بچہ جمورا

Bacha Jamoora

Bacha Jamoora

تحریر: ریاض احمد مغل
بچہ جمورا
میں کون۔۔۔عامل
تو کون ۔۔۔معمول
عامل۔۔۔جو کچھ پوچھوںگا بتلائے گا
معمول۔۔۔جی بتلائوں گا
عامل۔۔۔گھوم جا
معمول۔۔۔گھوم گیا
عامل۔۔۔کیا دیکھا

معمول۔۔۔اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں

عامل۔۔۔بچہ ! قومی ترانہ پڑھ کر تم نے آج میرا دل خوش کردیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ افواج پاکستان اور پوری قوم اس پرچم کے سائے تلے ایک ہیں، ملکی سرحدوں پر میلی آنکھ رکھنے الے دشمن ہوں ، ناگہانی آفات ،سیلاب یا زلزلہ کی تباہ کاریاں ہوں ،دہشت گردی اور مذہبی فسادات ہوں ، پاکستانی قوم کو ان ناگہانی آفات سے بچانے کیلئے افواج پاکستان کے جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس پرچم کی پاسبانی کررہے ہیں۔انہوں نے ملکی بارڈر کے تحفظ کا دفاع کرکے ثابت کر دیا ہے کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، تو میں سلام پیش کرتا ہوں اس قومی ترانہ کے لکھاری کو اور جس نے اسے گاکر اس میں روح پھونکی ،ان سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ، اس قومی ترانہ کو سننے سے انسان کے دل و دماغ کو تسکین پہنچتی ہے۔

Pak Army

Pak Army

معمول۔۔۔ استاد جی! یہ آپ نے سچ کہا ہے کہ افواج پاکستان اور قوم واقعی اس کے سائے تلے ایک ہیں ، مگر چند لوگ ایک نہیں ۔مثلاً حکومت اور اپوزیشن ایک ہیں (نہیں)، تاجر اور مزدور ایک ہیں(نہیں)، جاگیر اور مزارے ایک ہیں (نہیں) ، قومی ادارے اور عوام بھی ایک نہیں،یہ حکومتیں مہنگائی ، بے روزگاری کے ذریعے اپنی ہی قوم کا برا حال کررہے ہیں جو کہ فاقہ کشی ، چوری ، ڈکیتی ، جسم فروشی کرنے پر مجبور ہیںکیونکہ روٹی ، کپڑا اور مکان سب کا حق ہے مگر ان لوگوں نے ہر چیز چھین لی ہے۔

عامل۔۔۔ بچہ! تم نے سچ کہا ہے کہ چند لوگ اداروں میں بیٹھ کر مثلاً واپڈا ، سوئی گیس ، ٹی ایم اے ، نادرا ، پاسپورٹ آفس ، پوسٹ آفس ، پی آئی اے ، انکم ٹیکس آفس ، ایکسائز آفس ، تعلیمی ادارے ، ہسپتال، جنگلات وغیرہ سب عوام کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کررہے ہیں۔ بچہ میں کس کس کی کہانی لکھوں؟ لکھنے سے انسان کے زخموں کو ادھیڑنے اور چیخیں نکالنے کا برابر ہے۔

معمول۔۔۔ استاد جی! وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے وزراء ٹی وی ٹاک شوز اور جلسے جلوسوں میں تو بلند بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں مگر عملی طور پر سانپ کی طرح یہ پوری قوم کو ڈس رہے ہیں ،کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جو کہ ترقی کی جانب گامزن ہو، سب کے سب تنزلی کا شکارہیں ، اپنے ملازمین کی تنخواہ بھی رو رو کر ادا کرتے ہیں، یہ اپنا تو معیار زندگی بلند کررہے ہیں، مگر غریب کی زندگی کو تباہ و برباد کررہے ہیں ، وقت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں اور اپنے لخت جگروں ، اپنے گردے ، خون بیچ کر اپنے بچوں کی کفالت کررہے ہیں ، دن بدن بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں اضافہ کررہے ہیں ، ان میں کئی ایک افراد فٹ پاتھوں پر ہی زندگیاں گزارتے گزارتے اللہ کو پیارے ہوہے ہیں ، افسوس کہ حکومتی ایوان ان سب حقائق کو جاننے کے باوجود اندھے گونگے اور بہرے ہوچکے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

عامل۔۔۔بچہ! پاکستان اسلامیہ جمہوری ملک ہے ، یہ کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ، اس لئے کہ مسلمان اپنی ریاست میں اسلامی قوانین کے ذریعے مساوات محمدیۖ کا قانون نافذ ہوگا مگر یہ حکمران اپنی عیاشیوں میں مساوات محمدی اور اپنے اسلاف اور قرآن پاک کی تعلیمات کو یکسر بھول چکے ہیں ۔حکمران یہ بھی بھول گئے ہیں کہ حضرت عمر فاروق جن کی حکمرانی کا پوری دنیا میں چرچا ہے اور انصاف کے علمبردار ہیں ، غیر مسلم ان کی حکمرانی کو سامنے رکھ کر اپنے اپنے ملک میں قوانین نافذ کررہے ہیں ، مگر افسوس کہ ہم بھول گئے کہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر میری حکمرانی میں دریائے فرات پر ایک کتا بھی بھوکا پیاسا مر گیا تو دن قیامت کے مجھ سے پوچھ گچھ ہوگی مگر فسوس کہ یہاں ایک کتا تو کیا کئی انسان برلب سڑک /چوراہوں /گندگی کے ڈھیروں پر پڑے بے گھر افراد روزانہ موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں ،کئی اپاہج روزانہ سڑکوں پر کیڑوں کی طرح رینگ کر چلتے دیکھے جاتے ہیں ، مگر یہ حکمران اللہ کو جواب دہ ہونے کی بجائے اپنے وقتی حاکموں کو خوش کرنے میں مصروف ہیں۔

معمول۔۔۔ استاد جی ! آپ نے درست فرمایا ہے کہ یہاں ہر کوئی حکمرانی کرنے کا خواہشمند ہے اور کربھی رہاہے مگر افسوس کہ انہیں حق حکمرانی نہیں آتا ، یہاں صرف اور صرف افواج پاکستان اور قوم ہی دو ایسے طبقے ہیں جو کہ اس ملک کے تحفظ اور اسکی آبیاری میں لگے ہوئے ہیں ، باقی دو فیصد حکمرانوں نے 98فیصد عوام کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے ،نہ جانے انہیں کب حضرت عمر فاروق کا دور خلافت سمجھ میں آئے گا ؟ افواج پاکستان کے شہیدوں ، غازیوں کو سلام۔پاکستان زندہ باد۔۔۔۔۔افواج پاکستان پائندہ باد (انشاء اللہ پھر ملیں گے)۔

Riaz mughal

Riaz mughal

تحریر: ریاض احمد مغل