ہم اسی شہر کے ستائے ہیں

Love

Love

تحریر: شہزاد حسین بھٹی
معروف ماہر نفسیات ولیم جیمز کا کہنا ہے کہ انسان کے ہر جذبے کے ساتھ ایک فعل وابستہ ہوتا ہے۔ وہ خوش ہو کر ہنستا ہے، وہ غصے میں آئے تو چیختا ہے، وہ محبت کرے تو بوسا لیتا ہے، وہ خوف ذدہ ہو تو بھاگتا ہے، وہ کامیاب ہو تو چھلانگیں لگاتا ہے اور تالیاں پیٹتا ہے اور بھوکا ہو تو ندیدہ پن ظاہر کرتا ہے۔

اسی ترتیب میں میں سمجھتا ہوں کہ جب انسان کے خیالات، احساسات، جذبات اور تخیلات ایک منظم صورت اختیار کرتے ہیں تو اس سے شاہکار مرتب ہوتے ہیں۔کبھی غزل کی صورت میں اور کبھی نظم کے لہجے میں جب وہ اپنا ماضی الضمیربیان کرتا ہے تو بہت سے ان کہے جذبے، ناقابل بیان حقائق اور انسان کے لاشعور میں پوشیدہ بیشتر حقائق کو زبان مل جاتی ہے۔ بقول شاعر

کتنے اچھے ہیں میرے گھر کے پرانے برتن
چھت ٹپکتی ہے تو کیچڑ نہیں ہونے دیتے

آج انسان کو دور حاضر میں اخلاقی قحط، خودغرضی اور نفسانفسی کے طوفان کا سامنا ہے بظاہر ہم جس دور کو ہم ترقی کا دور کہتے ہیں دراصل مادیت پرستی، خود غرضی، نفسانفسی اور حرس وہوس کی دھول سے اٹا ہوا ہے۔ ظہور احمد فاتح نے کیا خوب کہا ہے کہ

دیکھ کر اہل جہان کی بے رخی
جی یہ چاہے تارک دنیا بنوں
کیا کروں رہبانیت جائز نہیں
بدسلوکی دیکھ کر احباب کی
دل یہ چاہے سب سے ناطہ توڑ لوں
قطع رحمی کا نہیں لیکن جواز
دوستوں کی سرد مہری دیکھ کر
من کہے کہہ دوں وفا کو خیر باد
کیا کروں ترک وفا زیبانہیں

سرزمین اٹک میں شعراء کا لشکر جرار ہے جو شعری و ادبی کاوشوں میں مصروف ہے جن میں اٹک کا ساغر صدیقی ، خالد بیزار شعرو سخن کا ایک انتھک راہی آج بیماری، معذوری اور غربت و افلاس کی چکی مین پس کر ریزہ ریزہ ہو چکا ہے۔ چالیس سالہ تعلیم یافتہ یہ شاعر زمانے کی نا انصافیوں، بے روزگاری او رمفلوک الحال زندگی گزارتے گزارتے بستر مرگ پر پڑا ہوا ہے۔خالد بیزار اپنے وقت میں ایک خوبصورت صحت مندنوجوان تھا اور شعبہ درس و تدرس سے وابستہ تھا او ر اٹک کی ادبی محفلوں کی جان ہوا کرتا تھا مگر فاقہ کشی، غربت اور اپنوں کی بے وفائی نے اسے آج اس حالت میں پہنچا دیا ہے کہ وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہے۔

خالد بیزار کے پاوں پر معمولی چوٹ لگی برقت علاج کروانے کی سکت نہ ہونے کی بنا پر یہ زخم اسکی پور ی ٹانگ کو اپنی لپیٹ میں لے گیا اور ڈاکٹروں نے اسکی ایک ٹانگ کا ٹ دی۔ ایک طرف معذوری اس کا مقدر بن گئی اور اوپر سے بوڑے ماں باپ کی ضعیف العمری اور اسکے اکلوتے پن نے خالد بیزار جیسے حساس شاعر کو اس قدر دل برداشتہ کیا کہ وہ ہوش و حواس کھو بیٹھا۔ علاج معالجے کے لیے پیسے نہ ہونے کے سبب والدین اسکا علاج کروانے سے قاصر ہیں۔

Poetry

Poetry

خالد بیزار کے ساتھ بھی اہل ادب نے وہی کچھ کیا جو شاعر ساغر صدیقی کے ساتھ ہوا۔ انکے بوڑے والدین کو دھوکا دے کر کچھ شعراء نے انکا کلام کتابی صورت میں چھپوانے کے بہانے لے لیا اور پھر آج تک واپس نہ لوٹایا۔ خالد بیزار کی وہی غزلیں، نظمیں اور گیت محفوظ رہ سکے جو مختلف گلوکاروں نے ٹی وی اور کیسٹ وغیرہ میں ریکارڈ کروائے تھے ۔ خالد بیزار آج غم کی تصویر بنے بیٹھا ہے اور ہمارے خود غرض اور بے حس معاشرے کی عکاسی کر رہا ہے۔خالد بیزار کو شاید یہ گلہ بھی ہے کہ اسکے ساتھی شعرا نے مشکل کی اس گھڑی میںنہ صرف اسے اکیلا چھوڑ دیا ہے بلکہ کبھی اسکی مزاج پر سی کو بھی نہیں آتے۔خالد بیزار کا ایک شعر کہ

مقید کر دیا سانپوں کو یہ کہہ کر سپیرے نے
کہ انسان سے انسان کو ڈسوانے کا موسم آ گیا

پاکستان کے معروف شاعر فاروق روکھٹری مرحوم نے آج سے ١٥ سال پہلے خالد بیزار کو ایک مشاعرے میں اٹک کا فطری شاعر قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ خالد بیزار اپنے قد سے بڑی غزل تخلیق کر رہا ہے۔ ایک نہ ایک دن اسکی محنت ضرور رنگ لائے گی۔خالد بیزار کاکلام مختلف قومی روزناموں کے ادبی ایڈیشنوں اور ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا تاہم بدقسمتی سے ان اخبارات اور جریدوں کو محفوظ نہ کیا جا سکا۔٢٨ مارچ ١٩٩٧ء کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی نظم کا قطعہ جو سانول سنگت کے زیر اہتمام مشاعرے میں خالد بیزار نے پڑھا تھا قارئین کی نظر کرتا ہوں۔

جسم کے اس حسین جزیرے پر
روح کا یہ مقام مقدس ہے
صورت غوثُ کوئی شامل ہے
راہزنوں، کارواں مقدس ہے

خالد بیزار کی بیماری اور غربت نے اسکی شاعری کو پروان چڑھنے سے پہلے ہی آ لیا اور وہ آج چلنے پھرنے سے تو درکنار با ت کرنے سے بھی عاجز ہے اور وہ اپنے دو اڑھائی مرلے پر محیط چھوٹے سے گھر میں اپنے بوڑے ماں باپ کے ساتھ انتہائی مخدوش حال زندگی گزار رہا ہے۔ خالد بیزار اس وقت اس حالت میں ہے کہ اپنے چند دوستوں کے علاوہ کسی کو نہیں پہچانتا۔ اسکی یاداشت مکمل طور پر اس کا ساتھ نہیں دے پا رہی۔ اسکی بوڑھی والدہ کے بقول اس بیماری کے باوجود بھی خالد کو شعروادب کا اتنا جنون ہے کہ وہ اب بھی کچھ نہ کچھ لکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ بعض ڈاکٹروں کے مطابق خالد بیزار کا اگر ٹھیک طریقے سے علاج کیا جائے تو وہ ذہنی طور پر بحال ہو سکتا ہے اسکی یاداشت لوٹ سکتی ہے ۔ حکومت یا کوئی مخیر حضرات اس کے علاج کا خرچہ برداشت کر سکیں تو خالد بیزار اپنی دنیا میں واپس لوٹ سکتا ہے۔

خالد بیزار کا قصور شاید یہ ہے کہ وہ اٹک جیسے ادبی لحاظ سے پسماندہ علاقے اوربے حس لوگوں کے درمیاں پیدا ہوا ہے اگر وہ داتا کی نگری جیسے کسی بڑے شہر میں پیدا ہوا ہوتا تو شایداکادمی ادبیات اور دیگرادبی تیظموںاسکی مفلوک الحالی سے بے خبر نہ ہوتیں،اس کا علاج بھی ہوتا، وظائف بھی مقرر ہوتے اور گزر اوقات کے لیے مناسب انتظام بھی کیا جاتا۔میں اس کالم کے توسط سے اکادمی ادبیات کے چئرمین، ادبی حلقوں اور فلاحی تنظیموں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس ملک کے ادبی اثاثے شاعر خالد بیزار کی بحالی اور امداد کے لیے اپنی طرف سے ہرممکن کوشش کریں تاکہ خالدبیزار بھی معاشرے کا فعال رکن بن سکے۔ آخرمیں خالد بیزار کا شعر کہ
ہم اسی شہر کے ستائے ہیں
جس کا عنوان بنتے آئے ہیں

Shahzad Hussain Bhatti

Shahzad Hussain Bhatti

تحریر: شہزاد حسین بھٹی

Love

Love