مجھے کیوں نکالا گیا

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : رشید احمد نعیم، پتوکی
ایک دفعہ دین و دنیا سے بے خبرایک پیر صاحب اپنے حلقہِ مریدان میں بیان فرمارہے تھے کہ عورت کے ایک ایک بال کے نیچے بیس بیس مکاریاں چھپی ہوتی ہیں ۔وہاں پرایک دیہاتی کسان بیٹھاپیر صاحب کی باتیں سن رہاتھااوروہ جیسے ہی گھرآیااس نے اپنی بیوی کو سرسے گنجاکردیاحالانکہ اس کی بیوی کوئی اوپٹ پٹانگ فرمائشیں بھی نہیں کرتی تھی۔ایک نیک اورفرشتہ صفت خاتون تھی۔بیوی کوبہت دکھ ہوااورشوہرسے پوچھاآپ نے ایساکیوں کیاہے توشوہربولاکہ ‘‘ایک پیر صاحب نے بتایا ہے کہ عورت کے ایک ایک بال کے نیچے بیس بیس مکاریاں چھپی ہوتی ہیں اورمیں نے سوچاکہ تمہاری مکاریاں ختم کردیتاہوں‘‘ عورت بہت مایوس ہوئی اوراپنے دل میں سوچاکہ اس بے وقوف کواصل مکاری اب دکھانی پڑے گی اورپھراس نے شوہرسے بدلہ لینے کی ٹھان لی لہٰذاعورت اگلے دن بازارگئی اوربازارسے کچھ مچھلیاں خریدکراس نے اپنے کھیتوں میں چھپادیں اورایک چھوٹی سی مچھلی کودھاگاباندھ کراپنے گریبان میں چھپالیااورپھروہ اپنے گھرواپس آگئی۔

شوہرجب کھیتوں میں کام کرنے گیااوراس نے کھیتوں میں کام کرناشروع کیاتواسے جگہ جگہ سے مچھلیاں ملناشروع ہوگئیں وہ کسان بہت خوش ہوااس نے مچھلیاں تھیلی میں ڈالیں اورگھرآکربیوی کودے دیں اورکہاکہ آج مچھلیاں پکائیں گے۔بیوی نے کہاکہ مچھلیاں آج آپ کواس ٹائم کہاں سے مل گئیں توشوہرنے کہاکہ کھیتوں سے ملی ہیں بیوی نے وہ مچھلیاں لے کرکہیں چھپادیں اورگھرکے دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئی شام کوجب شوہرگھرآیاتواس نے بیوی سے کہاکہ کھانالے آؤبیوی نے کہاکہ گھرمیں کچھ پکانے کونہیں ہے کھاناکہاں سے لاؤں ؟شوہرنے غصے سے کہاکہ جومچھلیاں میں لایاتھاوہ کہاں ہیں؟ بیوی بولی کونسی مچھلیاں؟ کیسی مچھلیاں؟ شوہرنے کہاکہ جومیں کھیتوں سے پکڑ کرلایاتھا۔بیوی بولی تمہارادماغ توخراب نہیں ہوگیا؟پھربیوی نے اس کے بھائیوں کو پیغام بھیجاکہ جلدی آؤمیراشوہرپاگل ہوگیاہے جب اس کے بھائی آئے اورپوچھاکہ کیاہواہے؟ تووہ عورت بو لی کہ کل سے عجیب عجیب حرکتیں کررہاہے پہلے تومیراسرگنجاکردیاخیریہ توکوئی بات نہیں میں سہہ لوں گی اب یہ کہہ رہاہے کہ مچھلی پکاؤمیں کہاں سے اسے مچھلیاں پکاکردوں ؟اس کاشوہربیوی کومارنے کے لیے لپکاتواس کے بھائیوں نے اسے پکڑلیاشوہرنے کہاکہ یہ جھوٹ بول رہی ہے بیوی نے کہاکہ اگرمیں جھوٹ بول رہی ہوں تواس سے یہ پوچھیں کہ مچھلیاں کہاں سے آئی ہیں؟

وہ بولامیں اپنے کھیتوں سے پکڑ کرلایاتھا۔بیوی کہنے لگی سن لواب کھیتوں میں مچھلیاں کہاں سے آئیں؟شوہربیوی کومارنے کے لیے آگے بڑھاتواس کے بھائیوں نے اسے پکڑ کرکرسی سے باندھ دیا۔پھربیوی نے چپکے سے گریبان سے مچھلی نکالی اوراس کودکھاکرجلدی سے گریبان میں چھپالی شوہرچیخ کربولاوہ دیکھومچھلی توبیوی بولی کہ دیکھواسے پاگل پن کادورہ پڑ رہاہے۔وہ تھوڑی تھوڑی دیرکے بعدمچھلی مچھلی کرنے لگاجواس کی بیوی اس کودکھارہی تھی بھائیوں کویقین ہوگیاکہ یہ بالکل پاگل ہوگیاہے اوروہ ڈاکٹرکولینے چلے گئے کچھ ایسا ہی حال آج کل نواز شریف کا ہو چکا ہے ۔ آئین و قانون سے نابلد، عقل و شعور سے پیدل اور صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے پجاری چند درباری وزراء کی غلط سلط باتوں میں آکر قانونی موشوگافیوں کو سمجھ نہ پائے اور پانامہ لیکس کو قانونی تناظر میں دیکھنے کی بجائے اپنے اس خوشامدی ٹولے کی چکنی چپٹی باتوں کو سامنے رکھ کردیکھتے رہے جس کے نتیجے میں’’ سر پر نااہلی کا تاج سجائے‘‘ انہیں وزیر اعظم ہاوس سے گھر کا سفر طے کرنا پڑا۔اس مقام پر کوئی بھی ذی شعور آدمی ہوتا تو سب سے پہلے اس درباری ٹولے کو اپنی آنکھوں سے دور کرتا مگر میاں صاحب ٹھہرے کانوں کے کچے ۔۔۔ اور خوشامدی الفاظ کے رسیا ۔۔۔ ایک بار پھر اس’’ جی حضوری ٹولے‘‘ کے ہتھے چڑہ کرقانون سے پنگا لے بیٹھے اور نکل آے جی ٹی روڈ پر ۔۔ اور پھر جس طرح نااہلی کا رونا روتے رہے اور جو الفاظ پاکستان کی عظیم عدلیہ کے بارے میں استعمال کرتے رہے اس کے باعث ان کو توہین عدالت کاپروانہ جاری ہو چکا ہے۔

راقم الحروف کی یہ سطور جب آپ کی نظروں سے گزر رہی ہوں گی تو نااہل وزیر اعظم میاں نواز شریف نیب کورٹس کے دروازے پر بھی کھڑے ہوئے نظر آہیں گے ۔ان جاہل ، نااہل چمچوں کڑچھوں اور’’ نیم حکیم خطرہِ جان‘‘ کے مصداق قانونی اور سیاسی و زمینی حقائق کے ا دراک سے نا آشنا مشیروں کے مشورے میں آکر ’’مجھے کیوں نکالا گیا؟؟؟‘‘ اس تواتر سے بولتے رہے کہ یہی فقرہ آج ان کی چڑ بن گیا ہے۔ عام تقریبات ہوں یا سیاسی اجتماعات، نجی محافل ہوں یا سوشل میڈیا ۔۔۔ ان کے اس فقرے کا خوب مذاق اڑایا جا رہا ہے اور میاں صاحب اس صورتِ حال کو دیکھ دیکھ کر مذید بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔لگتا ہے وہ وقت دور نہیں جب میاں صاحب ہر وقت ہر بات پر صرف ایک ہی فقرہ بولتے نظر آہیں گے کہ’’ مجھے نکالا کیوں گیا؟؟؟‘‘ جب انسان کی ذہنی حالت اس مقام پر پہنچ جائے تو میڈیکل زبان میں اسے کیا کہتے ہیں ؟ آپ سمجھ تو گئے ہی ہوں گے۔

Rasheed Ahmad Naeem

Rasheed Ahmad Naeem

تحریر : رشید احمد نعیم، پتوکی