کرپشن پاکستانی سیاست کا ٹریڈ مارک

Corruption

Corruption

تحریر: آر ایس مصطفی
حضرت عمر فاروق کا مشہور قول ہے” عوام میں اس وقت تک خرابی پیدا نہیں ہوتی جب تک ان کے رہنماان سے سیدھے رہتے ہیں جب تک راعی اللہ کی راہ میں چلتا رہتا ہے رعایا اس کے پیچھے پیچھے چلتی رہتی ہے لیکن جہاں اس نے پائوں پھیلائے رعایا اس سے پہلے پیر پھیلالیتی ہے۔

پاکستان میں آنے والی ہرحکومت نے کرپشن کے خاتمے کا وعدہ کیا،جلسے جلوسوں میں کرپشن جیسے موذی مرض پر لمبی لمبی تقریریں کیں اوراپنے حق میں نعرے لگوائے اور بھولی بھالی عوام سے زندہ باد یں وصول کیں مگر کرپشن کے ناسور کو ختم کرنے کی بجائے خود کرپشن میں ملوث پائے گئے۔جن ہاتھوں نے ملکی معیشت کو سہارا دینا تھا وہی ہاتھ ہمیشہ پاکستان میں معیشت کی گردن کو دبوچے ہوئے پائے گئے۔

ذولفقار بھٹو سے نواز شریف تک اور ایوب خان سے پرویز مشرف تک امریت ہو یا جمہوریت سب نے اپنے اپنے دوراقتدار میں عوام سے ملک کو کرپشن سے چھٹکارا دلانے کے وعدے کئے مگر اپنے دور اقتدار میں اپنے پیاروںکو نوازتے رہے اور کوئی بھی حکمران قانون کے شکنجے میں نہیں آیا۔اگر دیکھا جائے تو آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن و میرٹ پر تعیناتی نہ ہونا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں روزانہ کی کرپشن 12 ارب روپے ہے ،کرپشن وہ ناسور ہے جو ملک کو اندر سے کھوکھلا اور اداروں کو تباہ کردیتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج سٹیل ملز ،پی آئی اے ، پاکستان ریلوے خسارے میں چل رہے ہیں اور اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔پاکستان میں احتساب کا عمل مکمل طور پر مفلوج ہوچکا ہے اور یہاں کسی بھی بڑی شخصیت کا احتساب ناممکن نظر آتا ہے۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان میں کرپشن سکینڈلز کوئی بڑی بات نہیں اس قوم نے بڑے بڑے کرپشن دیکھے جن میں لندن فلیٹس ہو ،سرے محل ہو ،مہران بینک کیس ہو یا ہیلی کاپٹر کیس ہو۔ہیلی کاپٹر کیس میں موجودہ وزیر آعظم میاں نوازشریف کو جولائی 2000 میںعدالت نے14سال قید 2 کروڑ جرمانہ اور اکیس سال کے لئے نااہلی کی سزا سنائی تھی،فیصلے میںجج فرخ لطیف نے کہا تھاکہ نوازشریف نے ہیلی کاپٹر کی لیز،خریداری دیکھ بھال اور آپریشن پر جو رقم خرچ کی وہ ان کے انتخابی گوشواروں میں ظاہر کی جانے والی آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتی۔پانامہ لیکس سے ہونیوالے انکشافات پاکستانیوں کے لئے کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔

پانامہ لیکس کے دستاویزات کے مطابق 400 پاکستانی شحصیات آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں اور پاکستان کے بڑے میڈیا ہائوسز کے مالکان ،نجی کمپنیوں کے مالکان اور پاکستان کے بڑے بڑے سیاستدان گھرانے شامل ہیں،ان بڑے بڑے خاندانوں میں ایک خاندان پاکستان کے وزیرآعظم کا خاندان ہے ۔پانامہ لیکس میں وزیرآعظم کی صاحبزادے حسن نواز ،حسین نوار اور صاحبزادی مریم نواز کا نام آنے کے بعد پاکستانی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے اور پاکستانی میڈیا کی نظر شریف خاندان پر ٹکی ہوئی ہیں۔آپوزیشن اس معاملے میں سنجیدہ اور ابھی تک متحد نظر آتی ہے،عمران خان سڑکوں پر آنے کا عندیہ دے چکے۔

پالیمانی کمیٹی ابھی تک ناکام نظر آتی ہے ابھی تک ٹی او آرز پر کوئی اتفاق رائے قائم نہیں ہوسکا ،پاکستان ایک سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔پاکستان میں جہاں آج تک کوئی انکوائری کمیشن یا جوڈیشنل کمیشن کا فیصلہ نہیں ہوا وہیں پر پانامہ لیکس پر دبائو کا شکار رہنے والے برطانیہ کے وزیرآعظم کیمرون اب کرپشن کے خلاف خود سرگرم عمل ہوگئے ہیں۔برطانیہ کے وزیرآعظم کیمرو ن نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا پارلیمنٹ میں آکر خود جواب دیا اور انکی پارٹی نے کوئی ساتھ نہیں دیا۔اب ڈیوڈ کیمرون خود کرپشن کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں اور انھوں نے کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ڈیوڈ کیمرون نے کہاکہ” کرپشن کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔

Accountability

Accountability

آج ہم اسی سلسلے میں جمع ہوئے ہیں ،کرپشن کو بے نقاب کرنے اور اس کے مرتکب افراد کو سزا دینے اور اس کا قلع قمع کرنے کے لئے”کاش کہ ہمارے وزیرآعظم اور تمام پارٹیوں کے سربراہ بھی خود کو احتساب کے لئے پیش کرتے اور ایسی کانفرنس کا انعقاد کرتے جس میں کرپشن کے خلاف اقدامات کا فیصلہ کیا جاتا،سوئس بینک سے پاکستانیوں کا 200 بلین ڈالر واپس لانے کے لئے اقدامات کئے جاتے۔یہاں صرف ایک پانامہ نہیں ہے بلکہ چالیس ایسے ممالک و جزائر ہیں جہاں پر پاکستانیوں کا لوٹا گیا پیسہ آف شور کمپنیوں کی شکل میں موجود ہے۔

مشہور چینی کہاوت ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر سے گلنا شروع ہوتی ہے یہ ایک بہت بڑا سچ ہے ،اگر ہم کسی بھی ملک ،کسی بھی معاشرے اور کسی بھی ادارے کی تباہ حالی کا جائزہ لیں تو ہمیںمعلوم ہوگا کہ جہاں کہیں بھی نااہل لوگوں کو تعینات کیا گیا وہ ملک ،وہ معاشرہ ،وہ ادارہ اور وہ تنظیم تباہ ہوجاتے ہیںکیونکہ جب ملک کا سربراہ ،ادارے کا سربراہ خود کرپٹ ہوگا تو وہ کبھی اپنے ملک اپنے ادارے میں گڈ گورننس قائم نہیں کرسکتا۔آج ہمیں چاہیے کہ بڑے لوگوں کا احتساب کریں ایسا نظام لائے کہ کسی بھی بڑے شخص کی قانون شکنی پر متعلقہ ادارے خود بخود حرکت میں آئے اور کبھی کسی انکوائری کمیشن اور جوڈیشنل کمیشن کا قوم کو انتظار نہ کرنا پڑے۔اگر آج ہم نے اپنے ملک اپنے اداروں کو بچانا ہے تو ہمیں کرپشن جیسی ناسور بیماری جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہو گا۔

R.S.Mustafa

R.S.Mustafa

تحریر: آر ایس مصطفی
ڈپٹی جنرل سیکریٹری پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ
Facebook :https://www.facebook.com/RanaSajeel.Mustafa
Cell # 03008955805 03044242576
twitter: @sajeel_rana
Email:engr.sajeelmustafa@gmail.com

CNIC:36303-0698992-1
Email:engr.sajeelmustafa@gmail.com
03008955805