سیاسی انتشار ملک و قوم کے مفاد میں نہیں

Democracy

Democracy

تحریر : عبدالجبار خان دریشک
یہ حقیقت ہے کہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ایک ہاتھ کا دوسرے ہاتھ شدت سے ٹکرانا اور اس ٹکراو کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آواز کا چاروں طرف پھیل جانا کسی عمل اور روعمل کا نتیجہ ہی ہوتا ہے ہمارے ملک کی سیاسی صورت حال کسی بجتی تالی سے کم نہیں عمل دونوں طرف سے ہوتا ہے تو اس کی گونج پورے ملک میں سنی جاتی ہے ہماری جمہوریت بھی کسی نئے چلنے والے بچے کی طرح لٹکے جھٹکے کھا کر منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ چھوٹا بچہ جب ہچکولے کھاتے کسی چیز سے ٹکراتا ہے تو چیزوں کا نقصان کم ہوتا ہے لیکن خود اس بچے کا اپنا نقصان زیادہ ہوتا ہے بچے کو چوٹ بھی زیادہ لگتی ہے اور روتا بھی دیر تک ہے جبکہ اس کے چلنے میں کچھ وقت کا وقفہ بھی آجاتا ہے یہ سب کچھ اس کے اناڑی پن سے ہی ہوا ہوتا ہے ایسے ہی ہماری جمہوریت کے ساتھ ہو رہا ہے مسائل پہلے خود پیدا کیے جاتے ہیں جب مسائل کے نتیجے میں ٹکراو ¿ پیدا ہوتا ہے تو اپنا ہی نقصان کروانا پڑتا ہے موجودہ حکومت کی ساری مدت سیاسی کشمکش میں پوری ہونے تو والی ہے لیکن ملک میں نئی نئی روایات بھی قائم ہوتی جا رہی ہیں۔

موجودہ جمہوری حکمومت ہو یا سابقہ دونوں ہی سیاسی انتشار اور مسائل میں الجھی رہیں مسلسل عدالتی کیس اور کاروائیوں میں ایسے غرق ہوئیں کہ عوامی مسائل کی فکر ہی نہ رہی ساتھ ہی احتجاج دھرنوں جلسوں کا ایک نیا کلچر پیدا کر دیا گیا سیاست لڑنے جھگڑنے اور مرنے مارنے کا نام نہیں بلکہ مسائل کا حل جمہوری انداز میں گفت شنید سے کیا جانا ایک دوسرے کو برداشت کرنا ایک دوسرے کی بات سننا مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا یہی سیاست ہے اور جمہوریت کا حسن بھی، لیکن ہمارے ہاں جمہوریت کی شکل ہی بگڑتی جا رہی ہے۔ مسائل کے حل کے لیے ایک دوسرے سے بات چیت کی روایت دم توڑ گئی ہے جس سے سیاست دانوں کے علاوہ مختلف مکاتب فکر میں تقسیم پائی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہر کوئی اپنے مطالبات منوانے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرنے لگا۔ سماج میں مکالمے کی روایت زندہ اور توانا ہوتی تو ایسے بہت سے المیے ہمیں نہ دیکھنے پڑتے، جو ہم ان چند سالوں میں دیکھ چکے ہیں۔

ملک میں سیاسی انتشار کے نتیجے میں بڑے بڑے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن کا خمیازہ پوری قوم کو ادا کرنا پڑا۔ دھرنوں کی ابتداءسابقہ دور حکومت میں ہوئی جس کے بعد ہر کوئی اپنے مطالبات منوانے کے لیے دھرنوں کا ہی سہارا لینے لگا۔ جس کا سلسلہ تاحال جارہی ہے حالانکہ موجودہ دور کے دھرنے ہوں یا سابقہ دور کے سب کا اختتام ہمیشہ مکالمے سے ہوا ہے اگر یہ بردباری بڑا پن پہلے دیکھایا جاتا تو نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔ لیکن ایسے دھرنوں کی نوبت ہی کیوں پیش آتی۔ سیاسی دھرنے تو اپنی جگہ رہے گئے اب ہر شعبے سے وابسطہ افراد اپنے مطالبات منوانے کے لیے دھرنے ہڑتالیں کر کے حکومت کے لیے جو پریشانی پیدا کرتے سو کرتے ہیں لیکن سب بڑا سے مسئلہ عام پاکستانی کے لیے بنتے ہیں۔ دھرنوں جلسوں جلوسوں انتشار ریلیوں ہڑتالوں سے عام آدمی کی زندگی کاپہیہ روک جاتا ہے اور نظام مفلوج ہو کر رہے جاتا ہے
دھرنوں سے اقتصادی نقصانات تو ہوتے ہی ہیں لیکن ہر بار ہونے والا دھرنے ریاست کی عملداری کو بھی چیلنج کرتا ہے، جو کسی طور بھی معیشت کے لیے سود مند نہیں ہے۔حالیہ فیض آباد دھرنے کا اختتام بھی تو گفتگو سے ہو پایا لیکن اس ضد اور آنا پرستی میں جو نقصان ہوا وہ عام پاکستانی کا ہوا۔ اور ملک میں ایک نئی روایت نے جنم لیا کہ ایک طرف سے ضد تھی اور اس کے مقابلہ تشدد کا راستہ اختیار کر کے کیا گیا تو دوسری طرف اس کا بھیانک ردعمل ، اب یہ روایت چل پڑی ہے ایک نے بات ماننی ہی نہیں تو دوسری طرف تشدد اور دنڈے کے زور پر بات منوانی ہے گزشتہ دونوں ملتان کے وکلاءنے بھی کچھ ایسا ہی راستہ اختیار کیا اپنی بات منوانے کے لیے کچری میں توڑ پھوڑ کی کہا جاتا ہے ان کے مطالبات جائز تھے پر جو راستہ اختیار کیا گیا وہ غلط تھا مان لیا راستہ غلط تھا لیکن اس حد تک نوبت کیوں پیش آئی۔ فیض آباد دھرنے لانگ مارچ اور دیگر معاملات میں یہی صورت حال تھی مطالبات جائز راستہ غلط، جب مطالبات جائز ہیں تو پہلے کیوں مان نہیں لیے گئے کیوں ملک و قوم کا نقصان کراویا جاتا ہے۔ جب دھرنے دینے والے حق پر تھے تو مسئلہ مذکرات سے حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔

دھرنوں کے معاشی نقصا نا ت کے اثرات دیر تک محسوس کیے جا تے ہیںان کے ختم ہو نے کے فوراً بعد مہنگا ئی کا ایک نیا طو فان آجاتا ہے جو کبھی نہیں ختم ہو تا ہے بلکہ بڑھتا رہتا ہے ۔ 2014 میں اسلام آباد میں 126 دن کے دھرنے کے نتیجے میں معیشت کو 547 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق اس دھرنے کے سبب پاکستانی روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی میں زیادہ رقم ادا کرنا پڑی اور منفی تاثر کے سبب سٹاک مارکیٹ میں بھی مندی سے 319 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ دھرنے کے سبب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اضافی 35 کروڑ 76 لاکھ روپے دیے گئے ہیں جبکہ تاجر برادری نے بلیو ایریا کے کاروباری مراکز بند ہونے کے سبب 10 ارب روپے کے نقصان کا دعویٰ کیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطا بق دھرنا دینے والی سیاسی جماعت کے 126 دن دھرنے پر 29 کروڑ 33 لاکھ 58 ہزار روپے خرچ ہوئے۔جبکہ حالیہ فیض آباد میں مذہبی جماعت کے دھرنے میں اسلام آباد پولیس کا کل خرچہ 19 کروڑ 55 لاکھ روپے آیا جبکہ میٹرو اسٹیشن کی توڑ پھوڑ اور بندش کے باعث 6 کروڑ 60 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ دھرنے کے دوران پولیس جوانوں کے کھانے پر 9 کروڑ 30 لاکھ روپے خرچہ آیا جبکہ پیٹرول پر 2 کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔جڑوں شہروں میں حفاظتی اقدامات کے تحت کنٹینرز لگا نے پر 6 کروڑ روپے لگے جبکہ اسلام آباد انتظامیہ نے سیکیورٹی اہلکاروں کی رہائش کے لیے جو عمارتیں کرائے پر لیں ان پر 20 لاکھ کا خرچہ آیا۔اس کے علاوہ دھرنے کے دوران مختلف اشیا کی خرید پر بھی 15 لاکھ روپے لگے۔22 دن میٹرو کی بندش اور فیض آباد، شمس آباد اسٹیشنز کی توڑپھوڑ سے 6 کروڑ 60 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ مشتعل مظاہرین نے فیض آباد اسٹیشن پر ٹکٹنگ بوتھ، لفٹ، آٹومیٹک دروازے، کیمرے اور شیشے توڑ دیے جس نقصان کا تخمینہ 2 کروڑ روپے ہے۔

اسدھرنے کے اثرات پورے ملک پر پڑے کراچی لاہور پشاور فیصل آباد ملتان حیدرآباد اور دیگر شہروں میں دھرنے احتجاج کے نتیجے میں توڑ پھوڑ سے کرڑوں روپے کا نقصان ہوا اس کے علاوہ نااہلی کے فیصلے کے خلاف تحریک کی وجہ سے جی ٹی روڈ پر آنے والے شہر بند کیے جاتے ریے شہریوں کو تکلیف کے مالی نقصان الگ سے اٹھانا پڑا یہ تو وہ اعداد شمار ہیں جن کا تخمینہ لگایا گیا اس کے علاوہ عوام کا اور نقصان کیا ہوا حکومت اور ایوزیشن چار سال ایک دوسرے سے اقتدار کی جنگ میں الجھے رہے عوامی مفاد کے لیے کبھی مل بیٹھ کر بات چیت نہیں کی گئی۔ عوامی مسائل جوں کے توں رہے۔ ساتھ ہی اس کشمکش کے نیتجے میں عدالتوں اور میڈیا کو بھی اس میں مصروف رکھا گیا۔ چار حلقوں کا معاملہ اور اس کا کیس پھر پانامہ کیس اب نیب ماڈل ٹاو ¿ن اور دیگر ان جیسے معاملات کے کیس سننے میں عدالتیں مصروف ہیں اور ادھر ہمارا میڈیا بیس منٹ کے رات نو بجے کے بلٹن میں یہی سیاسی انتشار تشدد کوٹ کچری سخت لہجے والی پریس کانفرنس گالم گلوچ پر مشتمل جلسے میں خطابات ہی دیکھتا ہے عوامی مسائل کی جگہ ہی نہیں بچتی۔ میڈیا کی سیاسی کوریج کی وجہ سے عوامی مسائل ارباب اختیار تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔

حالیہ ملکی صورت حال سیاسی طور پر بگڑتی جا رہی ہے نئے اتحاد بنتے جا رہے سینٹ الیکشن سے پہلے استعفے یا کوئی اور دھرنہ ہونے کے امکانات ظاہر کیے جاتے ہیں۔الیکشن 2018 میں ہوں گے یا کوئی اور سیٹ اپ تیار کیا جائے گا ادھر نااہلی کے بعد ایک اور تحریک چلانے کا پلان تیار کیا جارہا جو سوائے وقت کی برباد کرنے کے اور کچھ نہیں ہوگا ۔ہم سب کو یقیناً غور کرنا ہوگا کہ ہماری آنا پرستی تکبر پر مبنی رویے انتشار کو دعوت دیتے ہیں ایک دوسرے کو تحمل سے سن کر ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے مسائل کا حل باخوبی نکلا جا سکتا کہ کسی سے زیادتی بھی نہ ہو اور معاملات بھی خوش اسلوبی حل ہو پائیں۔ ہر مکاتب فکر عام پاکستانی اور خاص کر سیاست دانوں کو حالات کی سنگینی کا اندازہ کرنا چاہئے کہ پاکستان کس قدر اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہے اور پاکستان میں کسی بھی نوع کا انتشار وطن عزیز کے دشمنوں کی راہ ا?سان کرے گا اور یقیناً کوئی بھی پاکستانی ایسا نہیں چاہئے گا۔

Abdul Jabbar Khan

Abdul Jabbar Khan

تحریر : عبدالجبار خان دریشک