تنازع کشمیر: پارلیمانی جماعتوں کا حکومت کا ساتھ دینے پر اتفاق

Parliament Parties Conference

Parliament Parties Conference

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے کشمیر کے مسئلے پر حکومت کا ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا گیا ہے۔

کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر حالیہ کشیدگی کے تناظر میں مشاورت کے لیے وزیراعظم نواز شریف نے سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کا اجلاس پیر کو اسلام آباد میں طلب کیا تھا، تاکہ صورت حال پر غور کے بعد ایک متفقہ حکمت عملی تشکیل دی جائے۔

سیاسی جماعتوں کے اس اجلاس میں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں پاکستانی عوام ملک کی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

اعلامیے میں لائن آف کنٹرول پر بھارتی افواج کے مبینہ ’’بلااشتعال‘‘ فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایسے اقدام علاقائی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ بعض معاملات پر حکومت سے اختلافات کے باوجود کشمیر میں کشیدگی کے معاملے پر اُن کی جماعت وزیراعظم کا ساتھ دے گی۔

’’اگر ہم سب مل کر بھارت کو جواب نہیں دیں گے تو پھر ہمارا موقف کمزور ہو گامجھے مکمل اعتماد ہے اور وزیراعظم نے وعدہ کیا ہے کہ اگر کچھ معاملات کا ذکر آج قرار داد میں نہیں ہے تو ان کو بھی اٹھایا جائے گا۔‘‘

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’’ایک مشترکہ بیان پر اتفاق کیا گیا ہے یہ پاکستان کی عوام کے لیے ایک قابل فخر لمحہ ہے کہ اس معاملے پر ہر سیاسی جماعت ایک جگہ پر کھڑی ہے‘‘ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ کشمیر کے تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔

تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بھی کہا کہ ’’قومی مفاد میں اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘‘ اُن کی جماعت حکومت کے ساتھ ہے۔ تاہم شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے اجلاس کوحکومت کو یہ مشورہ تھی دیا کہ وہ خارجہ پالیسی بہتر بنائے۔

’’حکومت کی جو سفارتی کمزوریوں ہیں میں نے ان کی نشاندہی کی ہے اور میں نے بتایا ہے کہ کن کن شعبوں میں ان کی سفارتیناکامیاں تھیں اور کیا کمزوریوں تھیں اور کیا اقدامات اٹھانے چاہیے تھے۔‘‘ پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں یہ بھی کشمیریوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار بھی کیا گیا۔

اُدھر پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے الزام لگایا ہے کہ کشمیر کو منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے اتوار کو نصف شب کے قریب فائرنگ کی گئی جو پیر کو الصبح تک جاری رہی۔ تاہم فائرنگ کے اس واقعہ میں کسی طرح کے جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے اوڑی میں بھارتی فوج کے ایک بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر 18 ستمبر کو عسکریت پسندوں کے حملے میں کم از کم 18 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔

گزشتہ ہفتے بھارت کی طرف سے کہا گیا کہ اُس نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر ’سرجیکل سٹرائیکس‘ میں عسکریت پسندوں کے اہداف کو نشانہ بنایا، جس میں متعدد عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا گیا۔

پاکستان نے کسی بھی طرح کی ’سرجیکل سٹرائیک‘ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ جمعرات کو بھارتی فورسز کی لائن آف کنٹرول پر فائرنگ سے دو پاکستانی فوج ہلاک ہوئے تھے۔

گزشتہ ہفتے سے اب تک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستانی اور بھارتی فورسز کے درمیان تین مرتبہ فائرنگ کا تبادلہ ہو چکا ہے اور کشیدگی میں اضافے کے وجہ سے بعض سرحد علاقوں سے لوگوں نے محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی بھی کی۔