اولاد پر نظر رکھیں اور ایسے تربیت کریں

Children Education Training

Children Education Training

تحریر : افضال احمد
یہ بات طے ہے کہ سیکولر اور لبرل طبقات بچوں کی جنسی تعلیم کے نام پر جو کچھ کر رہے ہیں وہ مزید سنگین مسائل کا سبب بن رہا ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ نو عمر یا بلوغ کے قریب پہنچنے والے بچوں کو غیر محسوس اور فطری طریقے سے خود ماں باپ یا قریب ترین بزرگ اعزہ کے ذریعے ان کے وجود میں ہونے والی فطری تبدیلیوں اور متعلقہ نئے مسائل سے برقت آگاہ کیا جائے۔ اگر انہیں گھر سے یہ معلومات مناسب طریقے سے نہ ملیں گی تو لازماً وہ باہر یہ معلومات حاصل کر لیں گے جس میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ مزید فتنوں کا سبب بن جائے۔ ہمارے گھروں کے بزرگوں کی اکثریت آج نوجوان نسل میں بڑھتی بے راہ روی سے پریشان ہے مگر نہیں جانتی کہ کیا کرے کیونکہ انگریز نے ہم مسلمانوں کو تعلیمی ڈگریاں ہی ایسی پیدا کر دی ہیں کہ ہم پڑھتے پڑھتے بوڑھے ہو جاتے ہیں پھر جا کر کہیں شادی کرتے ہیں۔ شادی وقت پر نہیں ہو گی تو نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار تو ضرور ہو گی اور ہو بھی ایسا ہی رہا ہے گھر سے نوجوان نسل تعلیم حاصل کرنے جاتی ہے اور آگے جا کر پتہ نہیں کیا کچھ کرتے ہیں ۔خیر میں اپنی اس تحریر کے پوائنٹ پر آتا ہوں۔

بچوں کو زیادہ وقت تنہا نہ رہنے دیں آج کل بچوں کو الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولتیں دے کر ہم بالعموم ان سے غافل ہو جاتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہمیں چاہئے کہ غیر محسوس طریقے سے اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور خاص کر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کرکے نہ بیٹھنے دیں کیونکہ تنہائی شیطانی خیالات کو جنم دیتی ہے جس سے بچوں میں منفی خیالات پیدا ہو سکتے ہیں اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ بچوں کے دوستوں اور بچیوں سے ہے یہ بات ہمہ وقت ذہن میں رکھیں کہ والدین بننا فُل ٹائم جاب ہے پارٹ ٹائم نہیں۔ ماں اور باپ خود اپنے بچوں کے سب سے اچھے دوست اور رازدار بنیں تا کہ وہ آپ سے اپنی اچھی یا بری بات نہ چھپائیں اور سزا کے خوف کے بغیر وہ اپنی باتیں اپنے ماں یا باپ سے شیئر کر سکیں اگر وہ آپ سے اپنی کوئی ایسی بات بتائیں جو اخلاقاً درست نہ ہو تو ایسا رویہ نہ اختیار کریں کہ پھر وہ کبھی آپ سے اپنی کوئی بات نہیں بتائے گا۔

ماں اور باپ کو چاہئے کہ وہ ایک ڈاکٹر یا ماہر نفسیات تعلیمی جیسا رویہ اختیار کریں جن سے بالعموم بچے کچھ نہیں چھپاتے کیونکہ انہیں ان سے فوری طور پر کسی ڈانٹ پھٹکار یا سزا کا خوف نہیں ہوتا۔ اپنے بچوں اور بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے نہ بیٹھنے دیں۔ اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے ہی میں رہنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے غیر محسوس طریقے سے گاہے بگاہے اسے چک کرتے رہیں۔ بچوں کو خالی نہ رہنے دیں کوشش کریں کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی صحت مند اور مفید سرگرمیں میں مشغول رہیں۔ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے اور بچوں کا ذہن کورا کاغذ۔ ٹی وی ، موبائل اور ویڈیو گیمز وقت گزاری کے مشغلے کم اور بچوں کو بے حس ، متشدد بنانے کے ذمہ دار زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت اور دوڑ بھاگ زیادہ ہو وہی بچوں کے لئے بہترین ہوتے ہیں تا کہ کھیل میں تھک جائے اور پھر خوب گہری نیند سو جائے۔ رزق کی کمی کے خوف سے پیدائش سے پہلے ہی بچوں کو دنیا میں آنے سے روکنا اور پیدائش سے پہلے انہیں قتل کر دینا ہی صرف قتل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ پیدائش کے بعد اولاد کی ناقص تربیت اور انہیں ملازموں کے حوالے کرکے اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کر دینا بھی ان کے قتل کے برابر ہے کیونکہ اس طرح بہت ممکن ہے کہ آپ انہیں جنت کے پھول کے بجائے جہنم کا ایندھن بنا دیں۔

Children Offering Prayer

Children Offering Prayer

اپنے بچوں کو نماز کی عملی تاکید کریں یعنی خود بھی وقت سے نماز پڑھیں اور اپنے ساتھ بچوں کو بھی ہر وقت پاک و پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی قلب و روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے ۔ بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو اوندھا لیٹنے سے منع کریں ان دو طریقوں سے لیٹنے میں سفلی خیالات کی یلغار کا اندیشہ رہتا ہے بچوں کو داہنی کروٹ لیٹنے کی مسنون عادت ڈالیں اور خود بھی دائیں کروٹ ہی لیٹیں تا کہ بچہ آپ کو بھی ویسا کرتا ہوا دیکھے جیسا آپ اس سے توقع کرتے ہیں۔ بلوغت کے نزدیک بچے جب واش روم میں معمول سے زیادہ وقت لگائیں تو نظر انداز نہ کریں یہ خطرے کی علامت ہے انہیں نرمی سے سمجھائیں باپ اپنے بیٹے کو اور مائیں اپنی بچیوں کو دوستوں کی طرح انہیں ان کے اچھے برے سے باخبر کریں۔خود بچوں کو بھی بچپن ہی سے اس کا عادی بنائیں کہ وہ اپنے مخصوص اعضاء کو بلا وجہ نہ چھوئیں اگر روکا نہ جائے تو بظاہر بے ضرر سی یہ عادت بلوغت کے نزدیک یا بعد میں اخلاقی گراوٹ یا دوسری بے راہ رویوں کا سبب بن سکتی ہے۔ پانچ چھ سال کی عمر سے بچوں کا بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں تا کہ ان کی معصومیت تادیر قائم رہ سکے۔ بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چک کرتے رہیں آپ کے علم میں ہونا چاہئے کہ آپ کے بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے بھری ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ آج پرائیویسی نام کا عفریت نئی تہذیب نے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہم پر مسلط کر دیا ہے اس سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ نوعمر بچوں کی نگرانی و نگہداشت والدین ہی کی ذمہ داری ہے۔ یاد رکھیں آپ بچوں کے ماں باپ ہیں بچے آپ کے ماں نہیں۔ آج میڈیا انٹرنیٹ اور بالخصوص ویڈیو گیمز اور کارٹون فلموں کے ذریعے والدین کا مقام اور اہمیت بچوں کی نظروں میں کم کرنے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے اور عجیب عجیب کارٹونز کے ذریعے بچوں کو دین سے دور کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کے دلوں میں اپنی محبت اور مشفقانہ عمل سے اپنی خیر خواہی کا احساس اجاگر کرنا چاہئے اور نوبلوغت کے عرصے میں ان میں رونما ہونے والی فطری جسمانی تبدیلیوں کے متعلق رہنمائی کرتے رہنا چاہئے تا کہ وہ گھر کے باہر سے حاصل ہونے والی غیر اخلاقی معلومات پر عمل کرکے اپنی زندگی میں ہمیشہ کے لئے کوئی زہر نہ گھول لیں۔

بچوں کو بستر پر اسی وقت جانے دیں جب خوب نیند آرہی ہو اور جب وہ نیند سے جاگیں تو انہیں بستر پر بلا وجہ نہ پڑا رہنے دیں۔ والدین اپنے چھوٹے بچوں کے سامنے بھی ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی سے پرہیز کریں ورنہ بچے وقت سے پہلے ہی ان باتوں کے تعلق سے زیادہ باشعور ہو جائیں گے جن سے ایک مناسب عمر میں جا کر ہی آگاہی حاصل ہونی چاہئے۔ والدین اپنے بچوں کو ان کی غلطیوں پر سرزنش کرتے ہوئے بھی مہذب اور با حیا الفاظ کا استعمال کریں ورنہ ماں باپ کے منہ سے نکلی گندی گالیاں سن کر بچوں میں بے باکی اور سرکشی آجاتی ہے جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ بچے تیرہ چودہ سال کے ہوں تو لڑکوں کو ان کے والد اور لڑکیوں کو ان کی والدہ قرآن کو تفسیر کے ساتھ پڑھائیں اور سمجھائیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے زنا سے کس طرح منع فرمایا ہے اور زنا بالرضا کی کیسی سخت سزا رکھی ہے اس طرح بچے انشاء اللہ اپنی پاکدامنی کو معمولی چیز نہیں سمجھیں گے اور اپنی عفت و عصمت کی خوب حفاظت کریں گے۔

Teach Child

Teach Child

والدین اپنے پیارے اور محبوب از جان بچوں کے دلوں میں بچپن ہی سے یہ بٹھا دیں کہ ہم اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی محدود کردہ حدود کی پابندی کریں۔جب بھی کسی سلجھے ہوئے خوشحال نوجوان کو دیکھتا ہوں تو یقین ہو جاتا ہے کہ ضرور اس کا باپ صالح اور نیکو کار ہو گا باپ اگر نیک ہو تو اس کا فائدہ دنیا ہی میں اس کی اولاد کو ہونے لگتا ہے میرے ایک شادی شدہ دوست ہیں کہتے ہیں مجھے جب بھی نماز یا نوافل کی ادائیگی میں سستی اور کاہلی ہونے لگتی ہے تو مجھے ڈر لگنے لگتا ہے کہ کہیں یہ میری اولاد کی پریشانیوں کا سبب نہ بن جائے باپ اگر نیک ہو تو اس کا فائدہ اس کی اولاد کو بھی ہوتا ہے۔ میرے ایک جاننے والے ہیں وہ روزانہ کم از کم ایک یا دو گھنٹے فلاحی کاموں میں صرف کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کے پانچ بچے ہیں انہیں بے راہ روی سے بچانے کے لئے ہی اس نے اپنی زندگی کا ایک حصہ فلاحی و رفاہی کاموں کے لئے وقف کر رکھا ہے اور میں اس کے بہترین اثرات اپنے بچوں میں بھی دیکھ رہا ہوں۔

اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد نیک صالح اور فرمانبردار ہو تو آپ بھی اپنی زندگی کا ایک حصہ فلاحی کاموں کے لئے وقف کر دیں اس لئے اللہ تعالیٰ بھی اپنے اس بندے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا جو اس کے دوسرے محتاج بندوں کی مدد میں لگا رہتا ہے۔ اللہ نے کتنے پیار سے انسان کو بنایا ہے تو جب آپ کسی انسان کے کام آئیں گے تو اللہ تعالیٰ کتنا خوش ہوں گے؟ لیکن آج ہم اپنے امداد غلط لوگوں کو دیتے ہیں تحفے تحائف ان لوگوں کو دیتے ہیں جو مستحق نہیں بھکاریوں کو ہم دنیا کا سب سے زیادہ غریب انسان تصور کرتے ہیں جب کہ ہم سب کے دل گواہی دیتے ہیں کہ یہ بھکاری روز ہم سے مانگتا ہے یہ دھوکہ دے رہا ہے ہمیں بھی اور خود کو بھی۔

اپنے ارد گرد دیکھیں کسی کو دوائی چاہئے، کسی کو راشن چاہئے، کسی کو کپڑے چاہئیں یہ سب خود دیکھیں بھائی اللہ کی قسم آپ ایک انسان کو اچانک خوش کر کے دیکھو تمہیں اللہ تعالیٰ خوش کر دے گا۔ آج کل کے مخیر حضرات سے گزارش ہے کہ اپنے پیسوں کو غلط لوگوں کو دے کر ضائع مت کریںیاد رکھیں جو بندہ صحیح مستحق ہے وہ کبھی ہاتھ نہیں پھیلاتا اور موت کو ضرور گلے لگا لیتا ہے ۔ ناقص علم ہے لکھنے میں غلتی ہوئی ہو اصلاح کریں معذرت سے اجازت چاہتا ہوں آج اتنے دن بعد کالم لکھا میں ذرا روزگار کی طرف سے پریشان ہوں ۔میں تو چاہتا ہوں کوئی چھوٹا سا دفتر بنا لوں لوگوں کو حقیقی معنوں میں زندگی جینا سیکھائوں لیکن میں کوئی اداکار، کرکٹر، سپر سٹار تو ہوں نہیں جو لوگ میرا ساتھ دیں بس دعا کر دیں یہی کافی ہو گا۔

Afzaal Ahmad

Afzaal Ahmad

تحریر : افضال احمد