ہنگامہ ہے کیوں برپا

PTI vs PML N

PTI vs PML N

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
آجکل لاہور میں انتخابی گہماگہمی اپنے عروج پر ہے۔ ایک طرف بلدیاتی امیدوار کشکول تھامے گلی گلی ووٹوں کی بھیک مانگتے پھرتے ہی ںتو دوسری طرف NA-122 کے ضمنی انتخاب میں نواز لیگ اور تحریکِ انصاف کھڑاک پہ کھڑاک کیے جا رہی ہیں۔ حقیقت یہی کہ سارا ”کھڑاک” ہمارے کپتان صاحب کی مہربانی سے ہو رہا ہے جنہوںنے ضمنی انتخاب کو سردار ایاز صادق اور عبدالعلیم خاںکی بجائے اپنے اور میاں نواز شریف کے مابین معرکہ قرار دے دیا۔

ایک طرف ساری تحریکِ انصاف حلقہ 122 کاگھیراؤ کیے بیٹھی ہے تودوسری طرف سارے حکومتی وزیرشزیر سمن آبادکی گلیاں ماپتے پھرتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے امیدوار عبد العلیم خاںنے اِس انتخابی معرکے میں اخراجات کی ساری حدیںتہس نہس کردیں،الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق جائے بھاڑمیں۔ میری پسندیدہ جماعتِ اسلامی کے بزرجمہروںنے تحریکِ انصاف کاساتھ دینے کافیصلہ کرلیا۔ پتہ نہیں ”اندرکھاتے” کیا ”مُک مکا” ہوا کہ جماعتِ اسلامی نے بھی لنگوٹ کَس لیا۔

اُدھر خیبرپختونخوا میں آفتاب شیرپاؤ کو ساتھ ملانے کے بعد وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک نے یک لخت آنکھیںپھیر لیںاور دروغ بَر گردنِ راوی آجکل وہ جماعت اسلامی کے وزیروںکے پیچھے لَٹھ لے کردوڑ رہے ہیںجبکہ ادھر حلقہ 122 میںتحریکِ انصاف اورجماعتِ اسلامی کایہ عالم کہ ”میںتے ماہی اِنج مِل گئے جیویں ٹِچ بَٹناںدی جوڑی”۔ شاید جمہوریت کاحسن اسی کوکہتے ہوںگے ۔شنیدہے کہ یہ سب کچھ چودھری سرورکا کیادھراہے جنہوںنے باربار منصورہ جاکر جماعتِ اسلامی کاناک میںدَم کردیا۔جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت نے تو تحریکِ انصاف کے وفدسے ملاقات سے بھی انکار کردیا تھالیکن لاہورکے امیرمیاں مقصوداحمد کوچودھری سرورنے بالآخر گھیرہی لیا۔ ویسے میاںمقصود احمدنے بھی سوچاہوگا کہ جماعت اسلامی توگزشتہ دو عشروںسے اُس حلقے میںاپنا امیدوار ہی کھڑانہیں کررہی اور یہاں جماعت کاووٹ بھی ”ٹانواں ٹانواں”ہی ہے اِس لیے تحریکِ انصاف کو”کَکھ” فائدہ نہیںہونے والا، اگرمفت میںاحسان ہاتھ آتاہے تو اِس میںبُرا کیاہے۔ 4 اکتوبرکو کپتان صاحب نے سمن آبادکی کی ”ڈونگی گراؤنڈ” میں ”ڈونگا” جلسہ کر کے سونامیوںکا جی خوش کردیا۔

ویسے توجلسے سے پہلے خاںصاحب نے اِس جلسے میںنواز لیگ کے متعلق بڑے بڑے انکشافات کااعلان کیاتھا لیکن اب توسونامیے بھی جان چکے کہ خاںصاحب انکشافات کاکہتے ضرورہیں لیکن کرتے کبھی نہیں۔کپتان صاحب کے انکشافات کاعالم توبھٹومرحوم کی معاہدہ تاشقندوالی پٹاری کی مانند ہے جسے بھٹومرحوم کھولے بغیر ہی اپنی قبرمیں لے گئے ۔ ویسے ہوسکتاہے کہ کپتان صاحب کے نزدیک یہ بھی بہت بڑاانکشاف ہوکہ اُنہوںنے ایک دفعہ پھریوٹرن لیتے ہوئے ریحام خاںکو دوبارہ سیاست میں”اِن” کردیا۔ ہری پورکے ضمنی انتخاب میںخوفناک شکست کے بعد دونوںنے ٹویٹ کیاتھاکہ ریحام خاںاب سیاست پہ تین حرف بھیج چکیںلیکن معاملہ چونکہ عبدالعلیم خاںکا تھاجو تحریکِ انصاف کے ”اَن داتاؤں”میںسے ایک ہیںاِس لیے ریحام خاںکا حلقہ 122 میں آنا تو بنتا تھا دوستو ۔ریحام خاںکے دوبارہ سیاست میںآنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہمارے شَرپسند الیکٹرانک میڈیانے ”ایویںخوامخواہ” شورمچا دیاکہ عمران خاںاور ریحام خاںکی ازدواجی زندگی کا”اباؤٹرن” ہوچکااور کوئی دن جاتاہے جب عمران خاںایک دفعہ پھرکسی کنٹینرپر کھڑے ہوکر سونامیوںکو کہیںگے کہ ”جلدی جلدی نیاپاکستان بناؤ تاکہ میںشادی کرلوں” اسی لیے خاںصاحب ریحام خاںکو میدان میںلے آئے تاکہ افواہیںدَم توڑسکیں۔

ڈونگی گراؤنڈ میںجلسے سے خطاب کرتے ہوئے خاںصاحب نے فرمایا ”نوازلیگ ہمیشہ سٹے آرڈرکے پیچھے چھُپ جاتی ہے اِس لے اِس کانام نوازلیگ نہیں ”سٹے آرڈرلیگ” رکھ دیناچاہیے”۔ اِس پرتبصرہ کرتے ہوئے ایک لیگئے نے کہا ”شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

Imran Khan

Imran Khan

خودچھ ،چھ بندے سٹے آرڈرکی ”بُکل” مارے بیٹھے ہیںاور نوازلیگ کے صرف دو بندوںکے سٹے آرڈرپر چیں بچیں”۔ پرویزرشید صاحب نے دَرجوابِ آںغزل فرمایا ”تحریکِ انصاف کانام ”تحریکِ الزام” ہوناچاہیے” لیکن اِیک شَرپسند لیگئے کے خیال میںتحریکِ انصاف کانام ”پھڈاتحریک” سب سے زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ” پھڈے بازی” میںاِ س کاکوئی ثانی نہ شکست کو ”ٹھنڈے پیٹوں” قبول کرنااِس کی عادت ۔ خودخاںصاحب کا فرمان ہے کہ ”تحریکِ انصاف وہ واحدجماعت ہے جس کی ڈکشنری میںشکست قبول کرنانہیں لکھا”۔ظاہرہے کہ ”انوکھالاڈلا” جب کھیلن کوچاند مانگنے کی ضدکرے گاتو پھر”پھڈا” بھی ہوگا اور ”کھڑاک” بھی۔ اِس لیے اِس جماعت کا ”پھڈاتحریک” سے بہتر کوئی نام ہوہی نہیںسکتا۔ خاںصاحب کو اِس بات کی بھی بہت پریشانی ہے کہ میاںنواز شریف صاحب بوئنگ 777 پر امریکی دَورے پرکیوں جارہے ہیں۔ اِس کاحل خواجہ سعدرفیق نے یہ نکالاکہ وزیرِاعظم صاحب کو”رکشے” پرامریکہ بھیج دیاجائے، وہ کبھی نہ کبھی تو امریکہ پہنچ ہی جائیںگے۔ جَل بھُن کرکباب ہونے والے ایک لیگئے نے کہاکہ اگرکپتان صاحب کابَس چلے تو وہ باتھ روم میںبھی جہانگیرترین کے جہازمیں جائیںلیکن اگر وزیرِاعظم امریکی دَورے پربوئنگ میںجائیں توسونامیوںکے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتے ہیں۔

کپتان صاحب نے فرمایا”نواز شریف جب بھی جِم خانہ میںکرکٹ کھیلتے تو امپائرکو ساتھ ملالیتے ۔وہ جب آؤٹ ہوجاتے تو امپائر نوبال قراردے دیتا”۔ لیگئے کہتے ہیںکہ امپائرتو عمران خاںنے بھی ساتھ ملایاتھا لیکن اگرامپائر کی انگلی کوہی” فالج” ہوگیا تواِس میں ہمارا کیاقصور۔ ویسے اگرامپائرسے مرادخاںصاحب کی ضدپر بنایاگیا تحقیقاتی کمیشن لیاجائے تواُس نے ”نوبال” بالکل درست قراردیاکہ قوم کواپنی اعلیٰ عدلیہ پراعتماد ہے۔اسی جلسے میں ہمارے لال حویلی والے بھی آئے ہوئے تھے جنہوںنے فرمایا ”ایازصادق نے دوسال تک مجھے اسمبلی میںبولنے نہیںدیاجس کی وجہ سے عوام نے اُن کی بولتی بندکر دی”۔ ایازصادق کی بولتی تو 11 اکتوبرکو پھرکھُل جائے گی اوروہ پارلیمنٹ میںاپنی نشست بھی سنبھال لیںگے لیکن شیخ صاحب کی ”بولتی” صرف الیکٹرانک میڈیاتک ہی محدودرہے گی جسے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے ذوالفقار مرزا ،الطاف حسین اورشیخ رشیدجیسے لوگوںکی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔آخرمیںقوم کے سوچنے کے لیے یہ سوال کہ ”ہنگامہ ہے کیوںبرپا ”۔ کیایہ جنگ ملک وقوم کے مفادمیں لڑی جارہی ہے یامحض حصولِ اقتدارکی خاطر؟۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر