ملک دشمن این جی اوز پر پابندی ضروری

Save The Children NGO Ban

Save The Children NGO Ban

تحریر: مہر بشارت صدیقی
پاکستان مخالف سرگرمیوں پر انٹرنیشنل این جی اوسیو دی چلڈرن پر پاکستان میں پابندی عائد کردی گئی ہے جبکہ اسلام آباد میں مارگلہ روڈ پر واقع ان کا دفتر بھی سیل کردیا گیا ہے۔ اس این جی او کا عملہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ غیرملکی عملے کو پندرہ دن میں پاکستان چھوڑنیکا حکم دیاگیا ہے۔ سیو دی چلڈرن نے جعلی پولیو مہم چلانے کے لیے ڈاکٹرشکیل آفریدی کی خدمات دو ہزار دس میں حاصل کی تھیں۔ ڈاکٹرشکیل کو سیو دی چلڈرن کی جانب سے تیرہ لاکھ روپے دیئے گئے۔ سیو دی چلڈرن کی تمام سرگرمیوں کی مکمل چھان بین کے بعد اسے پاکستان میں کام کرنے سے روکا گیا۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کی گرفتاری کے بعد سیو دی چلڈرن کے رابطہ کار ذمہ دار کو شکیل آفریدی نے پہچاننے سے انکار کیا تھا۔اسلام آباد ضلعی انتظامیہ کے مطابق وزارت داخلہ کی ہدایت پر سیکٹر ایف سکس ٹو میں سیو دی چلڈرن کا دفتر سیل کردیا گیا ہے۔ این جی او کا دفتر مشکوک سرگرمیوں پر بند کرکے دفتر کے باہر پولیس تعینات کردی گئی ہے۔ سیو دی چلڈرن کو دو ہزار بارہ میں بھی کام سے روکا گیا تھا جس کے بعد امریکا کی مداخلت پر تنظیم کو دوبارہ کام کی اجازت دی گئی تھی۔اس این جی او پر پابندی کے اگلے روز خبریں چلیں کہ اسے کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

این جی او کے افسروں نے مختلف سیاست دانوں اور بیورکریٹس سے رابطے کئے جس کے بعد وزارت داخلہ نے نیا نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں سیو دی چلڈرن کی بندش کے حکم کو تاحکم ثانی موخر کر دیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سمیت حکومتی ترجمانوں نے این جی اوزکے حوالے سے جس واضح موقف کا اظہار کیا تھا حکومت امریکی دبائو پر اس سے پیچھے ہٹتی نظر آرہی ہے۔وزیر داخلہ نے بیرونی این جی اوز کی پاکستان میں مشکوک سرگرمیوں ،تہذیب و تمدن اور ثقافت کو بدلنے اور مغربی رنگ میں رنگنے کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے بعد” سیودی چلڈرن”پر پابندی لگائی تھی مگر امریکی دبائو کے بعد یہ این جی او حکومت کے سامنے کھڑی ہوگئی

Government

Government

جس کے بعد حکومت نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے اس پر پابندی کا فیصلہ واپس لے لیا۔ جو بیرونی این جی اوزحکومتی اجازت اور مرضی سے پاکستان میں تعلیم اور صحت کی بہتری کیلئے خلوص دل سے کام کررہی ہیں وہ ہماری محسن ہیں اور انہیں ہم خوش آمدید کہتے ہیں مگر این جی اوز کے نام پر کام کرنے والی ایسی تخریب کار ایجنسیوں جن میں شکیل آفریدی جیسے ملک دشمن عناصر اور ایجنٹوں نے پناہ لے رکھی ہو اور جو ملک میں دہشت گردی اور تخریب کاری جیسے جرائم میں ملوث ہیں انہیں ملکی سلامتی اور استحکام سے کھیلنے کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ،حکومت کو ان کی سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لینا ہوگا۔ اس وقت پاکستان عالمی سطح پر ایک نازک دورسے گزر رہا ہے ،بھارت آئے روز پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے

پاک چین اقتصادی راہداری بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ ہر صورت اس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتا ہے ، بھارتی ایجنڈا اب کسی سے مخفی نہیں ہے ،بھارتی وزیر خارجہ سمیت کئی حکومتی اہلکاروں کی طرف سے پاک چین کوریڈور کے خلاف بیانات سامنے آچکے ہیں ،ہم اس علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ پاکستان کو دولخت کرنے اور بنگلا دیش کے قیام میں بھی این جی اوز کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ،ایسٹ تیمور کی انڈونیشاء سے اور سوڈان سے جنوبی سوڈان کی علیحدگی میں بھی این جی اوز ہی کا ہاتھ تھا ، ہمیں اس پر پوری نظر رکھنا ہوگی اور اس سلسلے میں امریکہ سمیت کسی بھی عالمی قوت کا دبائو قبول نہیں کرناچاہیے

این جی اوز کے ورکروں کو صرف انہی علاقوں میں کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئے جہاں حکومت اور تعلیم و صحت کے اداروں کی طرف سے ضرورت محسوس کی جارہی ہو ،قبائلی ایریاز سمیت ایسے علاقے جو حساس ہوں اور جن میں فوج کام کررہی ہو وہاں این جی اوز کوکسی صورت بھی داخلے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔حکومت کی طرف سے سیو دی چلڈر ن کو دوبارہ کام کی اجازت پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے موقف دیتے ہوئے واضح کیا کہ جس این جی او کے خلاف اسلام آباد میں ایکشن لیا گیا تھا وہ واپس نہیں لیا گیا، وزیراعظم نے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی کی سربراہی میں جو بین الوزارتی کمیٹی قائم کی ہے وہ این جی اوز کی ریگولیشن اور مانیٹرنگ کے معاملہ پر سفارشات تیار کرے گی جو ملک کے مفاد میں ایک بہتر اقدام ہوگا۔

NGO

NGO

جس این جی او نے ریڈ لائن کراس کی اس کے خلاف ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی اور اس سلسلے میں کوئی دبائو قبول نہیں کیا جائے گا، کسی بھی این جی او کے خلاف انٹیلی جنس رپورٹس ہوئیں تو متعلقہ این جی او کا معاملہ عدالت کے سپرد کیا جائے گا، کسی سیاستدان، بیورو کریٹ، جج، جرنیل یا ایلیٹ کلاس کو این جی او میں کام نہیں کرنا چاہئے۔ سالہا سال سے این جی اوز کے بارے میں ضابطہ اور قوانین بدنظمی کا شکار تھے۔ این جی اوز کا کام کیا تھا اور وہ کر کیا رہے تھے، سینکڑوں این جی اوز یہاں آ کر کام کرتی رہیں اور ان پر یہاں کا کوئی قانون لاگو نہیں تھا، ڈیڑھ سال سے حکومت نے کارروائی کی، کئی این جی اوز کے ویزوں پر پابندی لگائی، ان کے دفاتر سیل کئے۔ حکومت نے این جی اوز کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا ہے جو گرین، ییلو اور ریڈ ہیں، بہت سی ملکی اور بین الاقوامی این جی اوز اچھا کام کر رہی ہیں، ایک وہ جو اپنے ضابطے اور چارٹر کے تحت کام کر رہی ہیں

یہ گرین کیٹیگریز میں آتی ہیں۔ ییلو کیٹیگری میں وہ این جی اوز ہیں جو کام تو ٹھیک کر رہی ہیں مگر وہ اپنے معاہدہ سے تجاوز کر گئی ہیں۔ این جی اوز کا معاملہ وزارت داخلہ کے نہیں اکنامک افیئرز ڈویژن کے دائرہ کار میں آتا ہے، وزارت داخلہ کے دائرہ کار میں صرف ان کی سیکورٹی کلیئرنس کا معاملہ آتا ہے۔ تیسری کیٹیگری ریڈ ہے، ہمارا خدشہ ہے کہ اس کیٹیگری کے تحت این جی اوز ملکی مفاد کے خلاف کام کر رہی ہیں، وزیراعظم نے طارق فاطمی کی سربراہی میں بین الوزارتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ وزارت داخلہ کو اکنامک افیئرز ڈویژن سے سفارش آئی ہے جس پرحکومت نے دفتر سیل کیا جن کے خلاف الزامات ہیں ان کے خلاف ٹھوس ثبوت ملے تو ان کے دفاتر بند کر سکیں گے، اس سارے عمل کو تیز کیا جا رہا ہے۔ آئندہ دو تین دنوں میں معاملہ میں مزید کلیریٹی آئے گی۔

کئی این جی اوز کا عالمی سطح پر اچھی شہرت ہے، فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ یہ کام جلدی میں کیا جائے، کل اور پرسوں اس حوالے سے واضح پالیسی بن جائے گی، جس این جی او کے خلاف ایکشن لیا گیا تھا میں نے اس کے خلاف الزامات کی بات نہیں کی تھی۔ تمام این جی اوز کو ریگولیٹ کیا جائے گا اور انہیں ملک کے آئین، قانون اور معاہدوں کا پابند بنایا جائے گا، یہ کام ملک کے مفاد میں ہوگا۔نئی این جی اوز کو اسی ریگولیشن کی بنیاد پر اجازت نامے ملیں گے۔ مانیٹرنگ میکنزم ہونا چاہئے تاکہ وہ ملک کے قانون کے تحت کام کریں اور اس بات کی مانیٹرنگ ہو سکے گی کہ آیا وہ ملک کے قانون کے تحت کام کر رہے ہیں یا نہیں۔ اگر انہوں نے ریڈ لائن کراس کی تو حکومت کے علم میں ہونی چاہئے۔چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ حکومت کے سامنے یہ بھی تجویز ہے کہ اکنامک افیئرز ڈویژن سے این جی اوز کا معاملہ وزارت داخلہ کو منتقل کیا جائے، اس کا فیصلہ بھی ایک دو دنوں میں ہو جائے گا۔

Maher Basharat Siddiqui

Maher Basharat Siddiqui

تحریر: مہر بشارت صدیقی