پاک سر زمین کے کمال اور متحدہ کے ملک کمال

Mustafa Kamal

Mustafa Kamal

تحریر : محمد ارشد قریشی
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے علیحدگی اختیار کرنے اور اپنی نئی سیاسی تنظیم پاک سر زمین کا اعلان کرنے والے مصطفی کمال کو اب تک شائید وہ پذیرائی نہیں ملی سکی جس کی وہ امید کررہے تھے 03 مارچ کو کراچی میں دھواں دھاڑ پریس کانفرنس کرنے کے بعد کئی مزید پریس کانفرنس میں کم و بیش یکساں باتیں ہی کی گئیں جن کا محور ایم کیو ایم کے قائد کی ذات تک رہا 03 مارچ کی پریس کانفرنس میں ان کی جانب سے لگائے گئے ایم کیو ایم کے قائد پر الزامات کے بعد کئی لوگ انگشت بدہاں تھے تو کئی لوگوں کے چہروں پر افسوس تھا نوجوان جو ایم کیو ایم سے عقیدت رکھتے ہیں وہ بھی حیران و پریشان تھے تو دوسری طرف وہ نوجوان جو مصطفی کمال کو اپنا ہیرو کہتے تھے وہ بھی افسردہ تھے کہ آخر یہ اچانک ہوا کیا کہ کل جو مصطفی کمال ٹیلیویژن ٹاک شوز میں اپنے قائد الطاف حسین کے خلاف بات کرنے والوں کو نہایت سخت اور نازیبا دھمکی آمیز جملے بول دیا کرتے تھے آج وہ خود اس قائد کے خلاف اسی طرح کے جملے استمال کررہے ہیں جو کبھی انہیں خود کسی صورت برداشت نہیں تھے۔

لیکن اس کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے اس طرح کی پریس کانفرنسیں ماضی میں بھی تواتر سے سنی تھیں ان کے لیئے یہ کوئی نئی بات نہیں محترم قارئین کرام آپ کو جنرل ضیاالحق صاحب کا مارشل لاء ضرور یاد ہوگا جب ایک جمہوری حکومت کے اقتدار کا تختہ پلٹ دیا گیا اور ایک منتخب وزیراعظم کو قید کردیا گیا اس وقت بھی پاکستان ٹیلیویژن پر مسلسل ایک پروگرام ظلم کی داستان دکھایا جاتا تھا جس میں لوگوں کے انٹرویو نشر کیئے جاتے تھے۔

ہر روز ایک نیا کردار آتا تھا اور اپنے اوپر ڈھائے جانے والے ظلموں کی داستان بتاتے ہوئے براہ راست اس کا الزام وزیراعظم پاکستان ذولفقار علی بھٹو پر لگایا جاتا تھا لیکن کبھی بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاتا تھا کہ ان پر ہونے والے ظلم کے پیچھے وزیراعظم پاکستان ملوث تھے اور اتنے کردار اور اتنی داستانیں پیش کی گئیں کہ لگتا تھا کہ وزیراعظم پاکستان ان ظلم اور جبر کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے تھے بلا آخر ان داستانوں نے خود ایک نئی داستان رقم کردی جب وطن عزیز کی عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔

Pak Army

Pak Army

پھر اسی طرح کی پریس کانفرنسوں کا سلسلہ 1992 میں دیکھا گیا جب اس وقت کی مہاجر قومی موومنٹ پر ایک فوجی آپریشن کیا گیا جس کی سب سے بڑی وجہ اس تنظیم کے کوٹری حیدرآباد کے دفتر سے جناح پور کے نقشے برآمد کرنے کے دعوے بتائے گئے اور کئی پریس کانفرنسوں میں یہ بتایا گیا کہ یہ تنظیم ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے لیکن ثبوت کوئی فراہم نہیں کیئے گئے جس کی بناء پر اس تنظیم پر پابندی لگائی جاسکتی کئی کردار اس وقت بھی قومی ٹیلیویژن پر نمودار ہوئے جنہوں نے ایم کیو ایم اور اس کے سربراہ کو براہ راست ملک دشمن سر گرمیوں میں ملوث ہونے کا عندیہ دیا اور فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات کی خاطر کئی لوگوں کو قتل کرنے کا برملا اعتراف کیا جن میں ایک نام حکیم محمد سعید صاحب کا بھی تھا جن کے قتل کے اعتراف کرنے والوں میں ایم کیو ایم کے فصیح احمد جگنو کے ساتھ حافظ اسامہ قادری بھی تھے۔

بعد میں مصطفی کمال کی نظامت کے دور میں لیاقت آباد کے ناظم منتخب ہوئے تھے اور جن افسران کی زیر نگرانی دوران آپریشن وہ نقشے برآمد کیئے گئے تھے انھوں نے پھر قومی ٹیلیویژن پر آکر خود ان کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام چیزیں ہماری خودساختہ تھیں۔ایم کیو ایم کے ساتھ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جب بھی اس سے علیحدگی اختیار کرنے والے کسی نئی پارٹی کا اعلان کرتے ہیں ان کی پہلی تعداد دو ہی ہوتی ہے جیسا کہ ماضی میں منحرف ہونے والی آفاق احمد اور عامر خان نے ایم کیو ایم حقیقی کے نام سے پارٹی بنانے کا اعلان کیا اور اس مرتبہ مصطفی کمال اور انیس احمد قائم خانی نے ایسا کیا لیکن جو چیز اللہ کا شکر ادا کرنے والی ہے وہ یہ کہ اس مرتبہ ماضی کی طرح آپس میں کوئی تصادم کی صورت حال سامنے نہیں آئی جس میں کئی انسانی جانیں ضائع ہوئیں تھیں۔

قارئین کرام یہاں ماضی کی ان باتوں کا ذکر کرنا اس لیئے ضروری محسوس ہوا کہ یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ لوگ مصطفی کمال اور ان کی پارٹی میں شامل ہونے والوں کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں کیوں کہ ان کی خود کی پریس کانفرنس اور اب تک کی تمام تقاریر اور ان کی پارٹی میں شامل ہونے والے رہنماؤں کی پریس کانفرنسوں کا متن کم و بیش یکساں ہے مصطفی کمال کی پہلی پریس کانفرنس میں ہی انھوں نے اپنے الطاف بھائی کو الطاف صاحب کہہ کر مخاطب کیا جس سے اندازہ ہوا کہ واقعی جو یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اردو بولنے والے ایک مہذب قوم تھی ایک پڑھی لکھی قوم تھی اسے جاہل بنا دیا اس میں کافی حد تک وزن ہے اور اتنے شدید اختلافات ہونے کے باوجود تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جو کہ ان کی بات کا ایک عملی ثبوت تھا۔

MQM

MQM

پہلی پریس کانفرنس میں مجھ سمیت کئی قارئین کو بھی ان کی کئی باتوں نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا کہ جس طرح انھوں نے فرمایا کہ قائد ایم کیو ایم بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی را کے آلہ کار ہیں اور ان کے منحرف ہونے کی بنیادی وجوہات یہی ہیں تو یہاں ایک بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہے تو مصطفی کمال صاحب نے خود ایک سینیٹر کا حلف اٹھایا ہوا تھا انہیں اس قسم کی باتوں کا علم تھا تو انہیں اسی وقت اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کرکے حکومت وقت کو آگاہ کرنا تھا جہاں وہ ایم کیوایم سے منحرف ہوئے وہیں اپنے اٹھائے ہوئے حلف کی بھی پاسداری نہ کرکے شائید وہ خود بھی سہولت کار کے زمرے میں آگئے، دوسری اہم بات یہ کہ مصطفی کمال صاحب نے اپنی ہر پریس کانفرنس میں کراچی میں ایم کیو ایم کو بلوچستان کے طرز پر دی گئی عام معافی کا مطالبہ کیا جو کہ انتہائی خطرناک مطالبہ ہے یہ ملک اب مزید کسی بھی قسم کے نئے این آر او کا متحمل نہیں ہوسکتا جس شخص نے بھی جرم کیا ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔

یہ روایت بہت غلط ہوگی کہ کوئی بھی جرم کرو اور پھر کسی این آر او کی گنگا بہنے کا انتظار کرو تاکہ بغیر کسی عدالت کے بغیر کسی سزا کے پاک و صاف ہوجاؤ اسی مطالبے میں ایک اور مسعلہ پنہا ہے جس کے مزید منفی اثرات مرتب ہونگے وہ یہ کہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ جب تک کسی شخص پر جرم ثابت نہیں ہوجاتا وہ ملزم ہوتا ہے مجرم نہیں حالیہ جاری آپریشن جو کہ الحمداللہ نہایت کامیابی سے جاری ہے اس میں رینجرز ایک خصوصی اختیار کے تحت مشتبہ افراد کو نوے دن کے لیئے حراست میں لے کر تحقیقات کرسکتی ہے اور متعلقہ شخص کو نوے دن کے بعد رہا کردیا جاتا ہے یا پھر عدالت میں ثبوتوں یا اعترافی بیان کے ساتھ پیش کردیا جاتا ہے،لیکن اگر مصطفی کمال کا عام معافی کا مطالبہ مان لیا گیا تو کراچی کے وہ نوجوان جن پر جرم ثابت نہیں ہوئے وہ بھی اس عام معافی کے پیکیج میں آجائیں گے جن پر مجرم نا ہوتے ہوئے بھی ایک لیبل لگ جائے گا کہ یہ دہشت گردی میں ملوث تھے۔

مصطفی کمال اور ان کے دیگر پارٹی رفقاء جو اب تک بہت بہتر انداز میں گفتگو کررہے تھے کہ ان کے دورہ میرپورخاص کے بعد ان کی قوت برداشت بھی جواب دیتی نظر آئی جو ہر تقریر میں اپنی قوم کو پڑھی لکھی با تہذیب قوم گردان رہے تھے خود تہذیب کا دامن چھوڑتے نظر آئے بات الطاف بھائی سے الطاف حسین سے بھی بہت آگے نکل کر انسان اور شیطان پر جاپہنچی شائید اس کی وجہ ان کے اندازے کے برخلاف انہیں حیدرآباد سے میرپورخاص کے سفر کے دوران راستے میں ملنے والا وہ شدید عوامی رد عمل تھا جس کی وجہ سے ان کا لب و لہجہ تبدیل ہوا لیکن قارئین اگر غور کریں تو ایسے عوامی رد عمل کئی بہت نامور رہنماؤ کو بھی دیکھنے کو ملے جن میں امریکی صدر کو جوتا مارنے کاواقعہ اور یکے بعد دیگرے ایسے ہی واقعات پاکستانی سابق صدور پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے ساتھ بھی پیش آئے جبکہ سندہ کے سابق وزیر اعلی ارباب غلام رحیم کے ساتھ تو سندھ اسمبلی میں ایسا واقع پیش آیا لیکن اسے خندہ پیشانی سے برداشت کیا گیا ہر سیاسی رہنما کو اچھے اور برے عوامی رد عمل کے لیئے تیار رہنا ہی چاہیے۔

Election

Election

کراچی کی عوام نے 07 اپریل کو ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر سے ایم کیو ایم کے نامز امیدواروں کو ووٹ دے کر متحدہ اور اس کے قائد پر اعتماد کا اظہار کردیا اس مرتبہ عوام کے ووٹ دینے کی شرح نہایت کم رہی اور یہ ووٹ کی کمی کا معاملہ صرف ایم کیو ایم کو ہی نہیں بلکہ تمام سایسی جماعتوں کے امیدواروں کے ساتھ درپیش رہا جس کی وجوہات کے پیچھے کئی عوامل کارفرما تھے ایک تو لوگ عام انتخابات کی بنسبت ضمنی انتخابات میں کم دلچسپی لیتے ہیں اور دوسرا گرم موسم بھی لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کرتا رہا ایم کیو ایم کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد وہ نہیں جس کی امید کی جارہی تھی باوجود تحریک انصاف کے امیدوار امجداللہ کا ملک کمال کے حق میں دستبرداری کے اعلان کے جن کا ضمیر رات کی تاریکی میں اچانک جاگ اٹھا تھا ان کے ضمیر کا بیدار ہونا بھی ایم کیو ایم کے ووٹوں کے تعداد نہیں بڑھا سکا۔

دوسری خاص بات یہ تھی کہ ان حلقوں سے جماعت اسلامی نے بھی اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیئے تھے جس سے واضح نظر آتا ہے کہ ایم کیو ایم کو ملنے والے ووٹوں میں کوئی نئے ووٹ شامل نہیں تھے لیکن کچھ سایسی ناقدین کی پیشن گوئیاں یکسر غلط ہوگئیں کہ ایم کیو ایم شائید ہی اب جیت پائے گی۔یہاں ایم کیو ایم کو بھی اب احساس ہونا چاہیے کہ اگر اسے اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنا ہے یا اس میں اضافہ کرنا ہے تو کراچی کے لوگوں کے مسائل حل کرنے ہونگے اب کچھ دنوں کی صفائی مہم چلا کر پھر خاموشی سے بیٹھ جانے سے معاملات درست نہیں ہونگے، حالیہ ضمنی انتخابات میں رینجرز کا کردار نہایت منصفانہ رہا کسی امیدوار کی جانب سے نہ کوئی شکایت کی گئی اور نہ ہی جعلی ووٹ بگھتانے کا کوئی واقع سامنے آیا۔اب رہی بات الزامات در الزامات کی تو قائد ایم کیوایم پر جتنے بھی الزامات لگائے گئے۔

اگر وہ واقعی درست ہیں تو اس کے ثبوت بھی پیش کردیئے جائیں جب کے اطلاع یہ ہیں کہ جب ایف آئی اے کے سربراہ ان الزامات کے ثبوت مانگنے کمال ہاوس گئے تو خالی ہاتھ واپس آگئے لیکن مصطفی کمال صاحب کی یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ ہم نے جو دیکھا اور سنا بتا دیا اب ثبوت اکھٹا کرنا تحقیقاتی اداروں کا کام ہے تو چلیئے پھر اب اس سلسلے کو ختم کردیجیئے اور حکومت، عدالتوں اور تحقیقاتی اداروں پر چھوڑ دیجیئے کیوں کے جو آپ اپنی ہر تقریر اور کانفرنسوں میں بتا رہے ہیں یہ قوم اصغر خان کیس میں یہ باتیں بارہا سن چکی ہے اور واقعی اپنی اس بات کو ثابت کریئے کہ آپ دلوں کوتوڑنے نہیں آئے ہیں بلکہ دلوں کو جوڑنے آئے ہیں آپ کسی سے کسی کی طاقت چھیننے نہیں بلکہ لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق دلوانے آئے ہیں۔اس میں کسی قسم کی دو رائے نہیں کہ ہر شخص کو سیاست کرنے کا حق ہے نئی پارٹی بنانے کا حق ہے اختلاف رائے رکھنے کا حق ہے سوچیں تعمیری ہونی چاہیے موجودہ حالات میں دونوں جانب سے تحمل مزاجی کی شدید ضرورت ہے شائستہ انداز بیان اپنانے کی ضرورت ہے قائد ایم کیو ایم پر لگائے گئے الزامات کس حد تک درست ہیں اس کا فیصلہ جلسے جلوسوں میں کرنے کے بجائے عدالتوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔

Muhammad Arshad Qureshi

Muhammad Arshad Qureshi

تحریر : محمد ارشد قریشی