او آئی سی اجلاس

OIC

OIC

تحریر: حبیب اللہ سلفی
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والاسربراہی اجلاس اختتام پذیر ہو گیا ہے۔یہ تیرھویں اسلامی سربراہی کانفرنس تھی جس میں تیس ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی ۔ حالیہ اجلاس اس لحاظ سے خوش آئند تھا کہ اس میں پہلی مرتبہ کھل کر کشمیر، فلسطین، شام اور دیگر خطوں کے مسائل کانہ صرف تذکرہ کیا گیابلکہ عملی طور پر اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ پوری دنیا میںسب سے زیادہ مظلوم مسلمان ہیں اور ہر جگہ انہیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اجلاس کے دوران ترکی کے صدر طیب اردگان نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے باقاعدہ ادارہ بنانے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ سب ملک متحد ہو کر فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کردار ادا کریں۔ ہمیں ان لڑائیوں سے نکلنا ہو گا جن سے صرف مسلمان متاثر ہو رہے ہیں۔ ترک صدر کی اس تجویز کو اس حد تک تسلیم کر لیا گیا کہ ملٹی نیشنل پولیس کو آرڈی نیشن سنٹر بنانے کی منظوری دی گئی ہے جس کا مرکز استنبول میں ہوگا۔ اجلاس کے دوران کشمیر میں خصوصی نمائندہ بھجنے کا بھی اعلان کیا گیااور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر حل کرنے پر زور دیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں فرقہ واریت اور گروہ بندیوں پر مبنی سیاست کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ حزب اللہ شام، بحرین، کویت اور یمن میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ایران کو چاہئے کہ وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ عدم مداخلت کی بنیاد پر تعلقات قائم کرے۔ ادھر ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی اور وزیر خارجہ جواد ظریف نے او آئی سی اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور استنبول میں ہونے والے اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ اجلاس کے دوران فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی بھی سخت مذمت کی گئی۔

مسلمان ملکوں کے مشترکہ پلیٹ فارم او آئی سی کے اجلاس میں پہلی مرتبہ کوئی ہلچل اور مسلمانوں کیلئے عملی طو رپر کچھ کرنے کے عزم کااظہار دیکھنے میں آیا جس پر پوری مسلم دنیا کی طرف سے خوشی کا اظہا رکیا جارہا ہے وگرنہ ماضی میںبیرونی قوتوں کے سامنے جس طرح فدویانہ رویہ اختیا رکیا جاتار ہا اس سے اوآئی سی کا وقار مجروح ہوا اوراس کی حیثیت پر سوالات اٹھائے جانے لگے تھے ۔اجلاس میں کشمیر، فلسطین، شام، عراق اور دیگر جن خطوں کا ذکر کیا گیا وہاں واقعتا مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور اقوام متحدہ کی طرف سے جو حقوق تسلیم کئے گئے ہیں وہ بھی انہیں میسر نہیں ہیں۔ کشمیر جہاں خصوصی نمائندہ بھیجنے کا اعلان کیا گیا وہاں شروع دن سے مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ بھارت خودمسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ لیکر گیا لیکن اپنے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے وہ استصوائے رائے کا وعدہ پورا کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ہر آنے والے دن ہندوستان کی آٹھ لاکھ فوج کی جارحیت بڑھتی جارہی ہے۔

Human rights in Kashmir

Human rights in Kashmir

پچھے چند دن سے ایک بار پھر خاص طو رپر پورے کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کی جارہی ہیں۔ چند دن قبل بھارتی فوجیوں کی طرف سے ایک کمسن کشمیری لڑکی کی عصمت دری کی گئی اور جب کشمیریوں نے صدائے احتجاج بلند کی تو ان پر اندھا دھند گولیاں برسادی گئیں جس سے چھ کشمیری شہید اور کئی زخمی ہوگئے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پورے کشمیر میں کرفیو کی کیفیت ہے۔ کشمیریوں کو ایک جگہ اکٹھا ہونے سے روکنے کیلئے مساجد میں نمازوں کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جارہی۔ بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی سمیت پوری کشمیری قیادت کو ان کی رہائش گاہوں پر نظربند کر دیا گیا ہے۔ کرفیوکی پابندیاں توڑ کر سڑکوں پر نکلنے والے کشمیریوںکیخلاف پیلٹ گنوں اور پیپر گیس جیسے ممنوعہ ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں جس سے لوگوں کی بینائی متاثرہو رہی اور وہ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں لیکن اس سب کے باجود بین الاقوامی دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور کسی طرف سے غاصب بھارت کی ریاستی دہشت گردی کیخلاف کوئی آوازبلند نہیں کی جارہی ۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ چھوٹے چھوٹے بچوں اور خواتین کو جارحیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔بیت المقدس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کیلئے یہودیوں کی سازشیں بھی پوری دنیا کے سامنے ہیں مگر کوئی اسرائیل کا ہاتھ روکنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اسی طرح شام میں بھی یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ متعدد شہر ایسے ہیں جنہیں ٹینکوں کے ذریعہ ملیامیٹ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ کوئی گھر وہاں سلامت نہیں رہا۔

شام کے ایک کروڑ کے قریب مسلمان ترکی کی سرحد پر خیموں میں پناہ گزیں اور امدادکے منتظر ہیں۔ پورا ملک روس اور اتحادی ملکوں کی بمباری سے کسی کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے تاہم امریکہ جیسے ملک جو زبانی کلامی شام پر بمباری کی مذمت بھی کرتے ہیں اندرون خانہ روس کی مکمل حمایت کررہے ہیں۔یہ وہ حقائق ہیں جنہیں مسلم حکمرانوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے ملکوں کو درپیش مسائل حل کرنے کیلئے اغیار کی طرف دیکھتے ہیں’ انہیں یہ سوچ ترک کرنا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہوئے واضح طور پر فرمایا ہے کہ کفار کے باہمی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن مسلمانوں کے مقابلہ میں یہ سب ایک ہیں ۔ وہ انہیں نقصانات سے دوچار کرنے سے کسی صور ت باز نہیں آئیں گے۔ مسلم حکمران جن ملکوں سے مسائل حل کرنے کی توقع رکھتے ہیں وہی تو یہ سب مسئلے پید ا کرنیو الے ہیں۔ مسلم خطوں وعلاقوں میں جس قدر فتنہ و فساد، دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت ہے یہ سب انہی کی پھیلائی ہوئی ہے۔ وہ سب ایک ہو کر مسلمانوں کو ان کے اپنے ملکوں میں الجھا کر رکھنا چاہتے ہیں اور انتشار کی کیفیت پیدا کر کے دیوار سے لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں۔ او آئی سی کے سربراہی اجلاس میں اگر مسلمان ملکوں کے سربراہان مسلمانوں پر سے ظلم کے خاتمہ کیلئے سوچ و فکرکیلئے اکٹھے ہوئے ہیں تو انہیں قرآن کی رہنمائی میں پالیسی ترتیب دینی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ مسلمانو ں پر جارحیت کا ارتکاب کرنے والے ملکوں کیخلاف اللہ تعالیٰ کیا لائحہ عمل اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔

Muslims

Muslims

یہ باتیں صرف مشترکہ اعلامیہ تک محدود نہیں رہنی چاہئیں صرف رونے دھونے اور آنسو بہانے سے مسلمانو ں کو درپیش مسائل حل نہیں ہوں گے۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے درست کہا ہے کہ آج ہمیں اس بات کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے سب اکٹھے ہوجائیں اور نوجوان نسل کو دین کے نام پر فساد پھیلانے والوں کے شر سے بچایا جائے۔ آج متعدد اسلامی ملکوں کو بیرونی مداخلت، تکفیر اور خارجیت کے فتنے بھڑکائے جانے اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ مسلم ملکوں کا امن برباد کرنے کیلئے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا کر قتل و غارت گری کرنیو الے گروہوں کو استعمال کیا جارہا ہے۔ایسے فتنوں پر قابو پانے کیلئے سعودی عرب کی زیر قیادت 34ملکوں کے فوجی اتحاد کا قیام یقینی طور پر خوش آئند ہے۔جو ملک اس اتحاد میں شامل نہیں ہیں انہیں بھی چاہیے کہ وہ اس کا حصہ بن کر فعال کردار ادا کریں ۔ ڈالر و پائونڈکی غلامی سے نکل کر اپنی کرنسی تشکیل دیں’ بیرونی سازشوں کے مقابلہ کیلئے وسائل جمع کریں اور مشترکہ دفاعی نظاموں کی طرح اپنی منڈیاں تشکیل دیکر باہمی تجارت مضبوط بنائیں۔اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ کفار سے امیدیں لگانے کی بجائے یہ بات ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ ان کا مسلمانوں سے دوستیاں لگانااور مالی امداد فراہم کرنا سازشوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ان یکطرفہ دوستیوں کے نتیجہ میں ہی اغیا رکو مسلمان ملکوں میں مداخلت کے مواقع ملتے ہیں۔ مجیب الرحمن کی اندراگاندھی سے دوستی کے سبب ہی انڈیا کی مداخلت کے راستے ہموار ہوئے۔ مکتی باہنی بنی اور پھرہندوستان کی جانب سے فوجیں داخل کر نے پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ ہوا۔ مسلم حکمرانوں کو ان تاریخی حقائق سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور باہم متحد ہو کر مسلم امہ کو درپیش مسائل کے حل کی خاطرعملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور ایسی غلطیوں اور گناہوں سے بچیں جن کی وجہ سے وہ اللہ رب العزت کی پکڑ کا شکار ہیں۔یہی وہ طریقہ ہے جس پر عمل درآمد سے اللہ کی مدد ان کے شامل حال ہوگی اور کشمیر، فلسطین، شام اور دیگر خطوں کے مسائل ان شاء اللہ حل ہو جائیں گے۔

Habibullah Salafi

Habibullah Salafi

تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005