چیف جسٹس کیسے آنکھیں بند کر لیتے

Chief Justice Saqib Nisar

Chief Justice Saqib Nisar

تحریر : مسز جمشید خاکوانی

عدلیہ اور فوج کو جس طرح بدنام کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے ایک عظیم لیڈر کو جیل کرا دی ہے حالانکہ اس میں فوج کا صرف اتنا سا کردار ہے کہ ماضی کی طرح اس نے مارشل لا لگا کر انہیں بھاگنے کا موقع فراہم نہیں کیا اور آئین اور قانون کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ان کے جرائم کو بے نقاب عمران خان نے کیا اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہے کہ ایک شخص قوم میں اس شعور کے اجاگر کرنے کا سبب بن گیا جب کہ ملک تباہی کے آخری دھانے تک آپہنچا ہے خدا کے لیے اس باری کے بخار سے جان چھڑائو ورنہ قوم تو ہمیشہ کی طرح غفلت کی نیند سو رہی تھی اب بھی اتنا کچھ بگڑ چکا ہے کہ اس کے سدھار کی تمام تر کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو رہیں لیکن پھر بھی ایک آس بندھ گئی ہے چیف جسٹس نے معاملات کے سدھار کے لیے جو نوٹسز لیے ان پر نظر ڈالیں اور بتائیں ان میں کیا غلط کیا؟

چیف جسٹس نے تباہ حال یونی ورسٹیوں کا جائزہ لیا تو پتہ چلا تقریباً ہر جگہ وائس چانسلرز اقرباپروری اور کمیشن کی بنیاد پر تعینات ہیں جب پنجاب یونیورسٹی کے وی سی کی تلاشی لی تو پتہ چلا موصوف نے پنجاب یونیورسٹی کا 80ایکڑ رقبہ گرڈ اسٹیشن کے لیے حکومت کو بیچ دیا ہے ،ادویہ ساز کمپنیوں کا جائزہ لیا تو پتہ چلا وہ بھی سیاستدانوں کو پیسہ لگا کر سیمپل پاس کرواتے ہیں اور جعلی اور غیر میعاری ادویہ بناتے ہیں ،ایموکسل،آگمینٹن،سینکوس سمیت 100قسم کی ادویہ غیر میعاری نکلی ہسپتالوں کا دورہ کیا تو پتہ چلا کہ تقریباً ہر ہسپتال کا ایم ایس اقرباپروری اور پیسے کی بنیاد پر تعینات ہوا ہے اور ہسپتالوں میں مشینری تک موجود نہیں ،میڈیکل کالجز کا نوٹس لیا تو پتہ چلا کہ نو لاکھ فیس کی بجائے 30 سے35لاکھ فیس وصول کی جا رہی ہے اور کالج گیراجوں میں بنائے گئے۔

جبکہ تقریباً ہر میڈیکل کالج کسی سیاستدان یا کسی سیاسی اثررسوخ والے کا نکلتا ،ریلوے کا نوٹس لیا تو پتہ چلا اس کا خسارہ مزید سے مزید بڑھتا چلا جا رہا ہے مسلہ پھر وہی سیاست دان ،جب PIAکا نوٹس لیا تو پتہ چلا اس کا نقصان ہوش ربا حد تک اضافہ جب کہ شاہد خاقان اور شجاعت عظیم کی ائر لائنزعظیم سے عظیم تر ، جب PICکی چھان بین کی تو پتہ چلا دل کی نالیاں کھولنے والا سٹنٹ جو اپنے ملک میں 15ہزار میں تیار ہو سکتا ہے وہ باہر سے لاکھوں میں منگوائے گئے ،جب پنجاب انتظامیہ کو چیک کیا تو 56کمپنیاں نکل آئیں جن کے سربراہوں کو 15 سے 25لاکھ کے درمیان تنخواہیں اور کروڑوں مالیت کی گاڑیاں دی گئی تھیں جبکہ چند ایک کے علاوہ باقی تمام کمپنیاں کاغذوں تک محدود لیکن مرعات جاری عوام کی جیب سے ،جب سیکورٹی پہ نوٹس لیا تو پتہ چلا۔

کہ ہر سیاستدان نے عوام کی خدمت پر مامور رہنے والے پولیس اہلکار اپنی خدمت پر مامور کیے ہوئے ہیں یہاں تک کہ ان کی بیگمات کے لیے بازار سے سبزی وغیرہ اور بچوں کو سکول لانے لے جانے کا کام بھی وہی کرتے ہیں میاں صاحب کے محل کی سیکورٹی پر 2200اہلکار تعینات تھے جبکہ قانون کے مطابق سابق وزیراعظم صرف پندرہ گارڈ رکھ سکتا ہے۔

جب ترقیاتی کاموں پہ نوٹس لیا تو پتہ چلا کہ پارکوں کی جگہ پر سڑکیں اور پلازے تعمیر کیے جا رہے ہیں بیوہ ،غریب ،مسکین یتیم ،مظلوم الغرض ہر وہ شخص جس نے پاکستان کے فرعون صفت حکمرانوں اور بیورو کریسی سے مایوس ہو کر اپنی فریاد چیف جسٹس تک پہنچائی اس نے نوٹس لیا اور اس کی داد رسی کی ،یہ اوپر بیان کیے گئے چند ایک نوٹسز ہیں جو چیف جسٹس صاحب نے لے لیے اور یہ سب عوام کے حقوق سے متعلق ہیں ورنہ تو یہ ظلم پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں تسلسل سے ہو رہا ہے آج بھی میں نے ایک وال پر کچھ تفصیل پڑھی ہے جو کہ ایک چھوٹے سے قصبہ نما شہر سے متعلق تھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ایک مافیا نے ایک پولیٹیکل پارٹی کے نام پر پورے ملک میں پنجے گاڑے ہوئے ہیں اور پورے ملک کا وجود زخم زخم کر دیا ہے خیر اس پر ایک اور کالم لکھنا پڑے گا۔

بحرحال چیف جسٹس صاحب نے جو نوٹسز لیے وہ سارے عوام کے حقوق سے متعلق ہیں اس پر اگر کسی کو تکلیف ہے تو وہ انسان نہیں ،مسلم لیگ نون اور اس کے اتحادیوں کے لیے اس وقت عمران خان سے زیادہ چیف جسٹس خوف کی علامت ہیں ہم امید کرتے ہیں چیف جسٹس صاحب ان لیے گئے نوٹسز کو انجام تک پہنچائیں گیاور عوام کی دعائیں لیں گے۔

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی