جو کچھ کرنا ہے آپ نے ہی کرنا ہے

Justice

Justice

تحریر: انجینئر افتخار چودھری
اس ملک کے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہا کسی کو ٦٥ بکسوں کے ساتھ جدہ روانہ کر دیا گیا اور کسی کو جیل۔ انصاف یہ نہیں انصاف یہ ہے کہ ان بڑی مچھلیوں کو گرفتار کیا جائے جنہوں نے اس ملک کے وسائل کو شیر مادر سمجھا۔ انصاف یہ ہے کہ انہیں جیلوں میں بند کیا جائے کیس چلا کر کوٹھڑیوں میں بند کیا جائے نہ کے محلوں میں رہیں۔ چوروں کے ساتھ مذاکرات نہیں لترول کی جاتی ہے۔

ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ جنہیں جیل میں ہونا چاہئے وہ جدہ میں پاکستانیوں کو جیل میں بھیج رہے ہیں۔مجھے سفارشیں آ رہی ہیں کہ افتخار صاحب کو کہیں ہتھ ہولا رکھیں آپ گلو بٹوں سے ہاتھ اٹھا لیں بے گناہ پاکستانیوں کے شب وروز خراب نہ کریں ان کے اقامے تجدید کرائیں جیلوں سے نکلوائیں۔میں حلفا کہتا ہوں میں آپ کو معاف کر دوں گا اگر آپ پاکستانیوں سے زیادتیاں بند کر دیں۔میں جناب آرمی چیف سے درخواست کروں گا کہ وہ بیرون ملک سفارت خانوں کی کارکردگی پر نظر رکھیں خاص طور پر جدہ قونصلیٹ پر کڑی نگاہ رکھیں اس لئے کہ وہاں کے لوگوں کی زندگی دوبھر کر کے رکھ دی ہے قونصل جنرل اور ان کی ٹیم میں شامل سہیل علی خان نے جو شریفوں کے زیر سائے زریفوں کی پگڑی اچھالنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا ایک ساتھی تو اپنی فوجوں سمیت میرے لشکر میں آ گیا ہے میری مراد سلمان سہگل سے ہے جس نے پرسوں فون کر کے معذرت کی۔فضل سبحان کو باہر نکلوائو اسکول میں سٹاف کو مت کہو کہ انجینئر افتخار معافی مانگ لے تو اقامہ تجدید ہو جائے گا۔تف ہے اس ننگ وطن پر جو اس معافی مانگنے کا کہہ رہا ہے جس نے آمر کے منہ پر تھوک دیا تھا اور جیل کو معافی مانگنے پر ترجیح دی تھی۔ اب آئیے دوسرے مسائل کی جانب۔حضور اس آپریشن کے حتمی نتائج آپ ہی کے دور میں سامنے آنے چاہئیں ورنہ فوج میں کون سے ولی اللہ بیٹھے ہیں جو آپ کے مشن کو لے کر آگے بڑھیں کیا ایک اور این آر او والا نہیں آ جائے گا کیا جنرل کیانی جیسا مال بٹورو نہیں آن ٹپکے گا؟

جنرل راحیل صاحب اس وقت آپ پاکستان کے مقبول ترین شخص ہیں اور اس کی وجہ آپ کی اس وطن سے محبت ہے اور اس محبت کے تقاضے آپ پورا کر رہے ہیں۔ہمیں یقین کیجئے کسی اور پر اعتبار نہیں ہے ویسے سنکی قسم کے لوگوں سے مجھے چڑ ہے،ہر دم ریبل، ہر بات کو نہ تسلیم کرنا۔ذوالفقار علی بھٹو کو ٤ اپریل ١٩٧٩ کو پھانسی ہوئی تو با با سراج جو اب مرحوم ہو چکے ہیں انہوں نے کہا یہ ایک سازش ہے ایک پلان ہے جس کے تحت ضیائالحق نے انہیں دبئی بھیج دیا ہے انہیں بلکل پھانسی نہیں ہوئی۔انسان مختلف کیفیات سے گزرتا ہے وہ کبھی کبھی محلے باغبانپورے کا مولوی سراج بھی بن جاتا ہے۔انھے واہ اعتماد کرتا ہے۔ میں بھی آج کل کا کے اور عباس کا ابا مولوی سراج بن گیا ہوں۔پتہ نہیں ایک عرصے سے مجھے لگ رہا ہے کہ بریطانیہ کبھی بھی الطاف حسین کو شکنجے میں نہیں لے گا۔ میرا وجدان کہتا ہے گورااتنا بے وقوف نہیں۔آپ کو یاد ہو گاایک بار تو ایسا لگا کی الطاف صبح گیا شام گیا۔عمران فاروق کیس میں نپ لیا جائے گا۔اس وقت بھی میرا کہنا تھا گورے کبھی وہ کام نہیں کریں گے جس کا فائدہ پاکستان کو ہو گا۔ویسے ہم بھی خوب ہیں اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی کوشش کرتے ہیں جس کے سبب بیمار ہوئے۔بھلا بریطانیہ ہمارا فائدہ کرے گا؟کیوں کرے گا ؟کیا ضرورت پڑی ہے اسے؟اور ہم بھی بڑے سادہ ہیں میر سے بھی زیادہ کہ ایک بار اس کے ہاتھوں ڈسے ہوئے دوبارہ اس کھڈ میں انگلی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔تقسیم پاکستان کے وقت جو ڈنڈی ریڈ کلف اور اس کی ٹیم نے ماری وہ بھی ہمیں پتہ ہے۔راتوں رات گورداس پور کو انڈیا کے حوالے کر دیا۔بہت سوں کا کہنا ہے یہ بڑی لمبی پلاننگ تھی وہ کیا تھی کہ کشمیر کا راستہ ہند کو دے دیا جائے۔اور پھر ایک ناسور جنم لے گیا۔اب تو ہم بڑے ماڈرن ہو چکے ہیں ہمیں کسی سے کیا لینا دینا کشمیر کشمیریوں کا ہے وہ جانیں ہمیں پرائی کیا پڑی ہے۔مجھے اگر کوئی کہے کہ مشرف کو کس جرم میں سزا دوں تو میں کہوں گا کہ اس ظالم نے سب سے پہلے پاکستان کا نام نہاد نعرہ ایجاد کیا اور عالم اسلام کا شہہ زور ورکشاپ کا چھوٹو بنا دیا۔جب محسود قبائل نے کشمیر کی آزادی میں مدد کی تو اسی کے دور میں ان پر ڈرائون اٹیکس کی بھرمار کر دی گئی۔زرداری دور اور موجودہ دور میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔

Imran Farooq, Case

Imran Farooq, Case

انگلینڈ نے ہند کے سنہری خطے کو چھوڑتے وقت جو شدید قسم کی زیادتیاں کیں اس میں گرداس پور کو انڈیا کے حوالے کرنا جرم عظیم شامل ہے گرچہ پاکستان کا ایک قادیانی وزیر خارجہ چودھری ظفراللہ خان بھی اس میں شریک تھا اس کی غرض و غائت قادیاں کا گائوں تھا جو ایک کذاب نبی کا مسکن تھا وہ اسے ہند میں ہی رکھنا چاہتا تھا اسی لئے گورداس پور آخری دنوں میں ہندوستان کو دے دیا گیا۔اس غیر منصفانہ تقسیم سے لہو کی ندیاں بہہ گئیں۔خیر میں موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں میڈیا نے اس طرح کی ہائیپ کریئٹ کر دی ہے کہ اسے آئے روز نئی نئی خبروں کی تلاش رہتی ہے۔اب اس کے ہاتھ بی بی سی کی رپورٹ آ گئی ہے جس میں اس ادارے نے وہی گھسی پٹی خبریں دی ہیں جسے یہ قوم ایک عرصے سے سن رہی ہے۔کون نہیں جانتا کہ ایم کیو ایک ایک فاشسٹ تنظیم ہے اس کا سارا دارومدار عسکریت ہے۔انگریز ڈاکو رابن ہڈ اور ہمار ڈاکو ملنگی یہی کچھ کرتے تھے امیروں کو لوٹو اور غریبوں میں بانٹو۔اس تنظیم کی واحد خوبی یہ ہے کہ یہ لوگوں کے کام کرتی ہے لیکن اس معصوم عوام کو بلکل علم نہیں کہ اس کے سارے لیڈر سارے ایم ایز اور ایم پیز غائبی اشاروں پر روبوٹ کی طرح چلتے ہیں۔ایک دوسری کی جاسوسی کرتے ہیں اور کبھی بھی ایک شخص اکیلا کسی سے ملاقات نہیں کرسکتا اس کے سر پر گسٹاپو کی طرز پر دوسرا مسلط ہوتا ہے۔بس یہی ان کی طاقت ہے جسے عمران خان نے توڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے وہ آج بھی اس شہر میں موجود ہے جہاں کبھی کوئی دوسرا قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔

اب میں اپنے اس خدشے کی طرف جاتا ہوں۔تین روز پہلے جناب زرداری ایک معاشی دہشت گرد کی صورت میں ہمارے سامنے لائے گئے۔وہ مسئلہ بی بی سی کے شور میں بڑے آرام سے فراری بن گئے وہ ایک عرب ملک چلے گئے ہیں جہاں ان کی زندگی کا شاہانہ رنگ اپنی آن بان سے موجود ہے ایسا ملک جو جو ہے تو عرب مگر دنیا کا غلیظ ترین کلچر پروان چڑھا رہا ہے۔معاف کیجئے اگر وہ دہشت گرد تھا(معاشی) تو اسے جانے کیوں دیا گیا؟اس نے اپنی زبان سے پاک فوج کو للکارا؟اس کو اس کی کیا سزا دی گئی؟الطاف حسین نے گالیاں دیں ؟کیا ہوا۔میں بس اپنی قوم سے یہی کہوں گا کہ کچھ بھی نہیں بدلنے والا زرداری نہ ہو گا تو بلاول آ جائے گا ادھر شہباز شریف کے فرزند کی انگلیاں ابا سے بھی تیز چلتی ہیں۔

قوم کو امید ملتی ہے خوش ہوتی ہے اور پھر مایوس۔ضرب عضب تب ہی کامیاب ہو گی جب آپ ضرب غضب کی طرف نکلیں گے۔عجیب ملک ہے عجیب بدمعاشی ہے اہم ترین ادارے کو بدنام کرو اور چلتے بنو۔اب بی بی سی ہمارے مسئلے حل کرے گی۔جناب نواز شریف نے زرداری سے قطع تعلق کر لئے۔یاد رکھئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،فوج کے بارے میں زرداری نے جو کچھ کہا اور فوج کے بارے میں میاں صاحب ماضی میں جو کچھ کہتے رہے ہیں اس میں فرق ہی کیا ہے؟ہمیں بی بی سی کی رپورٹوں کے لولی پاپ سے نہ بہلایا جائے۔باغبانپورے کا مولوی سراج کا ذوالفقار علی بھٹو پر لازوال اعتماد تھا وہ اسے اپنا نجات دہندہ سمجھتا تھا لیکن ہم وہ اندھ دھند اعتماد رکھنے والے نہیں ہیں۔قوم کو موجودہ بطل سے بڑی امیدیں ہیں۔احتساب ہمیشہ بے رحم ہوتا ہے۔وہ شوگر کے مرض بلند فشار خون کو نہیں مانتا۔سچی بات ہے جب یہ خبر پڑھی کے دونوں بہن بھائی دبئی چلے گئے ہیں تو دل کو دھچکہ لگا۔قوم کے اربوں نہیں کھربوں ہضم کرنے والے اس طرح نکل جائیں گے تو معاف کرنا عذیر بلوچ کو کیوں پکڑا،صولت میرزا کو کیوں پھانسی دی؟یہاں کا دستور نرالا ہے پچاس سو روپے کے چور کو چوک میں لمیاں پاء کے مارتے ہوئے اور جنہوں نے اربوں کھربوں ڈکارے ہیں انہیں سیلوٹ۔یہ نہیں چلے گا۔حضرت علی نے فرمایا تھا کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے ظلم کا نہیں۔٦٨ سال ہو گئے ہیں اس ملک میں کفر اور ظلم کے نظام دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں،شائد خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اور اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ پاکستان کے غریب عوام جب لاشیں اٹھا رہے تھے یہ لوگ اس سرزمین کی عیاش گاہ دبئی چلے گئے کسی نے نہیں روکا قائد اعظم ایئر پورٹ پر وہ ان جوانوں کے سامنے سے ہنستے گزر گئے جنہوں نے اس دھرتی سے وفا کی قسمیں کھائی ہوئی ہیں۔

اس وقت یقینا ان کے ذہن میں بھی سوال اٹھا کہ معاشی دہشتگردی میں ملوث بڑی مچھلی کو تو جانے دیا گیا اور اس کے چیلے دھر لئے گئے ڈاکٹر عاصم کو پکڑ لیا گیا مگر اس بتیسی والے کو کون لائے گا۔اس ملک کے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہا کسی کو ٦٥ بکسوں کے ساتھ جدہ روانہ کر دیا گیا اور کسی کو جیل۔انصاف یہ نہیں انصاف یہ ہے کہ ان بڑی مچھلیوں کو گرفتار کیا جائے جنہوں نے اس ملک کے وسائل کو شیر مادر سمجھا۔انصاف یہ ہے کہ انہیں جیلوں میں بند کیا جائے کیس چلا کر کوٹھڑیوں میں بند کیا جائے نہ کے محلوں میں رہیں۔

حضور اس آپریشن کے حتمی نتائج آپ ہی کے دور میں سامنے آنے چاہئیں ورنہ فوج میں کون سا ولی اللہ بیٹھے ہیں جو آپ کے مشن کو لے کر آگے بڑھیں کیا ایک اور این آر او والا نہیں آ جائے گا کیا جنرل کیانی جیسا مال بٹورو نہیں آن ٹپکے گا؟جنرل راحیل صاحب اس وقت آپ پاکستان کے مقبول ترین شخص ہیں اور اس کی وجہ آپ کی اس وطن سے محبت ہے اور اس محبت کے تقاضے آپ پورا کر رہے ہیں۔ہمیں یقین کیجئے کسی اور پر اعتبار نہیں ہے جو کچھ کرنا ہے آپ نے کرنا ہے۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر: انجینئر افتخار چودھری
iach786@gmail.com