منشور کمزور لیکن امیدوار طاقتور ہونا چاہیے

Election

Election

تحریر : فہیم چنگوانی
موجودہ نظام انتخابات صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اس نظام کے تحت صرف سرمایہ دار اور جاگیر دار ہی منتخب ہو سکتے ہیں۔ یہ ایسا نظام ہے جس میں پولیس کی موجودگی میں لیڈی پولنگ سٹاف کی تھپڑوں سے پٹائی پر قانون کسی جاگیردارنی خاتون کو روکنے سے معذور ہے اور الیکشن کمیشن اُسے نااہل کرنے کے بجائے اسے دوبارہ انتخابات کے لئے اہل قرار دیتا ہے۔ اس نظام میں عوام کو دہشت زدہ کر دیا گیا ہے اور ان کی ذاتی پسندکو محدود کر دیا جاتا ہے ان سے جبراََ ووٹ لیے جاتے ہیں۔

جب اقتدار ان طبقات کے ہاتھ میں آتا ہے تو یہ صرف ایسے قوانین وضع کرتے ہیں اور دستور اور قانون میںایسی ترمیم کرتے ہیںجن سے صرف ان کے اعلیٰ سطحی مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ عوام کے مفاد میں کوئی فیصلہ نہیںہوتا اور نہ ہی کوئی پالیسی بنتی ہے۔ اس کی مثال آئندہ آنے والے انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ نامزدگی فارم ہیں جن میں ڈیفالٹرز، قرض خوروں، ٹیکس چوروں اور یوٹیلٹی بلز کی عدم ادائیگی بلز کی عدم ادائیگی کرنے والوں کو ایک طرف نااہل قرار دیا جارہا ہے اور دوسری طرف اس قانون سے بچنے کے لئے کسی بھی کورٹ سے Stay لینے کی صورت میں چور دروازہ فراہم کرتے ہوئے اہل بھی قرار دیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک غریب عوام کی بہتری کے لئے ان بالادست طبقات کے ہاتھوںکوئی اصلاحات نافذ نہیں ہو سکیں اور نہ ہی اسلامی قوانین اور شریعت محمدیAکا نفاذ ہو سکا ہے۔ چونکہ شریعت کا نفاذ ان بالادست طبقات کے مفاد میں نہیں اس لئے ان طبقات کے ہوتے ہوئے عوامی مفادات و حقوق کا تحفظ ہو سکتا ہے اور نہ شریعت کا نفاذ ممکن ہے۔

اس کی عملی مثا ل سابقہ حکومت کے آخری دن میں جب عوامی مسائل کے بارے میں کوئی بل منظور نہیں ہوا جبکہ ذاتی مفادات اور سیاسی خلیفوں کو خوش کرنے کے لیے راتوں رات بل منظور کیے گئے۔۔۔ ذاتی تنخواہیں بڑھانے کے لیے متفقہ قرار دادیں منظور کی گئیں۔ اسی سوچ نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ شہروں میں سرمایہ دار جبکہ دیہاتی علاقوں میں جاگیر دار اوروڈیرے اس نظام پر مسلط ہیں۔اس نظام میں امیدوار چونکہ محض ایک ووٹ کی برتری سے بھی کامیاب ہو سکتا ہے اس لیے ناجائز ذارئع اور سرکاری پشت پناہی کے حامل امیدوار اپنے مدمقابل کو شکست دینے اور خوفزدہ کرنے کے لئے دھن، دھونس اور دھاندلی کے تمام ممکنہ طریقوں کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہر انتخاب میں بر سر اقتدار حکومتوں اور بالا دست طبقات نے دھن، دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر الیکشن جیتنے کے بعد بھی اپنے مدمقابل کو ذلیل ورسوا کرنے اور اسے ہر ممکن انتقام لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسے انتہائی بہیمانہ اور غیر شریفانہ طریقوں سے نقصان پہنچاتے رہے۔

ان بالادست طبقات کو ہمیشہ یہ اطمینان رہتا ہے کہ ہمارے حلقے محفوظ ہیں اور ہمارے سوا کوئی دوسرا شخص ہمارے حلقے سے منتخب نہیں ہو سکتااس لئے وہ اس نظام انتخاب کے تحت اپنے استحصالی، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ مفادات کے لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے اور ان کی اجارہ داریاں ہمیشہ برقرار رہتی ہیں۔ ان اجارہ داریوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کے موجودہ سماجی و سیاسی حالات میں تبدیلی کی توقع قطعاََ نہیں کی جا سکتی۔موجودہ نظام انتخاب کے ذریعے ٹکٹ کی خریداری سے لے کر اسمبلی تک پہنچنے کے لیے کروڑوں روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ ممبر اسمبلی جب اس قدر خطیر رقم خرچ کرتا ہے وہ اسمبلی میں پہنچ کراپنی سابقہ انویسٹمنٹ پوری کرنے، آئندہ الیکشن اخراجات اور منافع کے حصول کے لیے کل اخراجات سے تین گنا رقم بٹورنے کے لیے کرپشن کرتا ہے اور ضمیر تک فروخت کرنے کو تیار ہوتا ہے، ناجائز ٹھیکے دیے جاتے ہیں۔ خصوصی پرمٹ اور وزارتیں سب اسی مال بنانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے لوگ قومی سوچ، ملکی مفادات، عوامی فلاح کے جذبے سے عاری ہوتے ہیںاور غریب عوام اور پاکستان وہاں کے وہاں کھڑے ہیں۔ ریلوے،سٹیل مل، پی آئی اے اور دیگر ادارے اسی سوچ کی بھینٹ چڑھے ہیں۔

موجودہ نظام انتخاب میںہر پارٹی کوطاقتورامیدوار (Winning Hourses)کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے صلاحیت، کردار، نظریہ، پارٹی منشور کو بالائے طاق رکھ کر پارٹی قیادت ا ن امیدواروں کے حصول کے لیے اصولوںپر بھی سمجھوتہ کر لیتی ہے۔ اسی بنا پر حکومت سازی کے بعد بھی پارٹی قیادت پروگرام کے مطابق حکومت چلانے کی بجائے ان ارکان کی خوشامدوں میں مصروف رہتی ہے اور اکثر ان کے مفادات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ اسی طرح عوامی پروگرام اور بڑے بڑے نعرے سالوں کی حکمرانی کے بعد بھی ادھورے رہتے ہیں اور قوم کو پھر ایک نیا نعرہ دے کر بے وقوف بنایا جاتا ہے۔موجودہ نظام انتخاب کے ذریعے آنے والے اراکین اسمبلی کا مقصد عوامی فلاح اور قومی مفاد کا تحفظ نہیں ہے۔ اس لیے اسمبلی کے اجلاس کے دوران اراکین اسمبلی کی حاضری مکمل نہ ہونا معمول ہے۔

اخبارات کا ریکارڈ اس کا گواہ ہے۔ کئی اراکین اسمبلی میں وہ ہیں جنہوں نے ایک مرتبہ بھی اپنا مائیک آن نہیں کیا اور نہ ہی اسمبلی میں بحث، نقطہ اعتراض یا ایک لفظ بھی بولا ہوبلکہ میڈیا گواہ ہے ہے کہ ہمارے اراکین پارلیمنٹ دوران اجلاس بھی خواب خرگوش کے مزے لیتے رہتے ہیں۔ ملک کے اس قدر اعلیٰ ادارے میں جہاں قوم کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں، قوانین بنتے ہیں اس طرح کا غیر سنجیدہ عمل فیصلہ سازی کے عمل کو مشکوک بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی فلاح اور قومی ترقی کے حوالے سے قانون سازی نہیں ہو پاتی۔ اگر کوئی فیصلہ ہو بھی جائے تو اس پر عملدرآمد کے اثرات عوام تک نہیں پہنچتے۔تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں حکمرانوں نے ذاتی مفادات اور حکومت کو طول دینے کے لیے راتوں رات قانون سازی کروائی اور اراکین اسمبلی نے بھر پور تائید کی۔ پارلیمنٹ فیصلے کرتی ہے مگر اس کی قدر نہ ہونے کی وجہ سے عملدرآمد نہیں کرواسکتی۔ یہ پارلیمنٹ اس وقت تک طاقتور نہیںہو سکتی جب تک اس کی تشکیل کے لیے نمائندگان کے چنائوکے نظام(نتخابی نظام) میں تبدیلی نہ کی جائے۔

Muhammad Fahim

Muhammad Fahim

تحریر : فہیم چنگوانی
موبائل نمبر 0331-7363882