صدقہ فطر کا ابتدائی وقت عید سے چند روز پہلے اور آخری وقت عید کی نماز سے پہلے ہے …( موطا امام مالک )…علمائے کرام نے یہاں بھی مختلف احادیث کو تطبیق دیتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ فطرانہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے اد ا کرنا چاہیے تاکہ مستحق لوگوں تک بروقت پہنچ سکے اور انہیں بھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جا سکے۔

Habibullah Salfi

Habibullah Salfi

تحریر: حبیب اللہ

Fitrana

Fitrana