مسیحیوں کو کن سے زیادہ نقصان پہنچا

Christians Protest

Christians Protest

تحریر : بدر سرحدی
مسیحیوں کو گلہ ہے کہ اکثریت انہیں وہ حقوق نہیں دیتی جن کا صبح شام ہر فورم پر اعلان کیا جاتا ہے ،بلکی انہیں تو سیاسی اچھوت بنا دیا گیا ہے ،نہ تو آج تک ہماری درست مردم شماری ہوئی اور نہ ہی ہمیں پارلیمنٹ میں نمائندگی کا حق دیا گیا ، یہ درست ہے کہ مسیحیوں کو اجتماعی اور انفرادی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جن کا ازالہ بہت مشکل ہے… مگر اِس ضمن میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ،یہ دنیا کا دستور ،آج ہی کا نہیں بلکہ ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے کہ ہر زمانے اور ملک میں اقلیت کو دبا کر رکھا گیا،….،دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ اکثریت سے یہ گلہ مناسب نہیں کہ اُس نے مسیحیوں کے آئینی حقوق غصپ کئے ہیں ،بلکہ یہ تو ہر زمانہ اور ملک میں اکثریت کی طرف سے ایسا ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا یہی تاریخی سچائی ہے لیکن اصل زمہ داروہ نام نہاد سیاسی لیڈر ہوتے جو اقلیتی لبادہ پہن کر ذاتی مفاد کی خاطر گاہے بگاہے جب موقع ملا آقاؤں کی خوشنودی اور مفاد کی خاطر قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتے ہیں ،ایسے برساتی لیڈروں کو پہچانیں ، یہ اس دھرتی کی پرانی کہانی ہے ،گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے،بھیدی،لنکا،یہ تفصیل پھر کبھی بیان کروں گا، سانحہ یوحنا آباد کے زخم ابھی تازہ بلکہ خون رس رہا ہے…..!

٢٣، اپریل شام چھ بجے ماسٹر جارج پال نے مذہبی ہمآہنگی کے حوالے سے ”ہیومن فرینڈز تنظیم کے پلیٹ فارم پر یوحنا آباد کے گرد و نواح کے اہم علماء کرام و اکابرین کی میٹنگ کا انعقاد سینٹ جان چرچ میںکیا ، جو کہ ایسے وقت میں با دِنسیم کا ٹھنڈا جھونکا تھا، میٹنگ شروع ہونے سے قبل مولانا محمد الدین گجو متہ کے امام مسجد نے قرآن پاک کی تلاوت کی،اور پھر پادری قاسم بخش نے دعا کی گلیکسو ٹاؤن کے محمد امداد اللہ قادری نعیمی ناظم اعلےٰ و خطیب جامعیہ اشرف الجمال ……. مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے انتہائی خوبصورت انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ، سامعین نے پر جوش انداز میں تالیا ں بجا کر داد دیتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا ….. شاہی مسجد کے امام سے،مولانا جنا ب طاہر اشرفی،یا منہاج القران کے اکابرین سے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ وء وسیع القلب و ذہن کے لوگ ہیں مگر ایک دہاتی ماحول کی مسجد کے امام سے ایسے سلجھے اور روا داری کے خیالات کی توقع نہیں ہو سکتی ،

مگر قابل ستائش ہیں کہ انہوں تدبر سے عوام کو کنٹرول کیا اور، ١٥،مارچ یا ١٦ ،ماچ کو زرہ سی لغزش ہو جاتی تو یہ وہ آگ لگ جاتی کہ پھر بجھائے نہ بجھتی اور یہی جنگجو تنظیموں کا ایجنڈا ہے وہ پوری دنیا میں یہ آگ لگانا چاہتے ہیں ،اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ اُ س نے اُن کی ناپاک سازش کو ناکام کر دیا ِ، ایسے ہی خیالات کا اظہارحاجی دی کھوئی کے امام مسجد جناب قاری گُل محمد نے کیا اور …… مسجد ابراہیم فیروز پور روڈ سے آئے جناب مولانا مفتی مقصود احمد نے کیا . جناب حسن رضا قادری جامعہ مسجد غوثیہ نشتر کالونی.. .دولو خورد کے امام مسجد ،اور دیگر آئے آئمہ کرام نے ایسے ہی شہد ملے خیالات کا اظہار کیا ،یہ بھی خوبصورت منظر تھا جب مغرب کی نماز کا وقت ہوأ تو وہیںآئے ہوئے مہانوں نے نماز مغرب ا دا کی اور خوشی کا اظہار کیا، جناب مولانا امداد اللہ قادری نعیمی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا جب کبھی ایسی میٹنگ کا انعقاد کیا تو جامع کے دروازے کھلے ہونگے اور ہم خوش آمدید کہیں گے مجھے پہلی مرتبہ کسی ایسی میٹنگ کی کاروائی دیکھنے کا موقع ملا جو موقع محل کے مطابق بہت اچھی ،جو مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے حوالے سے ایک سنگ میل فعال میٹنگ تھی ….اشرنوید نے اچھے لفظوں میں مقررین کی تعریف کی…..

Police

Police

مگر طارق جاوید طارق نے اپنے آقاؤں کی بولی بوتے ہوئے کہا کہ،پولیس نے ہمارے ساتھ مکمل تعاون کیا کہ بیشتر بے گناہ پکڑے گئے چھوڑ دئے ، اور ہم نے پولیس کے ساتھ تعاون کیا اُسے فری ہینڈ دیا ،پکڑ دھکڑ میں رکاوٹ نہیں بنے ،…. مگر ،ان لوگوں نے جنہوں رٹوں کے زریعہ پولیس کو مجبور کیا کہ وہ اب دہشت گردی کی دفعات کے تحت چالان کرے(اور حبس بے جامیں رکھے گئے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دے )اور بے گناہوں کو بھی جیل میں ڈال دے، یہ صاحب وکیل ہیں اور سیاسی بھی آئندہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ پکی کرنے …. ،جانتے ہیں کہ قانون کے خلاف ہے کہ رات کے اندھرے میں ، شریف شہریوں کے گھر کی چار دیواری پھلانگ کربغیر وارنٹ کے گرفتار کرنا اور پھر مسلسل حبس بے جا میں رکھنا ، پھر بھی یہ کہنا کہ پولیس نے تعاون کیااِس کا کیا مطلب ہے ،یہاں دو حکمران جماعت کے ایم پی ایز تھے اگر ،،….!

جوزف فرانسس سے معلومات حاصل کیں تو کہ انہوں نے یہ رٹ کیو ںدائر کیں تو انہوں نے بتایا غریب لوگ میرے پاس آتے اور روتے ہوئے اپنی مشکل بیان کرتے کہ پولیس کسی کے بیٹے کسی کے بھائی کو اُٹھا کر لے گئی کچھ پتہ نہیں کہاں کس کونئیں پھینک دیا تو تب میں نے اس غیر قانون پکڑ دھکڑ کے خلاف رٹ دائر کی تھی حالانکہ تب تک تین صد سے زیادہ لوگ پولیس کی حراست میں تھے اور مزید گرفتاریاں جا ری تھیں ، اگر رٹ نہ ہو تی تو گرفتایاروں کا یہ سلسلہ جاری رہتا ………ایک اور مضحکہ خیز بریکنگ نیوز اے آر وائی چینل پر ٢٩ ،اپریل شام کو دکھائی گئی کہ یوحنا آباد کے میٹروں بس سٹیشن پر توڑ پھوڑ جوزف فرانسس کے عوام کو اکسانے پر ہوئی اُسی لمحے جب یہ خبر ان ائیر تھی مجھے لندن سے ظفر کا فون آیا ،پوچھا یہ خبر دیکھی ،میرے پاس تو ٹی وی نہیں تب ،اُس نے بتایا کہ یوحنا آباد میٹرو بس سٹیشن کی توڑ پھوڑ جوزف فرانسس نے کرائی ۔چونکہ وہ یہ خبر دیکھ رہا تھا اس لئے اس کا اسرار تھا ۔مگر میں دیکھ نہیں رہا لہذا میں یہ ماننے پر تیار نہ تھا… ،

اگلی صبح نٹ پر تمام اخبارات دیکھے مگر کہیں بھی یہ خبر نہ ملی، بعض دلچسپی رکھنے والوں سے معلوم کی کیا کسی دوسرے چینل پر بھی یہ خبر نشر ہوئی مگر جواب نفی میںصرف تھوڑی دیر تک یہ اے آر وائی پر دیکھی پھر غائب ہوگئی اگر تو یہ خبر درست ہوتی تو پھر اس کا سراغ ملتا مگر.. …….!! جوزف فرانسس کی رٹ پر جس میں تین لا پتہ افراد کا زکر تھا ،عدالت میں پولیس کا موقف تھا کہ ایک مفرور ہے اور دو پولیس کے پاس نہیں ، معزز عدالت نے حکم دیا کے متعلقع پولیس حکام کے خلا ف پرچہ درج کر کے انہیں گرفتا کیا جائے،یہاں سے ہل چل مچ گئی

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر : بدر سرحدی