شہرِ امن اور سیاسی اجارہ داریاں

Poor People

Poor People

تحریر : عتیق الرحمٰن
عمومی طور پر پورے پاکستان میں عوام کی حالت زار سدھرنے کا نام نہیں لے رہی اور ان کے مسائل جوں کے توں ہیں اور عوام کا موجودہ جمہوری نظام سے اعتماد اٹھتاجا رہا ہے، لیکن اربن سندھ بالخصوص کراچی بہتری کی جگہ ابتری اور تنزلی کی طرف جا رہا ہے- شہری سندھ کے مسائل وہاں کی اقتصادی اہمیت، کراچی کے سی پورٹ ہونےاور مختلف قومیتوں کی بڑی تعداد میں یہاں بسنے کی وجہ سے پاکستان کے دیگر شہروں سے مختلف ہیں- کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بہت سے ممالک سے بڑا ہے یہ وہی شہر ہے جو ایک وقت میں دنیا کے خوبصورت شہروں میں شمار ہوتا تھا لیکن اب مسائلستان کا منظر پیش کررہا ہے-

کوٹا سسٹم کے سبب کراچی اور حیدرآباد کی مقامی عوام کو آبادی کے تناسب سے سرکاری اداروں میں ملازمت، اور کالجوں و یونیورسٹیوں میں داخلے کی کمی تھی جس نے ان میں احساس محرومی پیدا کیا جسے اس وقت کی سیاسی جماعتوں جو شہری سندھ کی نمائندگی کرتی تھیں حل نہ کر سکیں اور نہ ہی ان جماعتوں نے اس مسئلہ کو اہمیت دی بلکہ یہ کہا جائے کہ وہ خود ان مسائل کی ذمہ دار تھے تو بےجا نا ہوگا- ایسے حالات میں سندھ کے اردو بولنے والی عوام کو اپنی آواز اٹھانے اور مسائل کے حل کے لیے ایک نئی جماعت کی کمی کا احساس پیدا ہوا۔ چونکہ احساس محرومی پہلے کالج اور یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے نوجوانوں میں پیدا ہوا تھا اس لیے ایک نئی آواز بھی وہی سے اٹھی اور1978 میں APMSO کا قیام عمل میں آیا اور اسلامی جمعیت طلبہ کی تعلیمی اداروں میں اجارہ داری اور حاکمیت کو چیلنج کرنے کے لئے ایک نئے پلیٹ فورم کو وجود دیا گیا- کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایک نا رکنے والی جنگ کا آغاز ہو گیا- سٹوڈنٹس تنظیم کالجوں سے نکل کر عملی سیاست میں آئی اور 1984 میں مہاجر قومی مومنٹ کا قیام عمل میں آیا- ضیاءالحق دور میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن اور 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں ایم کیو ایم نے کامیابی حاصل کی اگرچہ کچھ لوگوں کو اس کامیابی کے پیچھے ضیاءالحق کی پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی ضرورت نظر آتی ہے لیکن درحقیقت مہاجر قومی مومنٹ کی کامیابی کے پیچھے سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں (پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے پاکستان) سے عوام کی بیزاری، ان جماعتوں کی ناکامی اور وہاں کی عوام کے مسائل کا زیادہ عمل دخل ہے-

مہاجر قومی مومنٹ کے قیام سے کراچی اور حیدرآباد کی عوام کو اپنی آواز اٹھانے اور مسائل کے حل کا موقعہ ملا اور آنے والے تمام ا انتخابات میں ایم کیو ایم بلا شرکت غیرے اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت بنی اور سندھ کے شہری علاقوں نے انہیں بار بار منتخب کیا- ایم کیو ایم اپنی تنظیمی ساخت و نظم میں دوسری جماعتوں سے منفرد تھی اور یونٹ لیول تک جماعتی نیٹ ورک بہت مضبوط اور مربوط تھا- ایم کیو ایم کی ایک اور انفرادیت اسے دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتی تھی کہ اس نے اپنے کارکنوں کو جوکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اسمبلی تک پہنچایا اور سیٹوں کی تقسیم پارٹی اور الطاف حسین صاحب سے وفاداری کی بنیاد پر دی جاتی تھیں-

جہاں ایم کیو ایم نے پاکستانی سیاست میں بہت سی اچھی روایات کو جنم دیا وہاں پاکستانی سیاست میں بھتہ، گینگ وار، جلاؤ گھراؤ، لینڈ گریبنگ، خوف و حراس، زور زبردستی اور ہڑتال بھی ایم کیو ایم کے پیدا یا دوام دیے ہوئے تحفے ہیں- طاقت کا ارتکاز اور بلا شرکت غیرے حق نمائندگی نے ایم کیو ایم کو اپنی منزل سے کوسوں دور کردیا- اوپری سطح پر پارٹی کی فعال باڈی نہیں بنائی گئی اور تمام اختیارات ایک شخص میں مرتکز ہو کر رہ گئے یا کر دیے گئے- ایک ڈھیلی ڈھالی رابطہ کمیٹی بنائی جاتی جو کہ الطاف حسین صاحب کے ایک خطاب کی مار تھی، کسی لیڈر کے کمیٹی میں شامل ہونے یا نکالنے کا فیصلہ فرد واحد اپنی تقریر میں کرتا اور دوسرے روز اسے واپس بھی لے لیتا- نہ کارکنوں اور دوسرے لیڈرز کی کوئی رائے تھی اور نہ ہی اس کی گنجائش- جہاں دوسری پارٹیاں اپنی اندر جمہوری اصولوں کے نہ ہونے اور فرد واحد میں اختیارات کے ارتکاز کی وجہ سے آمریت کی مثل ہیں اور وہاں معاشرہ کے پڑھے لکھے اچھی سوچ رکھنے والے طبقہ کے لیے کوئی جگہ نہیں، وہی عمل ایم کیو ایم میں بھی پایہ عروج پر پہنچا- جن وجوہات کی بنا پر اردو بولنے والے متوسط طبقے سے ایک تحریک اٹھی صد افسوس کہ وہ بھی اسی ڈگر پر چل نکلی- پارٹی کے باہر سے تنقید تو ابس بانی ارکان کو بھی صرف اس لیے راستہ سے ہٹایا گیا کہ وہ حاکمیت کو چیلنج نہ کر دے-

پارٹی لیڈرز کو کنٹرول کرنےاور مخالف آواز کو دبانے کے لیے لیے ایک علیحدہ متوازی باڈی بنائی گئی جس نے بعد میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، جلاؤ گھراؤ، لینڈ گریبنگ اور علاقوں کو کنٹرول کرنے کا کام انجام دیا- جو مقاصد دلوں پر حکمرانی سے حاصل کئے جا سکتے تھے وہ بندوق کی نوک پر حاصل نہیں کئے جا سکتے اور اس عمل کے نہایت بھیانک نتائج برآمد ہوئے- اردو بولنے والوں کو باقی تمام قومیتوں کا دشمن بنا دیا گیا حد یہ کہ اردو بولنے والے بھی اس آگ سے محفوظ نہیں رہے- شادی ہو یا گھر کی تعمیر، دوکان ہو یا کاروبار، پانی کے لیے بورنگ ہو یا گٹر لائن کے لئے کھدائی ہر موقعہ پر چند نوعمر جوان نہایت بدتمیزانہ انداز میں ایک حکم جاری کرتے کہ یہ یونٹ کی اجازت کے بغیر کیسے کیا جا رہا ہے فورا کام بند کرو اور یونٹ پر آؤں اور وہاں سے پرمیشن لو- عوام جہاں بہت سے سرکاری محکموں سے بیزار تھی وہاں رشوت اور خوف کا ایک اور امیدوار آگیا حد تو یہ ہے کہ شہری عوام قربانی کی کھال اور فطرانہ بھی اپنی مرضی سے نہیں دے سکتے اگر کوئی یہ جرات کرے تو ایک مشہور ڈائیلاگ سننے کو ملتا کہ “جانور کی کھال دینی ہے یا اپنی”- اور یہ سلسلہ یہاں نہیں روکا کراچی کی تمام سیا سی جماعتوں نے اس گنگا میں ہاتھ دھوئے اور اس عمل میں شامل ہوگئے پیپلز پارٹی، اے این پی، سنی تحریک، مہاجر قومی مومنٹ حقیقی اور دہشت گرد جماعتوں نے اس مقصد کے لیے اپنے کارندوں کو استعمال کیا اور کراچی کی عوام کی زندگی کو برسوں ایک کرب میں مبتلا رکھا اور آج بھی اس کے اثرات موجود ہیں-

وہ عوام جو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم چاہتی تھیں وہ مزید مسائل میں گرفتار ہو گئی- اور اس کے مسائل جوں کے توں ہیں- بلکہ ان میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے- ایم کیو ایم جو اردو بولنے والوں کے مسائل حل کرنے کے لئے اٹھی تھی وہ ہر حکومت میں شامل بھی رہی لیکن اپنا الو سیدھا کیا لیکن عوام محروم ہی رہی- نہ کوٹہ سسٹم ختم ہوا نہ تعلیمی اداروں میں داخلے ملے نہ گورنمنٹ اداروں میں جاب، بلکہ جو تھی وہ بھی گئی- کراچی جو پرامن اور آسودہ حال لوگوں کا شہر تھا وہ مفلسی کی داستان سنا رہا ہے- شہری مسائل تو اب ایک ازدھا کا روپ دھار چکے ہیں- وہ شہر جو خوبصورت تھا اب گندگی کا ڈھیر بن گیا ہے، نہ پانی ہے نہ سیوریج کا نظام نہ روڈ رہے نہ صفائی ستھرائی کا نظام بس ایک نہ رکنے والی قومیتوں کی جنگ شروع ہو ئی اور نفرت پروان چڑ رھی اور عوام جان و مال سے محروم ہو ئے-

وہ تحریک جو عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے متوسط طبقے سے اٹھی تھی وہ اپنی سمت کھو چکی اور کسی اور ہی طرف چل پڑی، ایم کیو ایم جسے شہری سندھ سے پاکستان کے تمام علاقوں تک جانا تھا اس نے نفرت کا ایسا ماحول پیدا کیا کہ کراچی کی دوسری قومیتوں سے لڑائی میں ہی الجھ گئی- اور اب تو ایم کیو ایم خود مختلف ڈھڑوں میں بٹ گئی ہےاور ہر گروپ دوسرے پر قتل و غارت گری کا الزام لگا رہا ہے یہ الزامات اگر کوئی دوسری جماعت، حکومت یا ایجنسیاں لگاتی تو اسے مہاجر دشمنی اور بغض کرار دیا جاتا لیکن اب ان الزامات سے ہم کیسے صرف پہلو کر سکتے ہیں- ایم کیو ایم شہری سندھ میں ایک حقیقت ہے اور اسے اندرونی مسائل حل کرکے اپنی سمت کا دوبارہ تعین کرنا ہوگا اور تنظیم کو جرائم میں ملوث عناصر سے پاک کرنا ہوگا-

پاکستان اور بلخصوص شہری سندہ 30-35 سال بعد ایک بار پھرنئے پولیٹیکل ڈیکٹرائن کی طرف جا رہا ہے اب عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک بار پھر دھوکہ کھاتے ہیں یا اپنے مسائل کے حل کے لیے فیصلہ کرتے ہیں- شہری سندھ سمیت پورے پاکستان کے مسائل کا حل اس نظام سے نجاد میں ہے جس نے عوام کو جکڑ رکھا ہے اور تمام اختیارات اور وسائل کو چند ہاتھوں میں مرتکز کردیا ہے- اگر ترقی کی طرف قدم بڑھانا ہے تو چھوٹے صوبائی یونٹ بنانے ہونگے اختیارات اور وسائل صوبے سے ضلع/شہر، تحصیل/ ٹاؤن اور یونٹ تک پہنچانے ہونگے- سیاست و حکومت اور عوام کی نمائندگی کا حق امراء، سرمایہ دار، غنڈے اور کرپٹ افراد کو نہیں بلکہ وہاں کی عوام میں سے پڑھے لکھے اچھی شہرت کے حامل افراد کو دینا ہوگا- کوٹہ سسٹم کا خاتمہ اور مزید تعلیمی ادارے بنانے ہونگے- ہر شہر کی ملازمت پر وہاں کی لوکل عوام کا زیادہ حق اور شئیر دینا ہوگا- شہری سندھ میں صفائی ستھرائی، پانی کی ترسیل و فراہمی، سیوریج، انفراسٹریکچر، ٹرانسپورٹ، بجلی اور گیس کے منصوبے بنانے ہوں گے- ایسا نظام لانا ہوگا جہاں قابلیت کی بنیاد پر لوگ حق نمائندگی حاصل کریں، سیاست میں پیسہ کا عمل دخل ختم ہو، سیاست متوسط عوام کے لیے شجر ممنوع نہ رہے، تمام ادارے آزاد اور خود مختار ہوں اور انصاف لینے اور ایف آئی آر کے اندراج کے لیے اسلام آباد میں مہینوں دھرنا نہ دینا پڑے- کرپٹ لوگوں کا راستہ روکنا ہوگا اور انہیں کیفرکردار تک پہنچانا ہوگا اور سسٹم میں ایسا فلٹر لگانا ہوگا کہ کرپٹ افراد، ڈاکو، قاتل اور غنڈے سیاست میں شامل نہ ہوں سکے- اگر ہم ایسے نظام کے لیے اٹھے تو ہمارے مسائل حل ہونگے ملک ترقی کرے گا اور عوام خوشحال ہوگی- اور اگر نظام یہی رہا اور چہرے تبدیل کئے تو عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا- فیصلہ اب آپ نے کرنا ہے-

ATIQ-UR-REHMAN

ATIQ-UR-REHMAN

تحریر : عتیق الرحمٰن
(مسقط، عمان)

ای میل: atique.rasheed@gmail.com

N.I.C: 42000-3763632-7
فون نمبر: 95087548-00968
0092-3312246141
:فیس بک آئی ڈی:
https://www.facebook.com/atiq.urrehman.9028194
ٹوئیٹر آئی ڈی
@AtiqRehmanPAT