مہذب قوموں کے غیر مہذب بالی ووڈ اور لالی ووڈ

 Lollywood

Lollywood

تحریر: ایم پی خان
ہندوستانی اور پاکستانی اقوام مشرقی تہذیب کے علمبردارہیں۔ گوکہ یہاں مذہب اور عقیدے کے لحاظ سے مختلف لوگ آبادہی، جن میں مسلمان، ہندئوں اورسکھ اکثریت میں ہیں، تاہم یہ سب عرصہ قدیم سے ایک مشترکہ تہذیب میں پیوست رہے ہیں۔ اٹھارویں او رانسویں صدی کے ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہندئوں اورم سلمانوں نے ایک مشترکہ تہذیب کو جنم دیا تھا، جس نے دونوں قوموں کو ایکدوسرے کے قریب کر دیا تھا۔

اس وقت کے ہندئوں اور مسلمان لباس ، طرززندگی ، وضع قطع، رہن سہن، رسم ورواج، ادب، شعر وشاعری وغیرہ میں بالکل مشترک نظرآتے ہیں۔ اسی طرح بعض معاشرتی برائیوں جیسے وعدہ خلافی، شراب نوشی، زنااورچوری وغیرہ کو بھی حقارت کی نظرسے دیکھتے تھے۔اس وقت سے لیکر آج تک جو ایک بات دونوں قوموں میں مشترک چلی آرہی ہے ، وہ ہے خواتین کاپردہ ۔ یعنی جس طرح مسلمان اپنی عورتوں کو نامحرم کے ساتھ آزادانہ میل جول، باتیں کرنے اورکسی قسم کاتعلق رکھنے کو قبیح تصورکرتے ہیں اوراسے اپنی غیرت کے منافی مانتے ہیں،حتیٰ کہ مذہبی لحاظ سے اسے گناہ کبیرہ گردانتے ہیں ، بالکل اسی طرح ہندومذہب میں بھی پردے کایہی تصورموجودہے ، بلکہ ہندئواس فعل کو اپنے پرم پراکے خلاف سمجھتے ہیں ۔عورت کاپردہ اگرایک طرف ہندئوں اورسکھوں کی ثقافت کاحصہ ہے تودوسری طرف ہندئوں کی مقدس کتاب رامائن میں بھی عورتوں کے پردے کے واضح احکامات موجودہیں۔

ہندومذہب میں اگرچہ مختلف عقیدوں کے لوگ موجودہیں لیکن عورتوں کے پردے کے بارے میں سارے متفق ہیں۔ یہاں تک کہ بعض عورتیں اپنے شوہروں سے بھی پردہ کرتی ہیں۔یہی ہماری مشرقی تہذیب کاحسن ہے ، جس نے پوری دنیامیں ہماری تہذیب کو ایک اونچامقام دیاہے ۔ہماری تہذیب میں عورت کو بہت بلند مرتبہ حاصل ہے۔ہرباپ بیٹوں کی طرح اپنی بیٹیوں کی تعلیم وتربیت پر پوری توجہ دیتاہے اوراپناپوراسرمایہ انکے بہترمستقبل پرلگادیتاہے۔ جس کے نتیجے میں انکی بیٹیاں حیاکی پیکرہوتی ہیں۔ وہ اپنے والدین کے ہرفیصلے کو بخوشی قبول کرلیتے ہیں اورپھرشادی کے بعدتادم مرگ اپنے شوہر کے ساتھ ہرحال میں زندگی گزارتی ہیں۔

Bollywood

Bollywood

بدقسمتی سے ہماری فلم انڈسٹری ،تھیٹر اورڈرامے ہماری تہذیب کامذاق اڑاتے ہیں ۔ہندوستانی اورپاکستانی فلموں کی بنیاد بے حیائی ،لچرپن،بے ہودگی اورفحاشی پر ہوتی ہے۔ہرفلم کی کہانی اسی نکتے کے گرددگھومتی ہے کہ ایک جوان لڑکاکسی نوجوان لڑکی سے محبت کرتاہے اوردونوں نامحرم ایکدوسرے سے چھپکے چھپکے ملتے ہیں اوربے حیائی کے سارے حدودپارکرلیتے ہیں۔حالانکہ ان حرکتوں کاوالدین کوپتہ نہیں ہوتا۔یہ حالات صرف ایک نہیںبلکہ تقریباً ہرفلم ،ڈرامہ اور دستاویزی پروگرام اسی بے حیائی کوفروغ دیتاہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا کی سب سے تہذیب یافتہ قوم ہوتے ہوئے اور ایک نایاب تاریخی پس منظررکھتے ہوئے بھی، آج تک ہماری فلم انڈسٹری (لالی ووڈ اوربالی ووڈ) نے اسکی صحیح ترجمانی نہیں کی اورہمیشہ ہماری تاریخ کو غلط شکل میں پیش کیاگیا۔جلال الدین اکبر ، جس نے تقریباً پچاس سال جس مدبرانہ اندازمیں اورعقل، حکمت اورروشن خیالی سے حکومت کی ، وہ اپنی مثال آپ ہے لیکن ان کی زندگی کو ”انارکلی” کی شکل میں بدنام کرنے کی جوکوشش کی گئی ہے ،وہ ہماری تاریخ پرایک بدنماداغ ہے۔

دنیا کے دیگرممالک میں فلم انڈسٹری اورتھیٹرمیں مختلف موضوعات پر فلمیں بنتی جارہی ہیں، جن میں جنگ، فتوحات، تعلیم ، مہم جوئی، تاریخ اورتہذیب کے نمایاں خدوخال واضح ہوجاتے ہیں،لیکن ہمارے ہاں ہر موضوع پر بننے والے فلم اورڈرامے میں رومانس کو مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ ایک اضافی عنصرکے طورپرمناسب حد تک پیش کرناچاہئے۔ اس ضمن میں ہماراالمیہ یہ بھی ہے کہ دستاویزی پروگرام بھی رومانس سے خالی نہیں ہوتے اوراس میں مرکزی موضوع سے زیادہ اہمیت رومانس کو دی جاتی ہے۔ ایسی ایسی بیہودہ مناظر، لچرپن اورفحاشی پیش کی جاتی ہے کہ تھوڑی بہت حیا رکھنے والے کاسرشرم سے جھک جاتا ہے۔

حال ہی میں ہندوستان میں ایسی فلمیں بھی بن رہی ہیں ، جس میں فحش مکالموں پربھرمارہوتی ہے اورپوری فلم ان فحش مکالموں کے سہارے آگے بڑھتی ہے ، جو فیملی کے ساتھ دیکھنامحال ہوتاہے۔یہ بھی ہندوستانی قوم اوران سے زیادہ فلم انڈسٹری کیلئے شرم کامقام ہے کہ زیادہ ترفلموں میں سنسنی اورمہم جوئی کے مناظرانگریزی فلموں کی نقالی ہوتی ہے جبکہ ان سے زیادہ شرم کامقام پاکستانی قوم اورپاکستانی فلم انڈسٹری کے لئے ہے، جہاں بننے والی فلموں میں مرد اورعورتیں ناچ گانے میں ہندوستانی فلموں کی نقالی کرتے ہیں۔ یعنی ایک تہذیب یافتہ قوم دوسری تہذیب یافتہ قوم کے ناچ گانے کی تقلید کرتے ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ اکثرفلموں میں ایک ادھیڑعمرکامرد کابنائو سنگھارکرکے جوان بنا دیاجاتاہے اوراسکی کسی سولہ سالہ لڑکی کیساتھ رومانس پرمبنی فلم بنائی جاتی ہے، جوشروع سے لیکر آخرتک صرف اورصرف پیاراورمحبت کے موضوع پرمبنی ہوتی ہے۔ جومناظراورکہانیاں ہماری نئی پودکے اخلاقی بگاڑ کاسامان ہے۔

MP Khan

MP Khan

تحریر: ایم پی خان