کرپشن اور بلوچستان سب چلتا ہے

Corruption

Corruption

تحریر: شبیر احمد لہڑی
گوں کہ کرپشن پورے ملک کا سنگین ترین اور تشویشناک معاملہ ہے، اس حوالے سے مختلف ادوارمیں مختلف کیسز سامنے آنے پر تحقیقات کے اعلانات اور کسی حدتک شاید عمل بھی سامنے آیا مگر جہاں تک سوال ہے زمہ دارن کے خلاف عملی کاروائی اور انہیں سزائیں دینے کی تو شاید پاکستان وہ واحد ملک ہے جس میں قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹنے والے کرپٹ عناصر خاصے خوش قسمت ثابت ہو ئے ہیں۔

آج تک کوئی ایسا کوئی قابل ذکرکیس نہیں ملتا جس میں ملوث کردارکوقانون کے مطابق غیرمتنازعہ سزاء دی گئی ہو،البتہ سیاسی انتقام کے طورپرمخالفین کوہراساں کرکے انہیں بلیک میل کرنے کی روایت کرپشن کے خلاف حقیقی اقدامات قرارنہیں دیئے جاسکتے اورنہ ہی ایساکوئی عمل قومی خزانہ کی حفاظت اورعوام کے مفادکے لئے کیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے اپنے دورمیں کچھ زیادہ چرچاپانے والے کیسزمیںسے ایک ملک کے سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان سے متعلق ہے جہاں ایک جانب جس قدربھیانک اندازمیںغربت اورپسماندگی نے ڈیرے ڈال رکھی ہے ،تودوسری جانب اس کے قدرتی اورقومی وسائل کواتنی بے دردی سے لوٹاجارہاہے ،ایک ایساصوبہ جہاں کے دیہی علاقوں میں آج بھی زندگی کی بنیادوں سہولیات کاتصورتک نہیں مگران تمام ترتلخ حقائق کے باوجود یہاںکے باسیوں کوسہولیات کی فراہمی اوران کے حقوق کی حفاظت کے لئے اقدامات سامنے آنے کے بجائے بے دردی سے لوٹنے کی مزید واقعات رونماء ہوتی جارہی ہیں۔

اس امرسے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ بجٹ کی مد میں مرکزسے ملنے والی رقم صوبے کی آبادی کے حساب سے کافی ہوتی ہے مگرمعاملہ ان کوشفاف طریقے سے خرچ کرنے کاہے،اس حوالے سے نہ صرف دانستہ غیرزمہ داری کامظاہرہ کیاجاتاہے بلکہ ایسامحسوس ہوتاہے کہ کہ یہ رقم صوبے کے عوام کی ترقی اورخوشحالی کے لئے نہیں بلکہ اس مخصوص طبقہ کونوازنے کے لئے مہیاکی گئی ہے جنہیں نامزدعوامی نمائندے کے نام پراس صوبے کے مفلوک الحال بے بس لوگوں پرمسلط کیا جاتا ہے، نامزداس لئے کہاکہ بلوچستان میں نمائندوں کومنتخب نہیں بلکہ نامزدہی کیاجاتاہے وگرنہ کئی دہائیوں سے صرف مخصوص خاندان یامنظورنظرافراداقتدارپربراجمان نہیں ہوتے اوراسی مورثی اجارہ داری پرمبنی سیاست کی روایت ہی کا نتیجہ ہے کہ صوبے کے نوجوان مایوس ہوکرایک ناپسندراستہ کاانتخاب کرچکے ہیں مگرتاحال ہمارے حکمرانوں کو ان کی ناراضگی کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی۔ بلوچستان میں بدنام زمانہ کرپشن کا واقعہ اگرچہ قابل مذمت ہے مگر ماضی سے لیکرآج تک کرپشن کے جاری سلسلہ سے اس کاموازنہ کیاجائے تویہ اپنی نوعیت کاکوئی غیرمعمولی واقعہ قرار نہیں دیاجاسکتا،واقفان حال جانتے ہیں کہ ماضی میں صوبے کی بجٹ کاکتناحصہ مجوزہ منصوبوں پرخرچ اورکتناخردبردہوتاآیاہے ؟اس کے علاوہ صوبے کے مختلف محکموں اوراداروں میں کس قدردیدہ دلیری سے بدعنوانی ہوتی ہے یہ کوئی پوشیدہ کہانی نہیں ہے ،البتہ اس معاملے میں صر ف خزانہ یاٹینکی لیکس افشاء کرنے کی محرکات کیاہیں ؟اس حوالے سے صوبے کے عوام تاحال حقیقی صورتحال سے سے لاعلم اورگومگوںکیفیت کا شکار ہیں، شایدآنے والے ادوارمیںاس پراسرار افسانے کی مکمل اندرونی کہانی بھی منظرعام پر آ جائے۔

عرض کیاتھاکہ بلوچستان میں کرپشن کوئی انہونی بات نہیں اس لئے اگرمتعلقہ حکام واقعی اس کے خاتمے کے حوالے سے سنجیدہ ہیں توانہیں یہاں مختلف صورتوں میں ہونے والی کرپشن کے خاتمے کے لئے بھی متحرک ہوناچاہئے ،جبکہ ابھی تک اس معاملے میں کسی پیش رفت کے آثارنظرنہیں آرہے ،اس حوالے سے بتایاجائے کہ کاروائی کرنے میں کونسی رکاوٹیں حائل ہیں؟ صوبے کے سرکاری محکموں کے فنڈز کے مقابلے میں ان کی کارکردگی کاایمانداری سے جائزہ لیاجائے توپوری حقیقت کھل کرسامنے آجاتی ہے ان اداروں کے لئے مختص کثیررقوم کس طرح خرچ ہورہی ہیں ،صرف محکمہ تعلیم یامحکمہ صحت کی کارکردگی پرنظرڈالیں توایک انتہائی مایوس کن صورتحال سامنے آجاتی ہے کہ بجٹ سے اربوں روپوں کھانے والے مذکورہ محکمے کارکردگی کے حوالے سے کس قدرزبوحالی کا شکار ہیں۔

Balochistan

Balochistan

یہی کیفیت صوبے کے دیگرسرکاری محکموںکی ہے جہاں ترقیاتی اور ترقیاتی اخراجات کے مدمیں سالانہ کروڑوں نہیں اربوں روپوں کی کرپشن ہورہی ہے یہ سلسلہ خفیہ نہیں بلکہ دیدہ دلیری سے مستقل جاری ہے جب قومی خزانے کوبے دردی سے لوٹنے والے عناصرسے ایک عام شہری واقف اورانہیں ہونے والے کرپشن کاعلم ہے توپھریہ جوازقابل قبول نہیں کہ متعلقہ اداروںکے پاس ان کے خلاف ثبوت نہیں ،آسان سی مثال صوبے کے کسی بھی محکمہ کے ادنیٰ سے آفیسریایونین کے کسی عہدیدارکے اثاثوں کاجائزہ لیکراس کی جائزآمدنی سے اس کاموازنہ کیاجائیںتودودھ کادودھ پانی کاپانی ہو جائے گا۔

آج بھی بلوچستان کے طول وعرض میں سینکڑوں مشتاق رئیسانی موجودہیں جومختلف محکموں میں نوگریڈکی کسی اسامی کے زریعے کروڑں کے اثاثے بناکربیٹھے ہوئے ہیں جنہیں پوچھنے والاکوئی نہیں بلکہ یہ افراداس ناجائزآمدنی کی بدولت نہ صرف معاشرہ کے معززطبقہ شمارہوتے ہیں بلکہ ہرحلقہ میں انہیں بااثرتصورکیاجاتاہے جوہمارے ہمارے معاشرے کی پست ذہنی اوراحسا س کمتری میں مبتلاہونے کاواضح ثبوت ہے۔ صوبے میں جاری کرپشن کی مختلف صورتیں ہیں ،منتخب عوامی نمائندوںکے فنڈزکااجتمائی مفادات کے بجائے سیاسی رشوت کے طورپرمنظورنظرافرادکے ذاتی مفادات کے لئے خرچ کرنے کارجحان،سرکاری دفاترمیں طے شدہ فارمولوں کے تحت فنڈزکومحض کاغذی کاروائی کے زریعے ٹھکانے لگانا،سرکاری داروں اورزمہ دارآفیسران کی جانب سے اسمگلنگ کو غیرقانونی تحفظ دیکرمال بنانے کامذموم دھندہ ،قومی خزانے کے لئے متوقع آمدنی کوغیرقانونی صورت دیکرہڑپ کرنے کے گُرسمیت کئی دیگرطریقے ہیں جن پرعوام نہیںبلکہ خودسرکاری ادارے اوران کے اہلکارعمل پیراہوکر ماہانہ بنیادوں پراربوںکی کرپشن کررہے ہیں ،مگرمجال ہے کہ کسی سے کوئی بازپرس کی جاتی ہو۔

یہاں یہ سوال ابھرسکتاہے کہ جب قومی خزانہ کوبے دردی سے لوٹا جا رہا ہوا ور عوام کے حقوق کا استحصال عام ہوچکاہوتووہاں کی عوام یاکوئی بھی طبقہ اس کے خلاف آوازکیوں نہیںاٹھارہا؟اس کاجواب اگرچہ تلخ توہے مگرمبہم نہیں کہ بلوچستان وہ واحدصوبہ ہے جہاں کے لوگوں کودانستہ خوف وہراس میں مبتلاکرکے انہیں ایک آزادشہری کے بجائے محکوم ہونے کاتاثردیا جاتاہے تاکہ وہ حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی ،سیاسی رہنمائوں کی امتیازی رویوں پرآوازاٹھانے کی ہمت نہ کرسکیں ،بیرون صوبہ شایدکسی کویقین نہ آتاہو کہ بلوچستان میں آج بھی بعض ایسے علاقے موجودہیں جہاں اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر تعینات آفیسر اپنی خودساختہ اختیارات ،احکامات اوررویہ کے بناپر کسی مغل بادشاہ سے کم نہیں وہ تحصیل سطح پراپنے دائرہ اختیارمیں رہاش پذیر لوگوں کے تمام ترآئینی وانسانی حقوق سلب کرکے سیاہ وسفیدکامالک بناہوتاہے ، ”لیویز” کی صورت میں انہیں ایک ذاتی فوج میسرہوتی ہے جس کے زریعے وہ لوگوں کوبے بس بناکراپنے ہرجائزوناجائزحکم یاخواہش کی تکمیل کرتاہے ،اگرملکی آئین اورقوانین کے تناظرمیںاس کی کارناموں کاموازنہ کیاجائیں تونہ صرف متصادم بلکہ آج کے اس جدیددورمیں انسانی وشہری حقوق کی پامالی کے زمرے میں آجاتے ہیں مگرلوگ یہ سوچ کرمحکمومی قبول کرلیتے ہیں کہ مذکورہ آفیسرکومنتخب عوامی نمائندہ اورسیاسی نمائندہ کومقتدرقوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے ،کسی بھی احتجاج کی صورت میں کسی ناکردہ جرم کی الزام میں وہ باسانی زیرعتاب آ سکتا ہے۔

یہی صورتحال صوبے کے صحافیوں کودرپیش ہے ان کے سامنے دوہی راستے ہوتے ہیں ایک یہ کہ علاقے کے کرپٹ آفیسران ،سیاسی نمائندوںاوران کے کارندوںکے چیلے بن کران کے ناانصافی پرمبنی غیرقانونی کرتوتوں پرآنکھیں بندکرکے اپناحصہ وصول کرلیں یاپھرناپسندافرادکی فہرست میں شامل ہوکر مختلف صورتوںمیں بلیک میل ہونے کاسامناکرنے کے لئے تیارہوجائیں یہی نہیں اگراس نے کچھ زیادہ حق گوہونے کی کوشش کی توکسی سنگین الزام کے تحت مشکوک قراردیکر کسی بھی زریعے سے موت کے منہ میں دھکیل دیئے جانااس کاانجام بن جاتاہے ،اس صورتحال میں مذکورہ علاقوں کے بے بس صحافیوں سے قلم کے زریعے کرپشن یاعوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف آوازاٹھانے کی توقع عبث اور ان کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔

یہی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے کسی بھی طبقہ فکرکی جانب سے بلوچستان میں جاری مختلف نوعیت کی کرپشن کے خلاف کوئی آوازنہیں اٹھائی جاتی اورنہ ہی اسے حقیقی معنوںمیں بے نقاب کیاجاتاہے ،البتہ جب ریاستی ادارے خودمخلصانہ بنیادوںپرکرداراداکرنے کے لئے سنجیدہ ہوجائیں تب کچھ ممکن ہے اورپھرشایدروزانہ کے بنیادپردرجنوں کے حساب سے خزانہ لیکس جیسی کہانیوں سے پردہ اٹھتاجائے ،بلکہ وثوق سے کہاجاسکتاہے کہ بلوچستان کے حوالے سے اہل وطن کے سامنے کرپشن کی ایسی کہانیاں بھی سامنے آجائیں گی کہ ماضی کے تمام تراسکینڈلزان کے سامنے ہیچ نظرآئیں گے۔ لیکن اگر منتخب عوامی نمائندوں کے فنڈزمیں بے دریغ خردبرد، ترقیاتی کاموں میں انتہائی ناقص معیارکے زریعے فنڈزکے ضیاع ،سرکاری محکموں کی اسامیوں پرتعیناتی کے لئے بے روزگار نوجوانوں سے لاکھوں روپوں رشوت کی وصولی ،قانون نافذکرنے والے اداروں خصوصابی ایریامیں لیویزکی جانب سے قومی خزانے کے لئے ناسورکی حیثیت رکھنے والی بیماری اسمگلنگ کی حوصلہ افزائی اوربدلے میں کروڑوں روپے بھتہ کی وصولی جیسے تمام پہلوئوں کونظراندازکرکے انسدادبدعنوانی پرماموراداروں کی جانب سے محض اشتہارات کے زریعے متاثرہ عوام ہی سے کرپشن کے سدباب کے لئے تعاون کی اپیل جیسے مذاق کاسلسلہ جاری رکھاجاتا ہے توپھرصوبے کے عوام میں پائی جانے والی یہ بدگمانی یقین میں بدل سکتی ہے کہ مقتدرقوتیں بلوچستان میں کرپشن کے خاتمے کے لئے تاحال حقیقی معنوں میں سنجیدہ نہیں بلکہ یہاں” سب چلتاہے”پرمبنی طے شدہ پالیسی کے تحت ہرایک اپناحصہ وصول کرنے کی تگ ودومیںہے تاکہ موقعہ غنیمت کہیں ہاتھ سے نکل ہی نہ جائے۔

Shabir Ahmed Lehri

Shabir Ahmed Lehri

تحریر: شبیر احمد لہڑی