تو زر دار بہت ہے

Life

Life

اس شہر میں ہر شخص ہی بیزار بہت ہے

یہ مان لیا میں نے تو زر دار بہت ہے

کیوں تم نے دکھایا تھا مجھے پیار کا رستہ

یہ بھی بتا دیتے کہ یہ پر خار بہت ہے

ہر راستہ ہو سہل یہ ممکن تو نہیں ہے

آتا ہے نظر سیدھا وہ خمدار بہت ہے

کیا پوچھتے ہو زندگی کیسی ہے گذاری

جو ہم نے گذاری ہے وہ دشوار بہت ہے

دشمن ہو زمانہ بھی کوئی غم نہیں مجھ کو

مخلص ہو اگر چہ تو بس اک یار بہت ہے

محمد ارشد قریشی