سی آئی اے کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان؟

CIA

CIA

تحریر : سید توقیر زیدی
تیسری دنیا کا کوئی ملک یا اس کا کوئی ادارہ یہ بات کرتا تو ہنسی مذاق کا سبب بن جاتا لیکن امریکی سی آئی اے جیسے طاقتور ادارے نے اگر یہ الزام لگایا ہے کہ روس نے صدارتی انتخابات میں مداخلت کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوایا، تو اس سے خود سی آئی اے کی اپنی صلاحیتیں شکوک و شبہات کی زد میں آگئی ہیں اور ان پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ امریکی انتخابات 8 نومبر کو ہوئے تھے، اب ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے اس موقع پر یہ انکشاف دنیا کے دو بڑے اخباروں ”نیویارک ٹائمز” اور ”واشنگٹن پوسٹ” نے سی آئی اے کے حوالے سے کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو اس کا یہ جواب دے دیا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ صدام حسین کے پاس تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، جن کی بنیاد پر امریکہ، برطانیہ اور ان کے اتحادیوں نے مل کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن یہ ہتھیار کہیں سے نہ ملے۔

برطانیہ میں تو چلکوٹ کمیشن نے کئی سال کی تحقیقات کے بعد یہ نتیجہ نکالا تھا کہ عراق کے پاس ہتھیار نہیں تھے اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے جو خود کو بش کا پوڈل کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے اس غلط اور گمراہ کن اطلاع پر برطانوی قوم سے معذرت کی تھی۔ معلوم نہیں اتنا بڑا جھوٹ بولنے والے امریکی صدر نے بھی کسی معذرت کی ضرورت محسوس کی یا نہیں، لیکن اب منتخب صدر نے یہ کہہ کر واضح کردیا ہے کہ سی آئی اے بھی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا افسانہ تراشنے میں شریک تھی اور اس کا مقصد عراق پر حملے کی راہ ہموار کرنا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ اگر اب سی آئی اے کو اس جھوٹ میں ملوث قرار دیتے ہیں تو عہدہ سنبھالنے کے بعد انہیں اس سلسلے میں پیش رفت کرنا ہوگی کیونکہ وہ امریکہ کو دنیا کے مختلف حصوں میں جنگوں میں الجھنے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کے صدر اوبامہ نے اگرچہ اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے تاہم ان کے اقتدار میں اب پانچ ہفتے کی مدت باقی رہ گئی ہے اس لئے معلوم نہیں ان کے بعد اس تحقیقات کا کیا حشر ہوتا ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات بہت سے امور پر صدر اوبامہ سے متصادم ہیں۔

Democracy

Democracy

دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں الیکشن ہوتے ہیں، جیتنے والوں پر الزام بھی لگتے ہیں لیکن حیرت ہے امریکی سی آئی اے ٹرمپ کی کامیابی کا تمام تر سہرا روس کے سر باندھنے کی جو کوشش کر رہی ہے آخر اس کا کیا مقصد ہے؟ یہ تو عین ممکن ہے کہ ٹرمپ کے خیالات کی وجہ سے روس یہ چاہتا ہو کہ وہ صدر منتخب ہو جائیں لیکن عملاً تو وہ ٹرمپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا کہ امریکہ میں ووٹنگ کا سسٹم بہت مضبوط ہے اور روس کسی امیدوار کیلئے جیت کی خواہش سے زیادہ عملاً کوئی اقدام نہیں کرسکتا۔ روسی حکومت کے ترجمان نے بھی وضاحت کردی ہے کہ امریکی سی آئی اے کے اس الزام میں کوئی صداقت نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی سی آئی اے اس طرح کی بات کرکے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟ کیا ٹرمپ کی صدارت کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالنا مقصود ہے؟ بظاہر تو نہیں لگتا کہ امریکہ جیسے ملک میں چند روزہ مظاہرے تو ممکن ہیں اور منتخب صدر ٹرمپ کے خلاف ایسا ہوا بھی لیکن پاکستان سٹائل کے دھرنے وہاں ممکن نہیں تو آخر اس انکشاف کا مقصد کیا ہے؟۔

کیا سی آئی اے اپنے ملک کے آنے والے صدر کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنے دور میں روس کیلئے کوئی نرم گوشہ اپنی حکومت کے دل میں پیدا نہ ہونے دے؟ دراصل ٹرمپ کے بارے میں ساری دنیا کے تجزیہ نگاروں کے اندازے چونکہ غلط ثابت ہوگئے ہیں کیونکہ ہر کوئی ہیلری کلنٹن کی کامیابی کی امید لگائے بیٹھا تھا، رائے عامہ کے جائزے بھی ایسی ہی پیشن گوئیاں کر رہے تھے۔ چونکہ یہ جائزے خاصے سائنٹفک ہوتے ہیں اس لئے ان پر عموماً لوگ یقین کرلیتے ہیں۔ جب نتیجہ اس جائزہ کے برعکس آیا تو پھر ان وجوہ کو تلاش کیا جانے لگا جو اس نتیجے کا باعث بنیں۔ اندرون ملک تو ڈونلڈ ٹرمپ کے ووٹر پہلے سے ان کی کامیابی کی امید لگائے بیٹھے تھے، انہیں تو ان کی کامیابی پر کوئی حیرت بھی نہیں ہوئی تھی اس لئے مخالفوں کی جانب سے ڈرامائی جیت کی وجوہ بیرون ملک تلاش کی گئیں چونکہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے ایسے بیانات دیئے تھے جن سے روس کیلئے ان کے سافٹ کارنر کا اظہار ہوتا تھا۔

اس لئے سی آئی اے اب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ روس نے ٹرمپ کو جتوانے کیلئے ضرور کوئی حرکت کی تھی اس طرح تو سی آئی اے نے یہ عندیہ دیدیا ہے کہ امریکہ میں کچھ بھی محفوظ نہیں۔ روس اگر ری پبلکن پارٹی کی نیشنل کمیٹی کی کانفرنس اور اس کا کمپیوٹر سسٹم ہیک کرسکتا ہے تو وہ اس کے انتہائی حساس دفاعی نظام کو ہیک کیوں نہیں کرسکتا۔ امریکی سی آئی اے دنیا بھر میں دوسرے ملکوں کے بارے میں حساس معلومات حاصل کرنے کیلئے معروف ہے، اب اس کے اپنے ملک کی معلومات میں روس نے نقب لگائی ہے تو یہ اس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھال کر اس ادارے کی اوور ہالنگ ضرور کرنا چاہیں گے۔

Syed Tauqeer Zaidi

Syed Tauqeer Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی