میاں صاحب نظریاتی ہوتے ہی اپنا ماضی بھول گئے

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : مسز جمشید خاکوانی

اج سارا دن یہی سوال ہوتا رہا کہ بھٹو اور بھٹو کی اولاد کے خلاف ہر سازش میں شریک میاں صاحب یکا یک ان کے حامی کیسے ہو گئے ؟ ہر پروگرام میں وہ وڈیو کلپ بھی سنائے اور دکھائے گئے جس میں میاں صاحب کبھی بینظیر پر تہمتیں دھر رہے ہیں تو کبھی گیلانی پر برس رہے ہیں کبھی بھٹو کو ملک توڑنے کا زمہ دار قرار دے رہے ہیں تو کبھی بھٹو کی بیٹی کو ، ابھی ذہنوں میں یہ الفاظ تازہ ہیں وڈیو ثبوت موجود ہیں جب میاں صاحب نے یوسف رضا گیلانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا گیلانی صاحب کرسی سے نیچے اترو بے گناہ ہوئے تو واپس آ جانا ورنہ چھٹی کرو یہ عدالت کا فیصلہ ہے اگر ہماری حکومت ہوتی تو ہم بھی تسلیم کرتے ان کو عوام نے اس لیے ووٹ نہیں دیا کہ یہ سپریم کورٹ سے لڑتے پھریں چاہے دس وزیر اعظم جائیں عدالت کا فیصلہ ماننا پڑے گا یہ حیوانوں کی بستی نہیں ہے ہم اسے حیوانوں کی بستی نہیں بننے دیں گے آج ہی ”ووٹ کو عزت دو” نامی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وہ اپنی ہی کہی ہر بات سے مکر گئے چار ڈکٹیٹروں کا ذکر کرتے ہوئے وہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ خود بھی ایک ڈکٹیٹر کی پیداوار ہیں ورنہ ج ان کا نام بھی نہ ہوتا داستانوں میں ،پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا ہر جرم آرمی اور عدلہ کے نام کرتے ہوئے ان کی زبان بھی نہیں لڑکھڑائی کیونکہ لکھی ہوئی تقریر بھی وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ ایک آدمی پڑھا ہوا کاغذ جلدی سے واپس لیتا جاتا ہے کہیں میاں صاحب وہی پرچی دوبارہ نہ پڑھنا شروع کر دیں کیونکہ میاں صاحب کا اپنا ذہن تو بالکل سلیٹ کی طرح صاف ہو چکا ہے اس سلیٹ پر جو کچھ مریم لکھواتی ہے وہ پڑھ دیتے ہیں عدالتیں بھی ان کو ثبوت دکھاتی ہیں لیکن وہ میں نہ مانوں کی تصویر بن جاتے ہیں ان کا دماغ اسی سوال میں الجھ گیا ہے کہ ججوں سے فیصلے لکھوانے والے اتنے غیر اہم کیسے ہو گئے کہ آج ان کے خلاف فیصلے آ رہے بلکہ ان کو گلہ ہے کہ صرف پانچ لوگ ووٹ کا تقدس پامال کر رہے ہیں ان کے ارد گرد وہی لوگ ہیں جو ان کی سوچنے سمجھنے کی راہ میں حائل ہیں وہ کہتے ہیں میاں صاحب ان ججوں کے بچوں پر زمین تنگ کر دیں گے ان کا احتساب کریں گے ان سے حساب لیں گے یہ چیز ہی کیا ہیں اور میاں نواز شریف کو وقت کی چاپ سننے کا اختیار ہی نہیں رہتا وہی مشاہد حسین سید جو کبھی مشرف کے ساتھ تھے قاف لیگ میں شامل تھے اب ان کے لیے ووٹ کو عزت دو جیسے نعرے تخلیق کر رہے ہیں جبکہ ووٹر کو عزت دینے کا انہیں ابھی بھی احساس نہیں مسند اقتدار پر براجمان ہوتے ہی ووٹر کو لات مار کے باہر پھینک دیتے ہیں صرف دھاندلی سے بھرے گئے ووٹ بکس ہی ان کے لیے اہم رہ جاتے ہیں عوام کی چیخ و پکار کا نوٹس عدلیہ نے ہی لینا تھا باقی کون بچا تھا جو ان کے سامنے کھڑا ہوتا ؟ہر فرعون کے لیے ایک موسی تو ہوتا ہی ہے یہ قانون قدرت ہے اس بار فوج نہ سہی تو عدلیہ ان کے ظلم کے آگے سینہ سپر ہو گئی
ڈاکٹر دانش کے پروگرام میں جنرل ضیاالحق کے فرزند اعجاذ الحق نے کہا مجھے آج میاں صاحب کی تقریر سن کر بہت دکھ ہوا ان کی پارٹی تو ہمارے ہی گھر سے بنی اور مجھے سمجھ نہیں آتی ان کو کیا چاہیے جنرل وحید کاکڑ،جنرل مرزا اسلم بیگ ،اور جنرل مشرف سے لے کر آج جنرل باجوہ تک یہ کیا چاہتے ہیں چیف آر آرمی سٹاف صبح ناشتہ کرنے سے پہلے انہیں سیلیوٹ مارے اور پوچھے کہ انہیں کیا چاہیے؟کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار جناب ریاض پیرزادہ اور رضا حیات ہراج نے بھی کیا ان کا بھی یہی موقف تھا کہ نا اھل وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی تو آج کس منہ سے وہ ووٹ کو عزت دینے کا تقاضا کر رہے ہیں جبکہ ووٹ کی عزت اسی میں ہے کہ صاف شفاف الیکشن ہوں کیونکہ اب ووٹ لینا آسان کام نہیں رہا اب ووٹ کو نہیں نوٹ کو عزت دی جاتی ہے اور سیاست میں پیسہ اس قدر انوالو ہو گیا کہ کوئی شریف اور ایماندار آد می ووٹ نہیں لے سکتا میاں صاحب کو اب تمام احسان اس لیے بھول گئے ہیں کہ فیصلے ان کے خلاف آنے لگے ہیں یہ اب عوام کو ورغلا رہے ہیں کہ اٹھو عدلیہ کے گلے پڑو ،آرمی سے لڑو پارلیمان کی اتنی بے توقیری کبھی نہیں کی جتنی میاں صاحب نے کی ساڑھے چار سال میں ہماری صرف دو میٹنگز ہیں ہمارے ملک کی یہ روایات نہیں ہے خواتین سے نازیبا الفاظ بلوائے جائیں لیکن یہ خواتین سے یہی کام لے رہے ہیں ایک مجھے افسوس ہے مشرف صاحب خود بھی شرمندہ ہیں کہ انہیں باہر نہیں جانے دینا چاہیے تھا یہ قانون کے مجرم تھے ان سے قانون کے مطابق سلوک کیا جاتا یہ کیسا لیڈر ہے جو اوپر سے لوگوں کو اکساتا ہے کہ رمی سے لڑو عدلیہ کے گلے پڑو اور اندر سے یہ کوئی پندرہ بیس کونٹیکٹ یوز کر چکے ہیں کہ مجھے این آر دو کیا یہ دہرا میعار نہیں ہے؟سپریم کورٹ پر حملہ بھی نواز شریف کی روایات میں شامل ہے ججز کو بار بار دھمکیاں دی گئیں اور آخرکار جسٹس اعجاز الاحسن کی رہائش گاہ پر حملہ ہو بھی گیا گو اس حملے کے ملزم ابھی منظرعام پر نہیں آئے لیکن حقائق کیا نشاندہی کرتے ہیں جسٹس اعجاذ الاحسن ہی شریف خاندان کے ٹرائل کے نگران جج ہیں نواز شریف اور مریم نواز براہ راست پانامہ بینچ کے ججز کے خلاف اشتعال پھیلا چکے ہیں جلسوں میں کہہ چکے ہیں کہ عوام ان پانچ ججوں کا احتساب کریں گے ان سے حساب لیں گے نہال ہاشمی ان کے بچوں پر زمین تنگ کر دینے کی دھمکی دے چکے ہیں پنامہ کے پورے کیس کے دوران جو جج کم بولا مگر سب سے اہم سوالات اٹھائے وہ جسٹس اعجاذ ہی تھے جنھوں نے بیس اپریل کے فیصلے میں ”ایف زیڈ ای ” کا ذکر کر دیا تھا جس پر دانیال عزیز کا ایک وڈیو کلپ سامنے آیا تھا جس میں وہ نواز شریف کی موجودگی میں جسٹس اعجاذ الاحسن کے بارے میں کہہ رہے ہیں اس جج کے بارے میں ہم نے بہت کچھ اکھٹا کر لیا ہے اس کو اب جواب دینا پڑے گا اور اہم بات یہ ہے کہ دانیال عزیز جن تین بیانات پر توہین عدالت کیس کا سامنا کر رہے ہیں ان میں سے دو جسٹس اعجاز الاحسن کے خلاف ہیں ایک وہی دھمکی آمیز بیان ہے جو انہوں نے جسٹس اعجاذ کو دیا تھا پھر یہ بھی جسٹس اعجاذ ہی تھے جنھوں نے شریف خاندان کی جے آئی ٹی میں پیشیوں پر کہا تھا کہ ان کی تمام پیشیوں پر حکمت عملی یہی رہی ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے جائو تو کچھ بتائو نہیں ،وہ خود کچھ سامنے رکھیں تو اس کا اعتراف نہ کرو ،دستاویزات مانگیں تو دو نہیں ،انھیں نکالنے دو اگر خود کچھ نکالتے ہیں تو ،اس پر انہوں نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی خود کچھ نکال آئی ہے تو پھر شکایت کیسی ؟گذشتہ چار ماہ سے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عوامی مفاد کے ایشوز پر جوڈیشل ایکٹوازم شروع کر رکھا ہے جس میں مستقل طور پر جسٹس اعجاذ الاحسن ان کے ساتھ بینچ میں شریک ہیں جسٹس اعجاذ کے بارے میں ہی چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے برطانوی عدالت کا ایک فیصلہ نکالا ہے جس کے مطابق اگر عدلیہ کے خلاف یک طرفہ الزامات کا سلسلہ جاری ہو تو تو جج اس پر بول سکتے ہیں گذشتہ ماہ میں جتنے بھی کرپٹ اشرافیہ اور مافیا کے خلاف فیصلے آئے ہیں اس میں جسٹس اعجاذ کا دبنگ کردار ہے ایک ایسا جج جو تمام فائلیں پڑھ کر آتا ہے جو انتہائی جرات کے ساتھ فیصلے دیتا ہو جس کے راستے میں مفاد،لالچ،خوف آڑے نہ آتا ہو اس کے گھر پر فائرنگ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اور ایک ایسے وقت میں جب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اپنے تمام ججز اور پانامہ بینچ کے ججز کے ساتھ دل و جان سے کھڑے ہیں !

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : مسز جمشید خاکوانی