ہمدردی یا بے دردی

Compassion

Compassion

تحریر: عفت بھٹی
دور موجودہ میں جب بھی حوا کی بیٹی لٹی نہ آسمان ٹوٹا نہ قیامت بپا ہوئی۔اور ابن آدم اپنے کیے پہ بناء پشیمانی اپنی آزادی پہ رقص کرتا رہا۔ قیامت ٹوٹی تو اس معصوم پہ جس نے اپنا گوہر عصمت تو گنوایا ہی مگر ہمدردی کے نام پہ پورے ملک میں چرچا بھی ہو گیا۔

میڈیا نے خوب کوریج دی۔اس کے چھپے چہرے کو ہر رخ سے نمایاں کر کے تصاویر لی گئیں۔آٹھویں کلاس کی وہ معصوم طالبہ جو ابھی گڑیوں کے گھروندے بناتی تھی اسے ایسے گورکھ دھندے میں ڈال دیا کہ اس کی روح بھی کانپ اٹھے۔جیتے جی مار ڈالنے والا دکھ بدنامی کے طوق کی صورت میں اس کے گلے میں ڈال دیا۔

Girl Abuse

Girl Abuse

میں نہ وہ واقعہ بیان کرنا چاہتی ہوں نہ اس کی تشہیر کہ پہلے ہی اس پہ بیدردی سے ہمدردی کے وار ہو چکے ہیں۔میراقلم تو اس بات پہ نوحہ خواں ہے کہ اس کا قصور کیا تھا ؟جو اس پہ یا اس کے والدین پہ گذر رہی ہوگی اس کے بعد اس کا مستقبل کیا ہے؟عجب ظالم دور ہے کہ جس پہ ظلم ہوتا ہے اس کی تشہیر مجرم کو پکڑنے سے ذیادہ ہوتی ہے یعنی :مرے پہ سو درے،شاید ہم انتہائی بے حس ہو چکے ہیں ہمیں ہر بات میں چسکے کی لت لگ چکی ہے۔

ہر مظلوم کی ہمدردی کی آڑ میں اس کے زخم پہ نمک چھڑ کتے نظر آتے ہیں۔شواہد موجود، حالات سامنے، حقیقت ظاہر مگر مجرم ندارد۔اسے پکڑنے میں اتنے تیز طراری نہیں دکھاتے جتنی متاثرہ فرد کی جگ ہنسائی کی ۔ڈی این ۔اے بھی میچ ہوگیا اب کیا ثبوت درکار ہے۔

اب معاملہ عدالت میں جائیگا۔کورٹ میں اس بچی سے ایسے ایسے سوال ہوں گے کہ انسانیت بھی شرما جائے۔گویا بچی کا حال بھی تباہ اور مستقبل بھی ۔کیا وہ چودہ سالہ بچی ا ن سوالات کا بھری عدالت میں سامنا کر پائے گی؟اس کے بعد کیا ہوگا اگر مجرم طاقت ور اور پہنچ والا ہوا توباعزت بری یا پھر کچھ عرصے کی قید اور بس اور کہانی ختم۔ماضی بھی اس بات کا گواہ ہے کہ کئی بنت ِحوا کی عزتیں پامال ہوئیں۔وہ میڈیا کی سرخیاں بنیں نہ انصاف ہوا نہ انصاف کے تقاضے پورے ہوئے۔

Lahore High Court

Lahore High Court

اگر ایک بھی درندے کو سر ِعام پھانسی پہ لٹکایا جاتا تو عین ممکن تھا کہ مقام ِ عبرت ہوتا اور ان جرائم میں کمی ہوتی۔مگر افسوس ہماری عدالتیں دیوانی مقدمات کی عادی ہیں اور غریب متاثرین کے پاس اتنا وقت اور دولت نہیں ہوتی کہ حصول ِانصاف کے لیے برسوں عدالتی دروازے کھٹکھٹاتے ،اور پیشیاں بھگتاتے رہیں۔

یہاں تو پیٹ کی روٹی پوری نہیں پڑتی ،چادر دیکھ کر بھی پائوں پھیلائو تب بھی پائوں ڈھکو تو سر ننگا ،سر ڈھکو تو پائوں ننگے ۔یہ ہے غریب کی حالت ِزار۔ وزیر اعلی کی طرف سے چار رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا اورجلد از جلد مجرم کو پکڑنے کی ہدایت کی اب دوسر ے رخ پہ نظر ڈالیں۔

پولیس اور پراسیکیوشن کی جانب سے دبائو پہ دو بار چھت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کی کوشش کی مگر اہل خانہ کے بر وقت اسپتال پہنچانے پر اسے بچا لیا گیا۔ اس کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ اس نے یہ قدم پولیس کے تفتیش کے دوراں ہراساں کرنے پہ اٹھایا۔

انہوں نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو از خود اس معاملے کا نوٹس لینے کی درخواست پیش کی ،چونکہ مبینہ مجرم عدنان ثنااللہ مسلم لیگ (ن) کے یوتھ ونگ کا ایڈیشنل سیکریٹری ہے لہذا ان پہ حکومت اور پولیس کا دبائو ہے کہ وہ اس معاملے سے اس کا نام خارج کر دے۔

گویا وہی صورتحال سامنے آگئی کہ اب کس کی جیت ہوتی ہے ؟قانون تو ازل سے اندھا ہے اور انصاف زیر ِزر ہے ۔رہی حکومت تو حکم ِحاکم ِمرگ مفاجات۔سب گول مال ہے۔

Justice

Justice

دیکھئیے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، زیادہ امکان یہی ہے کہ غلام گردشوں میں کھونے والے اور معاملات کی طرح یہ بھی انہی کی نظر ہو جائے گا اور متاثرین خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے یا بسمہ کے والد کی طرح زر اور نوکری کی اینٹ تلے خاموش کر دیے جائیں گے اور پھر اہل قلم اور میڈیا اس کو بھول بھال کر کسی اور بسمہ اور کسی اور متاثر پہ نظر ِکرم فرمائے گا۔

تحریر: عفت بھٹی